نوٹس بورڈ پر کلاس روم اور لیکچرر کا نام تلاش کرتے ہوئے نظر، رُستم علی ضیاء،
پر پڑی تو پہلا خیال جو ذہن میں آیا وہ ایک لمبے تڑنگے، دس بج کے دس منٹ والی
مونچھوں اور مصطفی قریشی جیسی آواز والی دبنگ شخصیت کا تھا۔ کلاس روم ڈھونڈتے ہوئے
نئے بلاک کے ایک کمرے میں پہنچے تو پینتیس چالیس، انواع و اقسام کے لڑکے بالے پہلے
سے موجود تھے۔ ہم بھی دم سادھ کے حسب معمول و عادت، پچھلے بنچوں پر جا کر تشریف
فرما ہوگئے۔ کچھ توقّف کے بعد خاموشی سی چھا گئی اور منمناتی ہوئی سی ایک آواز
سنائی دینے لگی۔ آواز کا مخرج البتہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ تھوڑا تردّد کیا اور ذرا
اُچک کر دیکھا تو ایک منحنی سے مُعنّک صاحب، جو ٹنڈولکر کے ہم قد تھے، پروفیسرانہ
مونچھیں اور صورت پر ثقلین مشتاق جیسی معصومیت لیے کچھ کہہ رہے تھے۔ ہم نے آخری
بنچ کو چھوڑ کے دو بنچ آگے ہجرت کی تو آواز کچھ واضح ہوئی۔ وہ اپنا تعارف کرارہے
تھے اور وہی روایتی باتیں کررہے تھے جو استاد پہلے دن اپنے طلباء سے کرتے ہیں۔
ہمیں بہرحال، رُستم علی ضیاء، اچھے لگے۔
کمرہءجماعت میں ہم ہمیشہ لو پروفائل رہنے کی کوشش کیا کرتےتھے۔اس سے دو فائدے
ہوتے، ایک تو استاد آپ کو نکمّا سمجھتے اور دوسرا
رٹّو طوطے ہم جماعت آپ سے پروفیشنل جیلسی محسوس نہیں کرتے تھے۔ رُستم صاحب
بھی ہمیں ایک کم گو، غبی اور سست طالبعلم سمجھتےاور دورانِ لیکچر ہمیں کسی سوال کے
جواب کے لیے تکلیف نہیں دیتے تھے۔ ویسے بھی ہمارا گریجویشن کرنے کا پلان ایک طعنے
کا نتیجہ تھا۔ ورنہ ہمیں اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ یہ البتہ ایک الگ کہانی
ہے۔
گریجویشن کے دوسال ہم نے کرکٹ کھیلتے، جگتیں کرتے اور دھوپ سینکتے (سردیوں
میں) گزار دئیے۔ تھرڈ ائیر کے سالانہ امتحان میں ہمارے نمبر دیکھ کے ہمارے سارے
اساتذہ اور ہر وقت کتاب لے کے گراسی پلاٹس میں بیٹھے رٹّو طوطے کم و بیش ایک جیسی،
گہرے شاک، والی کیفیت میں تھے۔ ایک دن کلاس ختم ہونے کے بعد باہر نکلتے ہوئے رُستم
صاحب نے ہمیں روک لیا اور پوچھنے لگے، "آپ نے امتحان خود دیا تھا ناں؟"۔
ہم نے جوابا کہا، "نہیں سر، میرے مؤکل نے دیا تھا"۔ وہ بات سمجھ گئے۔
قہقہہ لگایا، کندھے پر تھپکی دی اور اس دن
کے بعد ہم ان کی نظر میں آگئے اور ہمیں پہلے بنچ پر ہجرت کرنا پڑی۔
گریجویشن کے دوسرے سال رُستم صاحب پوری کلاس کو سٹڈی ٹور پر پنڈی اسلام آباد،
تربیلا اور مری لے گئے۔ (مری تو خیر سٹڈی نہیں پُونڈی ٹُور تھا)۔ پنڈی، اسلام آباد
کے سوشل ویلفئیر کے اداروں میں وزٹس کیے۔ تربیلا میں اس وقت رُستم صاحب کے کوئی
کلاس فیلو دھانسو قسم کے آفیسر تھے اور وہ دور بھی اچھا تھا تو ہمیں ان جگہوں کا
وزٹ بھی کرایا گیا جہاں عام طور پر سٹڈی ٹورز پر آنے والوں کو نہیں لے جایا جاتا
تھا۔ کنٹرول روم ٹائپ ایک بڑے سے ہال میں گھومتے ہوئے، ہمارے کلاس فیلو ملک واحد
