دوست ، تو جی سکول کے دور کے ہی ایک نمبر ہوتے ہیں۔ کالج والے آدھے ایک نمبر اور آدھے دو نمبر۔ اور عملی زندگی میں کودنے کے بعد اگر آپ کو کوئی دوست، اور دوست مطلب ' دی دوست'، مل جائے تو یہ کم ازکم اتنی بڑی خوشخبری ہے جو لاٹری لگنے کے برابر سمجھی جاسکتی ہے۔
دوستوں کی بڑی تعریفیں لکھی جاچکی ہیں،مثلا جو ضرورت میں کام آئے، جو آپ کے دکھ بانٹے، جو آپ کی معشوق کو نہ ورغلائے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن جی میرے نزدیک تو دوست وہ ہوتا ہے جس کو آپ منہ بھر کےگالی دیں تو آگے سے وہ بے حیائی سے ہنستا رہے اور وائس ورسا۔۔۔ میں نے ایسے ایسے لوگوں کو اپنے پرانے دوستوں سے گالیاں کھاتے اور ہنستے دیکھا ہے جو اونچی آواز میں بات کرنے کو بھی بدتہذیبی اور معاشرتی آداب سے ناواقفیت پر محمول کرتے ہیں۔ چپراسی سے بھی آپ جناب سے بات کرتے ہیں اور چائے بھی سڑکیاں مار کے نہیں پیتے۔ لیکن دوستوں کے ساتھ ان کی گفتگو اس گانے کے مصداق ہوتی ہے کہ ۔۔۔ تیری تو۔۔۔ تیری تاں۔۔۔۔
پر جی اب ایک نئی قسم بھی دریافت ہوچکی ہے دوستوں کی۔ فیس بکیے دوست۔ ایک ڈھیلے ڈھالے اندازے کے مطابق اگر آپ فیس بکیے ہیں تو آپ کے دوستوں کی پچانوے فیصد سے زیادہ تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگی جن سے نہ آپ کبھی ملے ہوتے ہیں اور نہ ہی امید ہوتی ہے کہ کبھی زندگی میں ان سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تحریر، انسان کا آئینہ ہوتی ہے اور فلاں اور ڈھینگ۔۔۔ پر جی لکھے ہوئے حرف سے بندے کا تھوڑا بہت اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے پر پورا جاننے کے لئے تو وقت کی سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر بندے کا پتہ چلتا ہے وہ بھی تھوڑا سا۔ بچپن کے دوستوں پر تو آپ نے بیس بائیس سال کی سرمایہ کاری کی ہوتی ہے، اس لئے ان کی رمز میں بھی آپ کے لئے کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔ پر ایک دوہفتے کی فیس بکی دوستی میں بھی ہم ایک دوسرے کو لمّیاں پَا کے ایسی چھترول کرنی شروع کردیتے ہیں جو کم ازکم بھی دس سال پرانی دوستی میں ہی جائز سمجھی جاسکتی ہے!
اس پر میں نے سوچا ہے اور بہت سوچنے کے بعد بھی میرا بھیجہ کوئی نتیجہ نہیں نکال سکا کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب مجرّد نام ہی ہیں، انسان نہیں اور ان کو کچھ بھی کہا جاسکتاہے اور فار دیٹ میٹر۔۔۔ کچھ بھی سنا جاسکتا ہے! کیا فرماتے ہیں مفتیان فیس بک بیچ اس مسئلے کے۔۔۔