گدھا

اک مردِ جَری نے سابقہ محبوبہ (ایکس) پر کپتان کی دسیوں عفیفاؤں کے ساتھ تصویر چسپاں کی اور لکھا، "کپتان نے جتنی حسیناؤں کے ساتھ کوئِیٹَس کیا اتنی تو شریفوں کی نشستیں بھی نہیں۔" واللہ! صریح جھوٹ۔ اتنی تعداد تو کپتان سال سے کم میں بھگتا دیتا۔ اور یہ تو کیسٹ کی ایک سائیڈ ہے۔۔۔ دوسری سائیڈ حضورِ والا الگ۔۔۔ کتنی ہی کہانیاں ہیں جو ان کَہی رہ جائیں گی۔ صد حیف، زیست مختصر اور داستانِ کوئِیٹَس طویل۔۔۔ انسان چیخ اٹھتا ہے!

یہ ربع صدی قبل کی دنیا نہیں۔ کوئی حبیب باقی نہیں رہا۔  دوست بن کر لوگ دغا دیتے ہیں۔ محافلِ شربتات میں ہوئی گفتگو کون ناہنجار ریکارڈ کرتا ہے؟ اور پھر اس کو سوشل میڈیا پر چڑھا دیتے ہیں۔ طالبعلم ایک محفل میں یہ کہتا سنا گیا کہ کپتان گدھا ہے۔ ہاں گدھا ہے۔ اس میں کیا ہے؟ وفادار ہے۔ جفا کش ہے۔ اور مردانگی کا وہ اسلحہ خانہ اس کے پاس ہے جو بس خَر کو زیبا ہے۔ اس عیّار پہاڑن نے جھوٹ لکھا۔ کپتان کبھی طوالت بڑھانے کا آرزو مند نہ تھا۔ ایں عضو ہمہ خَر است۔ دیارِ افرنگ کا قصہ ہے۔ ایک شب آبنوسی رنگت کی لبالب حسینہ مائل بہ الفت ہوئی۔ میٹھا بھی کب تک کھایا جا سکتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ کچھ نمکین بھی ہو۔ کپتان اس کے ساتھ قربت کے سفر پر چل پڑا۔ لباسِ فطرت کا سنگِ میل آیا تو حسینہ انگشت بدنداں رہ گئی۔ لیجنڈ ہیز اٹ، شِی سَیڈ، "ایڈا وڈّا برگر!"۔ یاد رکھنے کی بات، حسینہ آبنوسی تھی۔ اب بھی کپتان گدھا نہیں تو پھر کون ہے؟ لَتا منگیشکر یاد آتی ہیں۔۔۔

دکھائی دئیے یوں کہ بے خود کیا۔۔۔

اس زنِ وفا پیشہ کہ نام جس کا جمائمہ ہے، سے علیحدگی کو زیادہ مدت نہیں ہوئی تھی۔ کپتان ملول و افسردہ۔ طالبعلم اکثر شام ڈھلے بنی گالہ کے غریب خانے پہنچتا۔ نصف شب تک محفل رہتی۔ کپتان دل کھول کے سامنے رکھ دیتا۔

بڑے چیتۓ آؤندے نیں۔۔۔یار اَن مُلّے۔۔ ہوا دے بُلّے

چودھویں کا چاند چہار سُو تھا۔ کپتان بے خودی میں اٹھا۔ بوتل سے ٹھوکر لگی۔ بندھا تولیہ کھل گیا۔ کپتان تُرنت تالاب میں کود گیا۔ وہ بَس ایک لمحہ، طالبعلم کا حاصلِ زیست۔ چاندنی میں میدان کے دوسرے سَرے تک پھیلا سایہ۔۔۔ شجرِ طویل کے ساتھ ثمر جھولتے ہوئے۔ طالبعلم بچپن سے بائیسکل چلاتا آیا تھا۔ اس شب مگر مَن مچلا کہ آج سائیکل بن جانا ہی زندگی کا حاصل ہے۔۔۔۔ہزاروں خواہشیں مگر ایسی۔۔۔

