ماہا کا آج ہارورڈ
یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔ وہ سرکاری سکالر شپ پر ہارورڈ یونیورسٹی کے لئے منتخب
ہوئی۔ اس کے ابّا گلریز جیلانی بہت اہم اور طاقتور شخصیت تھے۔ ماہا کی ابتدائی
تعلیم کانوینٹ میں ہوئی۔ اعلی ترین تعلیمی اداروں سے ہوتی ہوئی ماہا آج دنیا کے
معتبر ترین تعلیمی ادارے میں پہنچی تھی۔ ماہا کا نصابی اور غیر نصابی ریکارڈ
شاندار تھا۔ ٹینس کی بہترین کھلاڑی ہونے کے علاوہ اسے گانے سے دلچسپی تھی۔وہ جب
لمز میں پڑھتی تھی تو ایک میوزک بینڈ کی لِیڈ سنگر بھی تھی۔ بینڈ کا نام
"ٹوائیلائٹ ریوولیوشن" تھا۔ اس بینڈ کے تین چار گانے بہت مشہور ہوئے۔
فارم ہاؤسز کی پارٹیز میں اکثر ڈی جے وہی گانے چلاتے تھے۔ "شیزان
سٹوڈیو" کے کمیل صفات نے بہت اصرار سے سیزن 37 میں ماہا کو پرفارم کرنے پر راضی
کیا تھا۔ آج بھی وہ نمبرز شیزان سٹوڈیو کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے گانے ہیں۔
موسیقی ماہا کی ترجیحات میں اتنی اہم نہیں تھی۔ اسی لئے ماسٹرز کرنے کے بعد ماہا
نے ہارورڈ کا قصد کیا۔ سکالر شپ حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ گلریز نام ہی کھل
جا سم سم کا درجہ رکھتا تھا۔
ماہا کو فلسفے سے گہرا شغف تھا۔ سماجی رویّے اور
ان کے مضمرات پر اس کے پیپرز بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ ماہا
زندگی میں کچھ ایسا کرنا چاہتی تھی جو عام لوگوں کے سماجی رویّوں میں تبدیلی لا کر
انہیں بہتر زندگی فراہم کرسکے۔ ماہا کے ڈاکٹریٹ کا موضوع بھی "ڈیماکریسی،
سوشل ویلفئیر اینڈ چینج" تھا۔اس کا ہدف پی ایچ ڈی کے بعد وطن واپس جا کر ایک
تنظیم بنا کر سماجی بہتری کے لئے جدوجہد کرنا تھا۔ دنیا میں پھیلی غربت اور اس کے
نتیجے میں جنم لینے والے المیے اسے بے چین رکھتے تھے۔ اس بے چینی کو وہ کہانیوں
میں پرو دیتی تھی۔ یہ مختصر کہانیاں مقبول عام جریدوں آنچل، کرن، شعاع، آداب عرض،
پاکیزہ وغیرہ میں تواتر سے شائع ہوتی تھیں۔ ان کہانیوں کے دنیا کی مختلف زبانوں
میں تراجم بھی ہوچکے تھے اور دنیا بھر میں ماہا ایک حساس لکھاری کے طور پر جانی
جاتی تھی۔
ماہا بچپن سے ہی یورپ، امریکہ،
کیریبئین اور جنوبی امریکہ جاتی رہتی تھی۔ امریکہ اس کے لئے نیا نہیں تھا لیکن
ہارورڈ ایک الگ ہی دنیا تھی۔ دنیا کے بہترین دماغ انسانی مسائل کی وجوہات اور ان
کا حل تلاش کرنے میں دن رات جتے رہتے۔ لائبریری ہمیشہ آباد رہتی۔ ماہا کے دن رات
پڑھائی میں گزرنے لگے۔ موسیقی، لکھنا، دوستوں سے میل ملاپ بہت کم ہوچکا تھا۔ کرسمس
کی چھٹیوں میں ماہا گھر نہیں گئی بلکہ بچپن کی دوست زلیخا کریم کے ساتھ بوسٹن میں
گزارنے کا فیصلہ کیا۔ زلیخا کے والد پولو کے بہترین کھلاڑی تھے۔ کریم نوشاد کا نام
پولو کے ہال آف فیم میں تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بوسٹن منتقل ہوچکے تھے اور اپنی
یادداشتیں قلمبند کر رہے تھے۔
کرسمس ڈنر پر کریم نوشاد نے
ایک خاص مہمان کو مدعو کیا تھا۔ دراز قامت، گٹھا ہوا بدن، گہری تفکّر میں ڈوبی
ذہانت بھری آنکھیں، ادھیڑ عمری کی سرحد کو چھوتی جوانی، بارعب اور دھیمی آواز۔ یہ
شطرنج کے فاتحِ عالم انعامِ الٰہی تھے۔ کریم صاحب نے ان کا تعارف ماہا سے کراتے
ہوئے بتایا کہ انعام سے ان کا تعلق بہت پرانا ہے۔ کریم صاحب نے قہقہہ لگا کر بتایا
کہ جمخانہ کلب میں اکثر ان سے شطرنج کی بازی رہتی تھی اور دو تین منٹ سے زیادہ
