برنارڈ شاہ فلسفی،شاعر، ڈرامہ نگار، سائنسدان، طبیب اور ادیب
تھے۔ یہ اَنگلینڈ کے رہنے والے تھے۔ کہتے ہیں کہ اَنگلینڈ میں ایک بادشاہ تو تاج و
تخت والا ہے اور دوسرا برنارڈ شاہ۔ ان کے نام کے ساتھ 'شاہ' عوام نے اپنی طرف سے لگایا۔ شاہ جی ایک جگہ
لکھتے ہیں کہ اَنسان کا جسم کمزور ہو تو اس کا دماغ بھی کمزور ہوتا ہے۔ ایسی قوم
کبھی ترقی نہیں کرسکتی جو چینی اور گھی جیسی چیزیں استعمال کرتی ہو۔ پیدل چلنے کی عادت نہ رکھتی ہو اور مال و دولت
سے مَحبّت کرتی ہو۔
ہم سب کو یہ مان لینا چاہیئے کہ کپتان سے زیادہ عرصہ کوئی
مغرب میں نہیں رہا۔ یہ وہاں کی ہائی سوسائٹی میں موو کرتے رہے۔ یہ رات گئے تک ان
محفلوں میں رہتے جہاں طبیعیات، فلسفہ، علم الابدان، مابعد الطبیعیات، مختلف ادویات
کے انسانی ذہن پر اثرات اور رقص و نغمہ پر بات ہوتی ۔ یہ مغرب کے بڑے اذہان کے ساتھ انٹر ایکٹ کرتے۔
یہ ان کا مائنڈ پِک کرتے۔ ان کو شروع سے ہی یقین تھا کہ ایک دن انہیں اُمّہ کی
قیادت سونپی جائے گی۔ یہ لڑکپن سے ایک
خواب تواتر سے دیکھ رہے تھے جس میں ایک نقاب پوش خاتون انہیں سبز رنگ کا پرچم تھما کر ان کو ایک رنگ
برنگا سکارف پہناتی ہیں جس کی چمک سے ان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اس خواب کی
تعبیر جاننے کے لئے یہ ہر جگہ گئے لیکن کالا شاہ کاکو شریف کے مضافات میں حضرت
جامن سائیں سرکار کے علاوہ کوئی اس رمز کو نہ سمجھ سکا۔ بابا جی نے فرمایا، پُتّر۔۔۔
تیاری پھڑ لے۔۔۔ دنیا دے فیصلے ہُن تُوں ای کرنے نیں۔۔۔
سالہا سال کی جانگسل جدوجہد کے بعد آخر کار کپتان نے اُمّہ
کی قیادت سنبھال لی۔ یہ ایگزیکٹلی جانتے تھے کہ قوم کیسے بنتی ہے۔ اس کا کیا پروسیجر
ہے۔ آپ پاکستانیوں کو دیکھ لیں۔ یہ کاہل ہیں۔ یہ سست ہیں۔ یہ موٹے بھی ہیں۔ یہ
دنیا اور مال و دولت سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی روحانیت میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ
چائے میں چار چار چمچ چینی کے ڈال لیتے ہیں۔ یہ دال بھی پکائیں تو تڑکے میں آدھا
کلو گھی ڈال لیتے ہیں۔ یہ نان چھولے کھانے جائیں تو گوگےسے اصرار کرتے ہیں،
"پاء تھوڑی جئی تَری تے پَا۔"
یہ شوگر کے مریض ہیں۔ یہ بلڈ پریشر کے مریض بھی ہیں۔ یہ کمرے میں داخل ہوں
تو پہلے ان کا پیٹ داخل ہوتا ہے۔ یہ اس کے دس سیکنڈ کے بعد اندر آتے ہیں۔ یہ گلی کی نکڑ پر دہی لینے بھی موٹر سائیکل پر
جاتے ہیں۔ یہ کمرے سے واش روم تک چل کے جائیں تو ان کو کھَلّیاں پڑ جاتی ہیں۔ یہ
ہر وقت موبائل پر چیٹیں کرتے ہیں۔ یہ پب جی گیمیں بھی کھیلتے ہیں۔
کپتان نے چینی مہنگی کردی۔ گھی مہنگا کردیا۔ پٹرول مہنگا
کردیا۔ جو بھی کاروبار کرتا ہے۔ دولت سے محبت کرتا ہے۔ اسے کرپٹ قرار دے دیا۔ اب
آپ دیکھیں۔ لوگ چینی کھانا چھوڑ دیں گے۔ یہ گوگے سے تَری مانگنا بند کردیں گے۔ یہ
موٹر سیکلیں بیچ کر ہر جگہ پیدل جائیں گے۔ ان کی شوگریں ٹھیک ہوجائیں گی۔ ان کے بلڈ
پریشر نارمل ہوجائیں گے۔ دولت سے نفرت ان کے خون میں شامل ہوجائے گی۔ یہ روحانیت
کی طرف مائل ہوجائیں گے۔ اس سے ان کے جسم صحت مند اور طاقتور ہوجائیں گے۔ یہ ایک
دن میں چالیس چالیس کلومیٹر چلنا شروع کردیں گے۔ بسیں، ویگنیں، ٹرینیں بند ہوجائیں
گی۔ پٹرول کی کھپت ختم ہوگی تو یہ پیسہ عوام کی تعلیم پر لگے گا۔ ماحول بہتر ہوجائے
گا۔ سبّی ، ملتان، جیکب آباد میں برفیں پڑیں گی۔ موسم ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ لوگ
خوبصورت، صحت مند اور توانا ہوں گے تو ان کے دماغ بھی چلنے لگیں گے۔ یہ ذہین بھی
ہوجائیں گے۔ یہ نت نئی ایجادیں کرنے لگیں گے۔ یہ پوری دنیا کے لیڈر بن جائیں گے۔
دنیا کی تقدیر کے فیصلے پاکستان میں ہونے لگیں گے۔ دماغ طاقتور ہوگا تو لوگ ٹیلی
پیتھی بھی سیکھ لیں گے۔ جنگیں ختم ہوجائیں گے۔ جو بھی اُمّہ کے خلاف سازش کا سوچے
گا، ٹیلی پیتھی کے ذریعے ہمیں اس کا پہلے ہی پتہ چل جائے گا۔ ہم اس سازشی کو کلمہ
پڑھنے پر مجبور کر دیں گے۔ آخر کار ایک دن
ایسا آئے گا کہ پوری دنیا مسلمان ہوگی اور ہر طرف امن و سلامتی اور خوشحالی ہوگی۔
یہ ایک دن کا کام نہیں ہے۔ یہ لانگ پروسیس ہے۔ ابھی پہلا فیز چل رہا ہے جسے دشمن مہنگائی کا نام دے رہے ہیں۔ اس وقت اگر کپتان کی حمایت نہ کی گئی تو یہ سارا پروسیس یہیں ختم ہوجائے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر چینی سات سو پچاسی روپے کلو، گھی اٹھارہ سو ستاون روپے پاؤ اور پٹرول 690 روپے لیٹر تک پہنچانے میں کپتان کی مدد کریں۔ اس وقت کپتان کو اکیلا چھوڑنے والا روزِ قیامت خدا کو کیا منہ دکھائے گا؟