انسان جب سے دنیا میں آیاہے۔ کہانیاں بنتی ہیں۔ کہی جاتی ہیں۔ کوئی مگر ان میں ایسی کہانی ڈھونڈ دے۔ زندگی کو ہر طرح بَرت کے سنِ یاس تک پہنچی عورت سب کچھ چھوڑ چھاڑ دے۔ جوان اولاد۔ بھرا پُرا خاندان۔ معاشرے میں مقام۔ ہر آسائش فراہم کرنے والا مرد۔ سب کچھ۔ اور کپتان کے لَڑ لگ جائے۔ پھر وہ بدقسمت عیّار پہاڑن یاد آئی۔۔۔ دو انچ کی زبان چلاتے اس کے ہاتھ کیوں نہ قلم ہوگئے؟ کوئی جائے اور جا کے اس سے پوچھے کہ کیا دیکھا تم نے کپتان میں۔۔۔ پھر اگر وہ بول سکے تو بتائے کہ ۔۔۔ گدھا ہے وہ!

اک مردِ جَری نے سابقہ محبوبہ (ایکس) پر کپتان کی دسیوں عفیفاؤں کے ساتھ تصویر چسپاں کی اور لکھا، "کپتان نے جتنی حسیناؤں کے ساتھ کوئِیٹَس کیا اتنی تو شریفوں کی نشستیں بھی نہیں۔" واللہ! صریح جھوٹ۔ اتنی تعداد تو کپتان سال سے کم میں بھگتا دیتا۔ اور یہ تو کیسٹ کی ایک سائیڈ ہے۔۔۔ دوسری سائیڈ حضورِ والا الگ۔۔۔ کتنی ہی کہانیاں ہیں جو ان کَہی رہ جائیں گی۔ صد حیف، زیست مختصر اور داستانِ کوئِیٹَس طویل۔۔۔ انسان چیخ اٹھتا ہے!


بولو پینسل۔۔یُدّھ کینسل

 

جیل کی دیواروں پر شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔ اہلکار قیدیوں کو بیرکس میں بند کرکے سگریٹ سلگا چکے تھے۔ مغرب کی اذان کے بعد والی پراسرار خاموشی سرسرانے لگی تھی۔ قیدیوں کی بیرکس سے دور صحن پار کرکے ایک چھوٹی سی بیرک کی ایک کوٹھڑی میں تنہائی اور خاموشی تھی۔ کوٹھڑی کا مکین فلاور یوگا آسن میں کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا۔ اسے جیل میں کافی عرصہ ہو چکا تھا۔ یہ وقت اس نے رونے دھونے میں ضائع نہیں کیا تھا۔ کوٹھڑی میں کتابوں کے ڈھیر لگے تھے۔ وہ اس عرصے میں دو ڈھائی ہزار کتابیں گھول کر پی چکا تھا۔

یوگا سے فارغ ہو کر وہ زمین پر چت لیٹ گیا۔ کوٹھڑی کی چھت پر اس نے اپنے خون سے 804 لکھ رکھا تھا۔ یہ اس ظلم کی یاد دھانی تھی جو اس پر کیا گیا تھا۔

مغرب کا وہ وقت گزر چلا تھا جس کے بارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ بچوں کو باہر نہ جانے دو۔ قیدی نے انگڑائی لی۔ کوٹھڑی میں دھری لکڑی کی چھوٹی سی الماری میں بھنے چنوں کے پیکٹ سے مٹھی بھری۔ بالٹی سے پانی کا کپ بھرا اور ڈنر شروع کر دیا۔ چنوں کا آخری پھکا مارا ہی تھا کہ بیرک کا خارجی لوہے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ جیلر کے ساتھ ایک خاص شخص اسے پھر ملنے آیا تھا۔ قید کے دوران تقریبا ہر دن کوئی نہ کوئی اسے آکر منانے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ مگر قیدی جیل میں آزاد تھا اور یہ باہر رہ کے بھی اس کے حوصلے کے قیدی۔

جیلر کوٹھڑی کے سامنے آکر رکا۔ اپنی چھڑی لوہے کی سلاخوں پر افقی انداز سے پھیری اور انگلی کے اشارے سے قیدی کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔ جیلر کے ساتھی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے دبایا اور کوٹھڑی کا دروازہ کھولنے کی ہدایت کی۔ جیلر نے دروازہ کھولا۔ مہمان کوٹھڑی میں داخل ہوا۔ یہاں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ قیدی نے انسائیکلوپیڈیا کی تین چار جلدیں اوپر نیچے رکھ کے سٹول بنا کر مہمان کے بیٹھنے کا بندوبست کیا۔ قیدی خود زمین پر بیٹھ آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا۔