نہیں چلتی تھی۔ انعامِ الٰہی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ماہا کو انعامِ
الٰہی کی شخصیت نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ ان میں کچھ ایسی بات تھی جو ماہا نے اپنی
زندگی میں کم ہی کسی میں دیکھی۔ ایک مقناطیسی کشش جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی
ہے۔ ماہا نے ان سے پوچھا کہ آپ زیادہ مشہور نہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔ انعامِ الٰہی
نے بغور ماہا کی آنکھوں میں جھانکا اور بولے، لوگ ذہانت سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ ان کو
ایسے لوگ اور کھیل پسند نہیں آتے جن کا جوہر ذہانت ہو۔ انعامِ الٰہی کی نگاہ میں
کچھ ایسا تھا کہ ماہا کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھر بکھر گئے۔
ڈنر کے بعد لیونگ روم میں
ڈرنکس کا دور چلا۔ سیاست، سماج، لٹریچر، کھیل، صوفی ازم سب پر سَیر حاصل گفتگو
ہوئی۔ انعامِ الٰہی دھیمی آواز میں ہر موضوع پر ایسا نکتہ نکالتے کہ سب انگشت
بدنداں ہوجاتے۔ رات بھیگ چلی تھی۔ انعامِ الٰہی نے رخصت کی اجازت چاہی۔ ماہا کا دل
چاہ رہا تھا کہ وہ کچھ دیر اور ٹھہرتے لیکن یہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انعامِ الٰہی
کے جانے کے بعد ماہا نے زلیخا کو تنہائی میں جا پکڑا اور انعامِ الٰہی کا وٹس ایپ
مانگا۔ زلیخا کے چہرے پر شرارت تھی۔ اس نے کہا کہ وٹس ایپ تو میں دے دوں گی لیکن
انعامِ الٰہی بالکل سرد پتھر ہیں۔ ان کو توڑنا یا پگھلانا ممکن نہیں۔ ماہا نے ایک
ادا سے شانے جھٹکے اور بولی، میرا نشانہ بھائی ساب، دیکھے زمانہ بھائی ساب، تیر پہ
تیر چلے بھائی ساب، بچ کے نہ کوئی جائے۔۔۔۔ دونوں سہیلیاں کھلکھلا کے ہنس پڑیں۔
ماہا اور انعامِ الٰہی کے
مابین مستقل رابطہ قائم ہوگیا۔ بالمشافہ ملاقات ممکن نہیں تھی کہ ماہا پڑھائی کا
حرج نہیں چاہتی تھی اور انعامِ الٰہی لاس ویگاس کے ایک کیسینو میں پارٹنر تھے۔
ماہا کے لئے اتنی دور جانا ممکن نہیں تھا اور انعامِ الٰہی کو یہ کہتے ہوئے اسے
لجا آتی تھی کہ آکےمجھ سے مل جائیں۔ روحوں کا ملن ہو چکا تھا، بدنوں کا باقی تھا۔
پہلے سمسٹر کے اختتام پر ایک ہفتہ کی چھٹیاں تھیں۔ ماہا نے فورا لاس ویگاس جانے کا
فیصلہ کیا۔ انعامِ الٰہی کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ تمہیں آنے کی ضرورت نہیں،
میں خود آرہا ہوں۔ یہ سات دن ماہا کی زندگی کے رنگین ترین دن تھے۔ دن رات جاگتے
سوتے گزرے۔ زمان و مکان جیسے تھم چکے تھے۔
ماہا اور انعامِ الٰہی دو
جسم ایک جان ہو چکے تھے۔ ماہا نے پاپا کو بھی انعامِ الٰہی کے بارے بتا دیا تھا۔ ماہا
نے پاپا کو ان کے نظریات، لائحہ عمل اور مقصد سے وابستگی کے بارے تفصیل سے بریف
کیا تھا۔ ماہا نے کہا کہ ڈاکٹریٹ مکمل ہوتے ہی وہ وطن واپس آئے گی اور انعامِ
الٰہی کے ساتھ مل کر اپنی تنظیم چلائے گی تاکہ سماجی انقلاب کا جو خواب اس نے
برسوں پہلے دیکھا تھا اس کو عملی جامہ پہنا سکے۔ انعامِ الٰہی کی کرشماتی شخصیت اس
تنظیم کو وہ عوامی حمایت دے سکتی تھی جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوتی۔
ماہا گلریز نے کامیابی سے
اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ وطن واپس آنے سے پہلے اس نے انعامِ الٰہی سے وعدہ لیا کہ وہ
پہلی فرصت میں سب کچھ سمیٹ کر اس کے پاس آجائیں گے۔ دو مہینے کے اندر ہی انعامِ
