ایک دوست کی پرزور اور کھڑکی توڑ فرمائش پر آج ایک اور ترکیب حاضر خدمت ہے۔ اگرچہ ہم نے اپنے دسترخوان کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنے تئیں ہم ایک عظیم ادیب اور مصنف ہوچکے ہیں لہذا ایسی تحریروں کو ہم اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تھے، خیر چھوڑئیے، یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے، جو ہم نے اپنی شان میں بیان کیا ہے۔
یہ ترکیب، آریاؤں سے ایک تاریخی انتقام کی حیثیت بھی رکھتی ہے کیونکہ دروغ بر گردن راوی، انہی حضرات نے ہم دراوڑوں کو پلاؤ، قورمے کی علتیں لگائی تھیں۔ جبکہ عیش کوش والے بابر نے ہم پر یہ پھبتی کسی تھی کہ یہ عجیب لوگ ہیں، جو اناج کے ساتھ اناج کھاتے ہیں۔ کیونکہ اعلی حضرت نے کسی کو دال کے ساتھ روٹی کھاتے دیکھ لیا تھا۔ اس واقعے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی قسمت میں ہمیشہ دال روٹی ہی ہوتی ہے۔ چاہے جتنے مرضی انقلاب آجائیں۔۔۔ ہیں جی۔
ترکیب کے اجزاء نوٹ کرلیں۔
کھیرے (تین پاؤ، دو چھٹانک)۔
کدو (ساڑھے تین کلو)۔
مولی (ایک کلو)۔۔
کریلے نیم چڑھے (دو کلو)۔
مونگ کی دال (حسب ذائقہ)۔
پانی (حسب ضرورت)۔
یہ قورمہ، بہت آسانی سے تیار ہوجاتا ہے۔ روایتی قورمے کی طرح اسے پکانے کے لیے راکٹ سائنس سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ بڑے سارے پتیلے کو پانی سے بھرلیں اور چولہے پر چڑھادیں۔ سارے اجزاء بھی پتیلے میں ڈال دیں۔ ایک ابال آنے پر آنچ ہلکی کردیں اور ساری رات اسی آنچ پر پکنے دیں۔ نمک مرچ اور کسی بھی قسم کا مصالحہ ڈالنے کی جرات نہ کریں۔ صبح دم پتیلے کا ڈھکن اٹھائیں گے تو ایسی خوشبو استقبال کرے گی کہ ۔۔۔ آہو۔
یہ ڈش متنوع خصوصیات کی حامل ہے۔ لیچڑ مہمانوں سے چول سسرالیوں تک سب کو کفایت کرتی ہے۔ اگر کہیں سے کوئی خالص آرین پیس مل جائے تو اسے بھی یہ کھانے پر مجبور کرکے اس کے آباؤ اجداد کے ظلم و ستم کا بدلہ کسی حد تک لیا جاسکتا ہے۔
وہ خواتین، جو بھینسوں کو شرماتی ہیں اور سلمنگ سنٹرز والوں کے وارے نیارے کرواتی ہیں، ان کے شوہروں کے لیے بھی یہ تیر بہدف نسخہ ہے۔ اس ڈش کو ایک دفعہ کھانے کے بعد کم ازکم چھ دن تک کچھ اور کھانے کی حاجت یا خواہش نہیں رہتی۔ تو ڈبل فائدہ ہوسکتا ہے۔ ایک تو خاتون دوبارہ بھینس سے بکری کی صورت میں آجائیں گی اور سلمنگ سینٹرز پر برباد کیا جانے والا پیسہ، بھی بچنے کا واضح امکان ہے۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔۔۔