مہمان نے قیدی کا ہاتھ تھاما اور لجاجت آمیز انداز میں کہا، "دشمن سر پہ چڑھا آتا ہے۔ تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے مگر یہ وطن کی سلامتی کا سوال ہے۔ ہمیں امید ہے تم ہماری مدد کرو گے۔"

قیدی کے لبوں پر بھنچی سی مسکراہٹ تھی۔ اس نے دایاں ہاتھ بالوں میں پھیرا۔ سر اٹھا کے دیوار پر رینگتی چھپکلی کو دیکھتے ہوئے کہا، "وطن کے لیے میری جان بھی حاضر ہے۔ تم بھی جانتے ہو کہ اس ملک کی جتنی میں نے خدمت کی ہے اس کی مثال نہیں۔ میں مدد کرنے کو تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے۔"

مہمان عارضی سٹول سے اٹھ کر قیدی کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کا ہاتھ تھام کر آہستگی سے بولا، "ہمیں تمہاری سب شرطیں منظور ہیں۔ تمہاری سزائیں ختم کر دی جائیں گی اور میں تمہیں ابھی اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔" قیدی مسکرایا۔ انگشت شہادت دائیں بائیں آہستگی سے ہلاتے ہوئے کہا، "میری یہی ایک شرط ہے۔ میں صرف عدالت سے بری ہونے کی صورت میں جیل سے باہر جاؤں گا۔ کسی مہربانی یا معافی کے نتیجے میں نہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ دشمن کا بندوبست میں یہاں بیٹھ کر ہی کر دوں گا۔"

مہمان کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے قیدی کا ہاتھ چوما اور کوٹھڑی سے نکل گیا۔

مادرِ وطن کو درپیش اس سنگین صورتحال میں قیدی کو احساس ہو اکہ بی بی صاحبہ سے مشورہ ضروری ہے۔ بی بی صاحبہ ملحقہ بیرک میں قید تھیں۔ اکثر تو رات گئے وہ خود ہی آجاتی تھیں مگر آج قیدی اتنا انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ وہ فرش سے اٹھا۔ انگڑائی لی۔ جسم کو تھوڑا سٹریچ کیا اور آنکھیں بند کرکے کوٹھڑی کے درمیان میں کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہاتھ اوپر کو اٹھے تھے اور وہ منہ میں کچھ پڑھ رہا تھا۔ چند لمحوں بعد اس نے دفعتا ہاتھ نیچے کیے پھونک ماری اور کِرلی میں تبدیل ہوگیا۔

بی بی صاحبہ اور اس کے تعلق پر مخالفین نے بہت ٹھٹھے کیے۔ طعنے کسے۔ مگر قیدی کو ہی علم تھا کہ اس نے کیسے اس تعلق میں روحانیت اور ماورائے حواس درجات طے کیے ہیں۔ بی بی صاحبہ نے اسے بہت سے وظائف تعلیم کیے جس سے مختلف میٹا فزیکل کام ممکن ہو سکتے تھے۔

کِرلی کی صورت اختیار کرکے قیدی دیوار پر چڑھا۔ روشندان سے باہر نکل کر بی بی صاحبہ کی بیرک کی طرف روانہ ہوا۔ ابھی ایک دیوار باقی تھی کہ راستے میں اسے ایک بدمعاش کِرلا نظر آیا۔ قیدی نے کوشش کی کہ نظر بچا کے نکل جائے مگر وہ راہ روک کے کھڑا ہوگیا۔

"سوہنیو ۔۔ کتھے جا رئے او؟ پہلے تہانوں کدی ایتھے نئیں ویکھیا۔۔۔ آؤ تہاڈی کوئی خدمت کرئیے۔۔۔"۔ کرلے نے اوباشانہ انداز میں قیدی کی دم پر دم پھیرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ قیدی نے اوسان بجا رکھتے ہوئے کہا، " میرا راستہ چھوڑ دو۔ میں ایسی کِرلی نہیں۔"

کِرلا زبان لپلپاتا قیدی کی طرف بڑھا۔ اسی اثناء ایک کالی بلی نے چھت سے چھلانگ لگائی اور کرلے کو پنجہ مار کے نیچے گرا دیا۔ قیدی تیزی سے رینگتا ہوا بی بی صاحبہ کی کوٹھڑی میں جا پہنچا۔ کوٹھڑی میں ایک کالی بلی بیٹھی اسے گھور رہی تھی۔ قیدی کِرلی سے انسانی شکل میں تبدیل ہوا۔ کالی بلی بی بی صاحبہ بن گئیں۔ دو جسم ایک جان ہوگئے۔