نے ایک بڑے سارے پینل پر کھڑے انجینئر ٹائپ بندے سے پوچھا، "پائین، فیصلاباد
دی بتّی کتھوں بند کردے او؟" اس نے پوچھا کہ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ تو جواب
ملا، " میں سوچیا، آئے تو ہوئے آں، او بٹن ای پَن دیّے"۔ انجینئنر صاحب
نے حیران ہو کر ملک کی طرف دیکھا۔۔ پھر اسے احساس ہوا کہ یہ فیصل آباد سے آئے
ہیں!۔
پنڈی صدر کے ایک ہوٹل میں ہماری رہائش کا بندوبست تھا۔ ہمیں جو کمرہ ملا وہ
شاید چوتھی منزل پر تھا، تیسری منزل کے کمروں میں ہمارے گروپ کے باقی سارے
مسکیٹئیرز تھے۔ رات کو کھانے سے فارغ ہو کے ایک کمرے میں محفل جمتی تھی۔ ہمارے روم
میٹ جناح کالونی کے ایک شیخ صاحب تھے جن کا اصل نام، واللہ، ہم بھول چکے ہیں
کیونکہ ہمارا دیا ہوا نام اتنا مقبول ہوگیا تھا کہ اب یاد کرنے پر بھی ان کا اصل
نام یاد نہیں آتا۔ اصلی شیخ تھے، سرخ و سپید، گول مٹول، حساب کتاب میں تیز اور
باقی معاملات میں معصوم۔
ہم محفل میں پہنچے تو رنگ کھیلا جارہا تھا۔ شیخ صاحب ہمارے ساتھ تھے۔ ہمارے
آتے ہی پتّے سمیٹ دئیے گئے اور ساجد چیمے نے اپنے بیگ سے پلاسٹک کی ایک بوتل
نکالی۔ میز پر رکھے گلاسوں میں تھوڑا تھوڑا محلول انڈیلا اور سب کو "بسم اللہ
کرو" کہہ کے دعوت دی۔ ساجد کا تعلق ساہیانوالے سے تھا۔ جہاں کی مشہور مصنوعات
میں جاٹ اور دیسی ٹھرّا شامل ہیں۔ پینے والوں میں ساجد چیمہ، زاہد ٹھنڈ، ملک واحد
اور زاہد موٹا شامل تھے۔ شیخ صاحب کا رنگ شراب کا ذکر سنتے ہی پیلا پڑ گیا تھا۔ جبکہ
ہمیں کوئی ایسی چیز پینے سے کبھی دلچسپی رہی ہی نہیں جسے پینے کے لیے ناک بند کرنی
پڑے اور بعد میں وہ دماغ بند کردے۔
ہمارے ہم جماعتوں میں تین زاہد تھے۔ جن کے نام بالترتیب زاہد ٹھنڈ، زاہد موٹا
اور زاہد کیسٹ تھے۔ زاہد ٹھنڈ، پیپلز کالونی کے رہائشی تھے۔ جِم وغیرہ کرتے تھے۔
جس سے ان کا منہ پچک سا گیا تھا اور ایسے ٹھٹھک کر بات کرتے تھے جیسے ٹھنڈ لگ رہی
ہو ان کے پاس ایک زمانہء قدیم کا پوائنٹ ٹُو ٹُو کا زنگ لگا زنانہ پستول بھی ہوتا
تھا جو وہ ڈب میں لگا کر گھوما کرتے تھے۔ ہم نے ایک دفعہ ان سے پوچھ لیا کہ میاں، اس پستول سے شلوار میں
ناڑا ڈالتے ہو؟ تِس پر انہیں مزید ٹھنڈ لگنی شروع ہوگئی تھی۔ زاہد موٹا، غلام محمد
آباد کے رہائشی تھے۔ شدید موٹے اور شدید کالے۔ معصوم صفت انسان تھے، ہومیوپیتھک
کہہ لیں، جیسا کہ اکثر موٹے ہوتے ہیں۔ زاہد کیسٹ، محمد پورہ کے رہائشی تھے،
جماعتیے تھے تو کیسٹ کی وجہ تسمیہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ہر معاملے پر وہ اپنے
لیکچر کی کیسٹ چلا دیتے تھے اور پوری سنائے بغیر کسی کو بات نہیں کرنے دیتے تھے۔
ویسے ہم ان کے احسان مند بھی ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ ہماری جان بچائی تھی۔ یہ
کہانی بھی پھر سہی۔۔۔
