الیکشن اور اللہ دتّہ
7 تبصرے:
- علی نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہم سب مل کر؟؟؟
کیسی باتاں کر رہے ہیں استاد جی
مل صرف ایک پسند ہے ہماری قوم کو وہ ہے صنعتی مل - April 30, 2013 at 9:21 PM
- Dohra Hai نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ستاد جی آج فارم میں ہیں بہت خوبصورت تحریر ہے یہ جناب کی پڑہ کی دِل خوش ہوگیا۔ جمہوری تسلسل کو جِس خوبصورتی سے اپ نے بیان کیا ہے اس سے بہتر اور آسان تشریح مُمکِن ہی نہیں ہے۔
میں بس جند گُزارشات کرنا چاہوں گا۔ آج کی دُنیا میں ہر کام کا ایک طے شُدہ طریقہ کار ہے ۔اور اُسی کو فالو کرنے سے ہی بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جمہوریت ریاستی امور چلانے کا سب سے بہتر نِظام تصور کیا جاتا ہے ۔ جِن اقوام نے اِس نظام کو اپنا بہت تجربات سے گُزرنے کے بعد اُس کے اصول و ضوابط طے کر کے اُسے بہترین شکل عطا کر دی ہے ۔ ہماری مزبہی کِتاب میں حُکم دیا گیا ہے کہ اِسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجا و مطلب جِس بھی نظام کو اپنایا جائے تو مُکمل حالت میں اپنانے سے ہی بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہی اصول جمہورت کے بارے میں ھی اپنانے کی ضرورت ہے۔ تجربات درکار نہیں ہہں وِژن اور نیک نیتی کی ضرورت ہے۔
آپ کرکٹ ہی کی مِثال لے لیں۔ کھیل پر مہارت کے لئے نیت پریکٹس کی جاتی ہے اور پھِر اُس نیت پریکٹس کے بعد بہترین کھِلاری اگلے لیول میں پہنچتے ہیں۔ اور پھِر ایک ٹیم تیار ہوتی ہے۔بہت سادہ سی بات ہے کہ گراس روٹ لیول پر کام کی ضرورت ہے۔ اور اس پر کام کئے بغیر نہ ہی ہمیں جمہوریت کی سمجھ آئے گی اور نہ ہی اِس کےفوائد ہم جان پائیں گے۔ نہ جانے کیوں ہم لوگ یہ بات ماننے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ مشرف کا دیا ہوا لوکل باڈی سِسٹم ایک بہت بڑا قدم تھا جمہوری طرِز حکومت کو سمجھنے میں۔ پرویز اِلہی لاکھ بُرا سہی مگر اُس نے یہ سِسٹم چلا کر بھی دِکھایا۔ اور مل بیٹھ کر لوٹنے کے طریقے دریافت کئے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوامی شعور بھی بڑی تیزی سے بیدار ہونے لگا۔ پہلے چار سال کے بعد دوسرے چار سال بھی گُزرے لوگوں میں بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہونےلگی۔ (میں اِس دور کے کچھ ذاتی تجربات پھِر کبھی بیان کروں گا شائد پوسٹ کی صورت میں) مگر افسوس صد افسوس پھِر سے کمشنری نظام ہم پر مُسلط کر دیا ہے۔ کھوتی کھو میں گئی اور عوام گو میں۔ ایک بات جِس پر میں خاص طور پر زور دینا چاہتا ہوں۔ کہ ہماری سیاسی پارٹیاں دلیرانہ فیصلوں سے ڈرتی ہیں ۔ طاقت چند ہاتھوں میں محدود رکھنے میں ہی اپنی بقا جانتی ہیں۔ لیڈر شِپ کا کام عوام کی راہنمائی ہوتا ہے مگر ہماری بدقِسمتی ہے کہ لیڈر شِپ اپنا کام بہتر نہیں کرتی رہی۔ جِس کا نتیجہ آج بھی یہ ہے کہ ہم محض بطور تماشائی تو کھیل میں موجود ہیں مگر اِس کھیل کا حِصہ نہیں ہیں۔ ہم کِسی کو سیاست کا لارا جانتےہیں تو کِسی کو وِو رِچرڈز ہمارا کام بس اِنہی کی بیٹنگ سے محظوظ ہونا رہا گیا ہے۔ اِنہی کی تصوریریں ہم اپنےکمروں میں لگا کر جمہوریت سے اپنی محبت کا اِظہار کرتے ہیں اور مگر خود سے اِس کھیل کا حِصہ بننے بارےمیں سوچتے ہی نہیں۔ یہ المیہ ہے ہماری جمہوریت کا بہت بڑا المیہ۔ - May 1, 2013 at 2:10 AM
- MAniFani نے فرمایا ہے۔۔۔
-
پتے کی بات کہی پیارے لالا، کوئی شک نہیں برادری ازم زہر قاتل ہے معاشرے کی ترقی اور سماجی بہبود لئے ( یہ اصلی والی سماجی بہبود ہے نا کہ محکمہ بہبود والی(
- May 1, 2013 at 2:46 AM
- محمد سلیم نے فرمایا ہے۔۔۔
-
استاد محترم: پبلک اویئرنیس کا اس سے بہتر پیغام شاید ہی کوئی دے سکے۔ آپ کی تحریر (ان اللہ لا یغییروا بقوم - - - - ) کی جٹاکی تفسیر لگی۔
- May 2, 2013 at 7:06 AM
- Rai Azlan نے فرمایا ہے۔۔۔
-
خدا گواہ ہے کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا....
حالیہ چند ہفتوں میں الیکشن کے حوالے سے جتنا مواد پڑھنے کو ملا اس میں سے یہ وال بہترین ترین بلکہ ایک اور ترین تھا. تسلسل براۓ نظام اور ووٹ کی اہمیت جس سادہ اور خوبصورت انداز میں بیان کی... زبردست - May 2, 2013 at 6:48 PM
- علمدار نے فرمایا ہے۔۔۔
-
حالات کے تناظر میں عمدہ تحریر بلکہ بہترین پیغام ہے۔
- May 3, 2013 at 10:26 AM
- Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔
-
افسوس ان پر جو موروثی سیاست کو قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوئے پٹھان بازی لے گئے کپتان کا ساتھ دے گئے اور ہم پھر دغا دے گئے افسوس پنجابیو!!!
- May 13, 2013 at 12:08 PM