وظیفے سے فراغت کے بعد قیدی نے مہمان کی آمد اور مدد کی درخواست بی بی صاحبہ کے گوش گزار کیں۔ قیدی کے ذہن میں ایک منصوبہ تھا جس پر عمل کرکے دشمن کو اس کے گھر میں ہی شکستِ فاش دی جا سکتی تھی۔ اس منصوبے میں لیکن ہرقلاطوس کی ضرورت تھی۔ قیدی نے بی بی صاحبہ سے درخواست کی کہ کچھ دن کے لیے ہرقلاطوس کی خدمات اس کے حوالے کر دی جائیں۔ بی بی صاحبہ نے التفات سے قیدی کو دیکھا اور ناز سے بولیں، "کیا میرا سب کچھ آپ کا نہیں؟ میں بھی آپ کی، ہرقلاطوس بھی آپ کا۔"

بی بی صاحبہ کے منہ سے نام سنتے ہی ہرقلاطوس فورا حاضر ہوگیا۔ بی بی صاحبہ نے ناراضگی سے اسے گھرکا کہ ایسے پرائیویسی میں کیسے آگئے۔ ہرقلاطوس گھبرا کے بولا، باجی آپ نے نام لیا تو میں نے سوچا شاید بلایا ہے۔ سوری، میں جاتا ہوں۔ بی بی صاحبہ نے پیار سے اس کے سینگ پر ہاتھ پھیرا اور کہا، کوئی بات نہیں۔ تمہارے بھائی جان کو ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ چلے جاؤ۔ جیسے کہیں ویسے کرو۔

قیدی نے فورا ہرقلاطوس کو دشمن ملک میں جانے کا حکم دیا۔ ہرقلاطوس نے قیدی کو کندھوں پر بٹھایا اور ۔۔ شوبھم م م۔۔۔ ہو گیا۔

پردھان منتری رات کا بھوجن کر رہے تھے۔ کئی اقسام کی دال، ترکاری، اچار، چٹنیاں۔۔۔ پریشانی میں کچھ زیادہ بھوجن ہو گیا۔ چھاتی چھپن انچ کی تھی تو پیٹ ستر انچ تک پہنچ گیا۔ رسوئی سے نکل کے پردھان منتری بھون کے باغ میں چہل قدمی کرنے لگے کہ کچھ ہوا لگے اور خارج بھی ہو۔

ہاجمولا کی تین گولیوں اور پانچ سات منٹ کی چہل قدمی کا نتیجہ ائیر بیرئیر ٹوٹنے کی شکل میں نکلا۔ پردھان منتری جی فراغت کا سانس بھی لینے نہ پائے تھے کہ پائیں باغ کے کونے سے ایک ہیولا سا نکلا۔ گیروے رنگ کے چولے میں ملبوس، گلے میں منکوں کی مالائیں جھولتی ہوئیں، ہاتھ میں پیتل کے کڑے، ناگ دیوتا کی ہئیت والی لاٹھی تھامے ایک سنیاسی باوا۔ پردھان منتری جی سُن سے ہو گئے۔ سنیاسی باوے نے زمین پر لاٹھی ماری۔ پردھان منتری جی دفعتا ہوش میں آئے اور باوا کے چرن چھو کر آشیرواد لی۔

"بالک۔۔ یُدّھ کے لیے یہ سمے شُبھ نہیں ہے۔ مہا کال کا سمے ہے۔ یُدّھ پوسپون کر دو۔ مجھ سے زیادہ یُدّھ کو کوئی نہیں جانتا۔ اگر تمہارے کسی مِتر کی پتنی سندر ہے تو اس کے ساتھ اشلیل سمبندھ بناؤ۔ یہ سمے اسی کرم کا ہے۔ یُدّھ وُدّھ بھول جاؤ۔۔۔"۔

