اپنے فیض صاحب نے فرمایا تھا کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔۔ لیکن ان کی اس گذارش پر لوگوں نے کوئی دھیان نہیں دیا بالکل ویسے ہی جیسے ان کے انقلاب کو یار لوگ گویوں کے حوالے کرکے مطمئن ہوگئے تھے۔بچپن سے پچپن بلکہ اب توستر پچھترتک بھی ہر دوسرا بندہ اس مرض کا شکار ہے۔ اگلے وقتوں میں یہ بیماری، دوسرے امراض مخصوصہ کے ساتھ صرف جوانی سے مخصوص سمجھی جاتی تھی، یا کم ازکم بیان ایسا ہی کیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ حال ہے کہ بغیر نیکر کے گھومنے والے صاحبزادے بھی محبت محبت کی گردان کرتے ہیں اور محبوب نہ ملنے پر زندگی برباد ہونے کی چتاونی دیتے پائے جاتے ہیں۔
ہماری ناقص سمجھ میں تو یہ آیا ہے کہ ہم نے محبت اور ضرورت کو گڈ مڈ کردیا ہے۔ جسے آج کل محبت کے نام سے پروموٹ کیا جارہا ہے اور اس کا باجا، پرانے زمانے کی باراتوں میں بجنے والے بینڈ باجے کی طرح بجایا جاتا ہے، وہ ضرورت ہی ہے۔ جیسے کھانا ضرورت ہے، پینا ضرورت ہے، سونا ضرورت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اب جو حضرات و خواتین، محبت میں ملاپ نہ ہونے پر زندہ نہ رہنے کے ارادے ظاہر کرتے ہیں، بقول خاور، انہوں نے شجر ممنوعہ کا پھل نہیں چکھا ہوتا اور اس فرسٹریشن یا ضرورت پوری نہ ہونے پر وہ مایوسی کے عالم میں ایسی درفنطنیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ اور ویسے بھی "محبت"کی شادی میں محبت، ولیمے کے تنبو اکھڑنے تک ہی رہتی ہے۔
اس سارے ڈفانگ میں شاعروں کا کردار کسی بی جمالو سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے جدائی، فراق، وفا، جفا، نا رسائی وغیرہ کے ایسے ایسے مضمون باندھے ہیں اور انہیں ایسے گلوری فائی کیا ہے کہ ہر دوسرا ضرورت کا مارا، خود کو محبت کی کلاسیکی مثال سمجھ کر آہیں بھرتا اور تارے گنتا پھرتا ہے۔ جبکہ بات بڑی سادہ اور سیدھی ہے جو ہمیں پرائمری میں ہی سمجھا دی گئی تھی کہ انگور کھٹے ہیں۔ ایسے تمام حضرات جو "محبت" میں ناکامی یا "سادہ" لفظوں میں نارسائی کے ڈسے ہوئے ہیں ۔ ان کو ہمارا مفت مشورہ ہے کہ جتنی جلد ہوسکے، ضرورت پوری کرنے کا بست وبند کرلیں۔ ہمارا ووٹ قانونی اور شرعی طریقے کے حق میں ہی ہے۔ انشاءاللہ ولیمے کا کھانا لگنے سے پہلے ہی ان کے مرض "محبت"کا شافی و کافی علاج ہوجائے گا۔
آج تک محبت کا لفظ اتنی دفعہ لکھا نہیں گیا ہوگا ، جتنی اس کی تعریفیں یا ڈیفی نیشنز کی گئی ہیں۔ ان میں ایک ہماری تعریف بھی ہے جس کے مطابق ۔۔"اصلی تے سُچی محبت وہ ہوتی ہے، جو ضرورت پوری ہونے کے بعد ہو"۔ اب اس کی تشریح آپ خود کرتے رہیں!۔۔