لیکن پوسٹ پڑھنی شروع کی تو آخری سطر تک پڑھتا ہی چلا گیا۔ انوکھا انداز تحریر اور قاری کو برچھی سے ”کتکتاریاں“ کرتے ہوئے خاور صاحب۔
دو قسم کے بندے ہوتے ہیں پہلے جو خود کو تجربہ کار کہتے ہیں لیکن اصل میں پڑے پڑے پرانے ہوگئے ہوتے ہیں اور جو ہر بات پر اپنا باجا نکال کر بجانا شروع کردیتے ہیں۔ دوسری قسم کے یہ ہمارے خاور کھوکھر جیسے ہوتے ہیں کہ ایسی باتیں وہی لکھ سکتا ہے جس کو زندگی نے چنگا رگڑا دیا ہو اور خوب دھو کر نیل دے کر سکھایا ہو۔چمک جاتا ہے پھر بندہ، تو اپنے خاور صاحب بھی چمک گئے ہیں۔ سیدھے انداز میں نوکیلی باتیں۔ کاٹ دار ایسی کہ بندہ پڑھنے کے بعد بھی چبھن محسوس کرتا رہے۔ لگی لپٹی رکھے بغیر لیکن کسی کو طعنے اور مہنے دیئے بغیر۔
تبصرے بھی کم کم کرتے ہیں، لیکن تبصرے بھی پڑھنے لائق ہوتے ہیں۔ ایک اقتباس دیکھئے
طالبان کے اسلام کا ورژن ہو گا جی
خواہ مخواہ
شلوار کو اونچا کروانے کے لیے گٹوں پر چھڑیاں برسیں گی
داڑھی کے سائیز پر سزا ہو گي
لیکن جی فکر ناں کریں
ان لوگوں کی نیت ٹھیک ہو گي اس لیے ان کو سنوارنا آسان ہو گا
ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سوچی سمجھی رائے کے مالک ہیں اور اس پر دلیل سے بات کرتے ہیں۔ پوری قوم کی طرح بلاگروں میں بھی جذباتیت پسندوں (جن میں خود بھی شامل ہوں) کی بھرمار ہے لیکن یہ بھی ان کی خوبی ہے کہ جذباتیت سے کوسوں دور ہیں۔ سیاست، مزاح، معاشرت ہر موضوع پر قلم برداشتہ لکھتے ہیں۔ قاری سے مکالمہ کرتا ہوا لکھنے کا انداز اور اپنی رائے بغیر ٹھونسے ہوئے بیان کرنے کا فن۔
آخر میں ان کے بے لاگ بلاگ سے ایک اقتباس۔۔۔
اب یہ حال ہے کہ حکومتی لوگ ڈرے ہوئے ہیں اور میڈیا ان کے ھاتھ ہے
اور یہ لوگ بچوں کی طرح کہہ رہے ہیں وہ دیکھو جی طالبان آ رہے ہیں یہ ہم لوگوں کو ماریں گے
نہیں جی یہ ہم لوگوں کو نہیں تم لوگوں کو ماریں گے
بس میرے لوگوں کو عام لوگوں کو اس بات کا معلوم ہونے تک کی دیر ہے کہ ہم لوگ ہم ہیں
اورحکومتی لوگ
ہم نہیں ہیں!!