پردھان منتری جی تھوڑا حیران ہوئے مگر سنیاسی باوا کی ہینڈسم نیس کے سامنے ان کے منہ سے آواز نہیں نکل سکی۔ طبیعت بھی کچھ ہلکی ہو چکی تھی تو باوا کی نصیحت کے دوسرے حصے کا خیال آتے ہی ان کے لبوں پر مسکان آگئی اور زیرِلب بڑبڑائے۔۔۔ اوشّ۔ پردھان منتری جی نے ہاتھ جوڑ کر باوا کو پرنام کیا، ان کے پیر چھوئے۔ سنیاسی باوا جیسے آئے تھے ویسے ہی اچانک غائب ہوگئے۔

پردھان منتری کے جاتے ہی قیدی نے سنیاسی باوے والا کاسٹیوم اتارا اور ہرقلاطوس کو واپسی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، "واپسی کی فلائٹ زیادہ بلندی پر نہ لے کر جانا۔ سردی لگتی ہے۔"

۔۔ اور نکلیں گے کَناجَر کے قافلے

 

 صد حیف۔۔ اہلِ پنجاب۔۔ صد حیف۔ حضرت جوش سے کسی ان گھڑ پنجابی نے کَن جَر کا معانی دریافت کیا۔ اس مردِ لَسٹ نے تبسم فرمایا۔توقف کے بعد بولے، گنگا جمن کا کَن جَرپنجاب سے الگ ہے۔ مردِ آزاد و کلاکار۔ رستوں کا راہی۔سفر ہی جس  کی منزل۔ شکاری، محب، دل آرا۔۔۔ واللہ کپتان سے بڑا کَن جَر کون ہو سکتا ہے! عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔

قریب دو عشرے ادھر کی بات ہے۔ عشاء  ادا ہوچکی۔ تالاب کے کنارے گھاس پر چاندنی بچھی ہوئی۔ محفل یاراں جمی ہوئی۔ طالبعلم نے تیسری دفعہ بوتل کی طرف ہاتھ بڑھایا تو طیش کے عالم میں کپتان نے طالبعلم کی چندیا پر چپت جمائی۔ بولا، "کَن جَرا کسی ہور نوں وی پی لین دے"۔ فقیر کا دل  کَن جَر سے مسوس ہوا۔ جوش یاد آئے۔ روشنی کا جھماکا سا ہوا۔ پچھلی اماوس کی محفل یاد آئی۔ کپتان سےجوش بارے دریافت کیا تو انار کے پیڑ پر لٹکتے اناروں پر نظر ٹکا کر لحظہ بھر کو گم صم سا ہوا۔ پھر بولا، "یادوں کی بارات میں نے پڑھی نہیں، مجھ پر بیت گئی ہے۔ حضرت جوش کہ ہر سانس لیتی اور حرکت کرتی شے سے وصال  ومصلول کے خواہشمند۔ اپنا بھی سفرِ زیست ایسے ہی طے ہوا، ہو رہا ہے۔ " کپتان نے فقیر کی کمر کے گرد بازو حمائل کیا۔ بے خودی کے عالم میں چندیا پرہولے ہولے سے مساج کرنے لگا۔کمر پر سرکتا ہاتھ پشت کی جانب بڑھا تو فقیر کے حواس گم ہونے لگے۔

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔ آج اتنے قریب آؤ۔۔۔ میں تم میں سما جاؤں۔۔ تم مجھ میں سما جاؤ۔۔۔
مراد سویٹ نے کپتان کے گال پر ہلکے سے پاری کی تو دفعتا کپتان عالمِ رنگ و بُو سے حقیقت کی دنیا میں آیا۔ طالبعلم کو خود سے چمٹا دیکھ کر "پَراں مر بغیرتا" کہہ کر دھکا دیا۔ فقیر تالاب میں جا گرا۔  کپتان سے وصال کی خواہش ، ناتمام رہی۔ باقی تاریخ ہے۔

تمہید کہ طولانی ہوچکی۔ کپتان کی سرشت محبت ہے۔ اپنی اصل میں کَن جَر۔ کیسے ممکن  کہ وہ فساد مچائے۔ دنگا کرے۔ سازش ہے یہ سازش۔  سپہ سالار کہ اکل کھرے سپاہی۔ کان ان کے پھر بھر دئیے۔ بدظن کر دیا گیا۔ 9 مئی کو ہوّا بنا دیا۔ ہاں۔۔ نکلے تھے قافلے۔۔ مگر کَناجَر کے قافلے۔ ہاتھوں میں پھول۔ لبوں پہ دعا۔۔۔