الٰہی وطن لوٹ آئے۔ ماہا نے انہیں گیسٹ بیڈ روم میں ٹھہرایا۔ پاپا سے ان کی ملاقات
ہوئی تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ مسز گلریز ان دنوں ایک سرکاری وفد کے ساتھ یورپ کے
مطالعاتی دورے پر تھیں۔ ڈنر کے بعد رات دیر تک گلریز جیلانی اور انعامِ الٰہی گپ
شپ کرتے۔ گلریز صاحب ان کے علم، وژن اور شخصیت سے مرعوب کن حد تک متاثر ہوچکے تھے۔
ان کے منصوبے ایسے تھے جو اس سماج کی حالت بدل دینے پر قادر تھے۔ انعامِ الٰہی کی
شخصیت کا کرشمہ، ان کی خودداری، پاکیزہ کردار نے گلریز صاحب کو قائل کردیا کہ
انعامِ الٰہی، ماہا کے پراجیکٹ کے لئے مناسب ترین شخص ہیں۔
گلریز صاحب نے اپنے ذرائع
سے پتہ کرایا تو انعامِ الٰہی بارے بڑی عجیب باتیں پتہ چلیں۔ وہ کیسینو کے پارٹنر
نہیں تھے بلکہ وہاں ملازمت کرتے تھے۔کیسینو کے صارفین کے ساتھ شطرنج کھیلتے تھے
اور سیلفیز بنواتے تھے، تنخواہ تو معمولی تھی لیکن ٹپس مل جاتی تھیں اور کھانا
پینا مفت تھا۔ عورتوں سے رغبت کی بھی بہت کہانیاں سامنے آئیں۔ ڈرنک کرنا تو معیوب
بات نہیں تھی لیکن اس کے علاوہ بھی نشے کی بہت سی اقسام میں ان کی دلچسپی کا علم
ہوا۔ اس سب کے باوجود گلریز جیلانی کو یقین تھا کہ ماہا کی پسند غلط ثابت نہیں ہوسکتی۔
دن گزرتے گئے۔ انعامِ الٰہی
گیسٹ روم کے مستقل مکین بن گئے۔ مسز نائلہ گلریز بھی دورے سے واپس آچکی تھیں۔ وہ
بھی دو دن میں انعامِ الٰہی کی گرویدہ ہوگئیں۔ گلریز جیلانی کی مصروفیات اتنی تھیں
کہ رات ڈھلے گھر آتے۔ ایک سہانی سوموار کسی وجہ سے ان کی آخری دو میٹنگز منسوخ
ہوگئیں۔ کلب جانے کے بجائے انہوں نے سوچا کہ آج جلدی گھر جائیں اور تھوڑا آرام
کریں۔ ان کی گاڑی پورچ میں رکی تو پائیں باغ کے پہلو میں انہوں نے باورچی اور مالی
کو گیسٹ روم کی کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھا۔ صاحب کو آتے دیکھ کر دونوں دائیں بائیں
ہوگئے۔ تجسس سے مجبور ہو کر گلریز جیلانی گیسٹ روم کی کھڑکی کے پاس گئے اور جھانکا
تو ان کی رگوں میں لہو جم گیا۔
انعامِ الٰہی اور ماہا دنیا
و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھے۔ ملازم بھی اس مفت کے ہوم میڈ کلپ سے لطف
اندوز ہو رہے تھے۔ گلریز جیلانی طیش کے عالم میں پلٹے، کار کے ڈیش بورڈ سے گن
نکالی اور گھر کے اندر لپکے۔ مسز گلریز لیونگ روم میں زنیرہ احمد کا ڈرامہ دیکھ
رہی تھیں۔ گلریز کو اس عالم میں دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔ گلریز صاحب کو بازو سے پکڑ
کر اپنے پاس بٹھایا۔ ڈرنک بنا کے دی۔ دوسری ڈرنک کے بعد گلریز صاحب نے پوری
صورتحال بیان کی۔ غصّے سے ان کا جسم پتّے کی طرح لرز رہا تھا۔ مسز گلریز نے گلریز
جیلانی کے گلے میں بانہیں ڈالیں، پیار سے ان کو بھینچا اور بولیں، "ڈارلنگ!
جو بھی ہے، کم سے کم انعامِ الٰہی قورپٹ تو نہیں ہے ناں!!"
گلریز جیلانی کو نائلہ سے
ایک مانوس سے پرفیوم کی خوشبو آئی۔ ان کے دماغ میں ایک جھماکہ سا ہوا۔ یہ انعامِ
الٰہی کا پسندیدہ پرفیوم تھا۔ انہوں نے سائیڈ ٹیبل سے گن اٹھائی۔ مسز گلریز کا
ماتھا چوم کے کہا، "گڈ بائی، ڈارلنگ۔۔۔ تمہیں یہ نہیں کرنا چاہئیے تھا۔۔۔"
اور مسز گلریز کی کنپٹی پر گولی مار دی۔
ان کی آنکھوں سے شعلے نکل
رہے تھے۔ ان کا وجود مجسم طیش بن چکا تھا۔ انہوں نے مسز گلریز کو پرے ہٹایا اور طوفان
کی طرح گیسٹ روم کی طرف لپکے!۔