تیسرے گلاس کے بعد محفل کی حالت بدلنے لگی ۔ ساجد چیمہ نہایت رومانٹک ہوکے
نورجہاں کے گانے گنگنانے لگا۔ زاہد ٹھنڈ کے چہرے پر آرنلڈ شوارزینگر جیسے تاثرات
آنے لگے، زاہد موٹے کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تھے۔ ملک واحد البتّہ ویسے کا
ویسا ہی تھا۔ آنکھوں میں ہلکی سی سُرخی کے علاوہ اسکی کسی حرکت یا بات سے نشے میں
ہونے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اس کی جگتوں کی دھار البتہ کچھ تیز ہوگئی تھی۔ ساجد
کی رومانی حالت کا رُخ جب شیخ صاحب کی طرف ہونے لگا تو ہم نے دخل در نامعقولات
کرتے ہوئے، ساجد سے پوچھا، "ساجد، وہ فائر کیسے لگا تھا تجھے؟" یہ سنتے
ہی چیمے کے تاثرات، چیتے جیسے ہوگئے۔ اور وہ اپنی ہزار دفعہ کی دہرائی ہوئی کہانی
پورے جوش و جذبے اور گالیوں کے ساتھ دہرانے لگا کہ کیسے اسے ڈیرے پر اس کے ویری نے
فائر مارا تھا اور اس کا چھوٹا بھائی اس کو ہسپتال لے جانے کی بجائے پہلے بندوق لے
کے اس ویری کو فائر مار کے آیا اور اس کے بعد ساجد چیمے کو ہسپتال لے کےگیا۔۔۔۔
فلمی سین تو یہ ہوا کہ وہ ایک ہی وارڈ میں دو بیڈ چھوڑ اپنی ٹانگوں پر پلستر
چڑھائے لیٹے تھے اور سارا دن ایک دوسرے کی والدہ ہمشیرہ، واحد کرتے تھے۔
زاہد ٹھنڈ، پانچواں گلاس ختم کرتے ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد
ہنگامے کی آواز سن کر ہم باہر دوڑے تو وہ ساتھ والے کمرے کا دروازہ پیٹ رہا تھا
اور مشیر مسیح، جو ہمارا ہم جماعت تھا، اسے گالیاں دے رہا تھا۔۔ نکل اوئے ویسٹ
انڈیز دیا چوہڑیا۔۔۔ مشیر، بستی عیسائیاں کا رہائشی اور بہت نفیس بندہ تھا (اب بھی
ہے)۔ اس نے عقلمندی کی کہ دروازہ نہیں کھولا اور مزید تماشہ بنانے سے گریز کیا۔
زاہد ٹھنڈ کو بڑی مشکل سے گھسیٹ کر کمرے میں لایا گیا۔ عام حالات میں ٹھنڈ کی مشیر
سے گاڑھی چھنتی تھی۔ جس کی وجہ مسیحیوں کا بوتل کوٹہ تھا۔کمرے میں واپس آئے تو
زاہد موٹا، پُھس پُھس کرکے رو رہا تھا۔ ملک کی آنکھوں میں شرارت تھی، اس نے اشارہ
کیا کہ اس سے پوچھو کہ کیا ہوا۔۔ ہم موٹے کے پاس جا کے بیٹھ گئے اور پوچھا کہ کیا
ہوا ہے۔۔ اس کے رونے کی آواز اور اونچی ہوگئی۔۔۔ "میرے نال بڑے ظلم ہوئے نیں،
میرے نال بڑے ظلم ہوئے نیں"۔۔ ہم سمجھنے سے قاصر تھے کہ اتنی بالی عمریا میں
کتنے کُو ظلم ہوگئے ہوں گے؟ ظلم کی نوعیت پوچھنے پر بھی وہی جواب ملتا رہا۔۔ میرے
نال بڑے ظلم ہوئے نیں۔۔۔ عام حالات میں زاہد موٹا ایک نہایت خوش باش اور ہیپی گو
لکّی قسم کا بندہ تھا۔ ہمیں آج تک سمجھ نہ آسکی کہ اس کے ساتھ کیا ظلم ہوئےتھے۔
ملک واحد البتّہ، اپنی گلامابادی وِٹ اور خوش مزاجی پر ویسے کا ویسا قائم تھا
جیسے پانچ گلاس پہلے تھا۔ آنکھ کی سُرخی اور منہ کی بُو کے علاوہ کوئی ایسی نشانی
نہیں تھی جس سے ان پانچ گلاسوں کا کوئی نشان ملتا ہو۔
متعلقہ تحاریر : کچھ ہلکا پھلکا