جتنے بھی تو کرلے ستم۔۔ ہَس ہَس کے سہیں گے ہم۔۔۔ یہ پیار نہ ہوگا کَم۔۔۔ صنم تیری قسم۔۔۔

فٹیج نکلوا لی جائے۔ پَرے کے پَرے یہ گاتے ہوئے نکلے۔ کپتان  اور سپہ سالار۔ یہ جوڑی آسمانوں پر بن چکی۔ کب تک بدباطن اس  ملاپ کو روکیں گے۔ بہت جلد وہ دن آئے گا۔ محب اور محبوب بہم ہوں گے۔ شکوے دور۔ وصال ، حضورِ والا، وصال۔

خط محبوب  لکھتے ہیں۔ دشمن کو خط نہیں لکھے جاتے۔ صنم کتنا ہی سنگدل ہو۔ محبوب اس سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ محبت ہے یہ، محبت۔ کپتان اپنے کَناجَر سے جب کہتا ہے کہ باہر نکلو اور آزادی حاصل کرو تو یہ پیار کی آزادی ہے۔ یہ وصال و مصلول کی آزادی ہے۔ یہ گیت گانے، ٹھمکے لگانے کی آزادی ہے۔ دھول دھپّہ اس کا مدعا نہیں۔

"جب آئے گا کپتان" سے "نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ" اور نَک دا کوکا" تک ۔۔۔ سب مدھر گیت کپتان کے ذہنِ کَن جرانہ کی پراڈکٹ ۔ ساری طرزیں کپتان نے بنائیں۔ کریڈٹ کبھی وہ لیتا نہیں۔ ورلڈ کپ بھی جیتا تو ساری ٹیم کو کریڈٹ دیا۔ حقیقت مگر یہ کہ   جیت اسی کی تھی۔ باقی تو سب ریلو کٹّے۔ عمران اسماعیل کہ کپتان پہلے پیار اور 9 مئی کے بعد غصے سے اس کو گینڈے کی پشت پکارتا، راک سٹار بنا دیا۔ لالے عطاءاللہ کا کیرئیر ختم ہوئے زمانہ بیت چکا تھا ، "جب  آئے گا کپتان" سے اس کو نئی زندگی ملی۔ ملکو کے گانوں پر کوئی چھان بورا بھی نہ دیتا تھا۔ اب ڈالرز اور پاؤنڈز میں یافت۔ یہ کپتان کی کَن جرانہ برکت ہے۔

ایک پورا کَن جَر گروہ کپتان نے سوشل میڈیا پر کھڑا کردیا۔ یہ نظریے کی طاقت ہے۔ صلح جوئی، امن اور شائستگی۔ کوئی گالی بھی دے تو جواب میں انترا گا دیتے ہیں۔ ایسی جگل بندی بڑے بڑے خاں صاحبان نہ کر سکے جو  خان نے کر دکھائی۔

خدا رحمت کند ایں کَن جَرانِ یَک طینت را

قید میں ہرگز وہ گھبرایا نہیں۔ جن کے دل محبوب کی یاد سے روشن ہوں، ان کی آنکھیں نور خدواندی سے منور رہتی ہیں۔ قید کی ہر شام محبوب کی یاد میں ایک کوٹھڑی سے صدا بلند ہوتی ہے تو اڑتے پرندے رک جاتے ہیں۔ پیڑوں کے پات ساکن۔ جس کے کان میں وہ آواز پڑتی ہے، آنکھیں جھرنا بن جاتی ہیں۔ جاڑے کی رات خدا کسی کو محبوب سے جدا نہ کرے۔۔۔

نیڑے آ آ آ ظالما وےےےےے

میں ٹھَر گئی آں آں آں۔۔ میں مر گئی آں آں آں

صد حیف۔۔ اہلِ پنجاب۔۔ صد حیف۔ حضرت جوش سے کسی ان گھڑ پنجابی نے کَن جَر کا معانی دریافت کیا۔ اس مردِ لَسٹ نے تبسم فرمایا۔توقف کے بعد بولے، گنگا جمن کا کَن جَرپنجاب سے الگ ہے۔ مردِ آزاد و کلاکار۔ رستوں کا راہی۔سفر ہی جس  کی منزل۔ شکاری، محب، دل آرا۔۔۔ واللہ کپتان سے بڑا کَن جَر کون ہو سکتا ہے! عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