آج کا دن بہت سی اچھی خبریں لایا۔ میڈم نفیسہ کے فون نے صبح جلد بیدار کردیاتھا۔ انہوں نے خوشخبری سنائی کہ سرداراں تائی کیس کے مردے میں دوبارہ جان پڑگئی ہے۔ 'سفارتخانے' والوں نے آج سہ پہر بریفنگ کے لیے بلایا ہے۔ مزید تفصیلات بارے دریافت کرنے پر میڈم نے فورا اپنے آفس پہنچنے کو کہا۔ بیگم رات پتہ نہیں کس وقت آئی تھیں، لہذا دھت سورہی تھیں۔ میں تیار ہوا، کافی پی اور میڈم نفیسہ کی طرف جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔
میڈم کے آفس میں رپورٹرز کا جھمگٹا لگا ہوا تھا۔ چینلز والے اپنے مائیک ان کے منہ میں گھسیڑنے کی لگاتار کوشش کررہے تھے۔ میڈم، حقوق نسواں پر دھواں دھار تقریر کررہی تھیں جو لائیو ٹیلی کاسٹ ہورہی تھی۔ انہوں نے مولویوں، سپریم کورٹ، مردوں، اسلام، غرض سب کو حسب توفیق کھری کھری سنائیں۔ میں چپکا ہوکے ایک کونے میں کھڑاہو گیا۔ آدھ پون گھنٹے کے بعد جب سب رپورٹرز سموسے، پیسٹریاں، پیٹیز اڑانے کے بعد انٹا غفیل ہوئے پڑے تھے تو میڈم نے مجھے اشارے سے ریسٹ روم میں آنے کو کہا۔
ریسٹ روم کا دروازہ اندر سے بند کرکے میڈم نے ایک گہری سانس لی اور آرام کرسی پر نیم دراز ہوتےہوئے مجھ سے کہا کہ الماری سے بوتل اور گلاس نکالوں۔ میں نے دو گلاس بنائے اور میڈم کی کرسی کے سامنے دھری کاؤچ پر بیٹھ گیا۔
۔۔"جیلانی، ہماری ایک دفعہ پھر لاٹری لگ گئی ہے"۔ میڈم نے اپنی بھینگی آنکھوں کو نشیلی بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔ "بہت عرصے سے ڈرائی سپل چل رہا تھا۔ لگتا ہے خدا نے ہماری سن لی ہے۔ سفارتخانے والے بھی بڑے اتاؤلے ہورہے ہیں۔ کل سے یاددھانی کے دس فون آچکے ہیں۔ جیلانی ۔۔۔۔ وی ول میک آ فارچون آؤٹ آف اٹ۔۔۔"۔ میڈم نے ایک سسکاری لی اور آنکھیں موند لیں۔
خوشی کے مارے میری تو بھوک ہی اڑگئی تھی۔ لنچ بھی ہلکا پھلکا کیا۔ یعنی دو بگ میک پلس لارج فرائز۔ تین بجے ہم سفارتخانے جانے کے لیے نکلے۔ اب تو "سفارتخانے" جانا ایسا لگتا ہے جیسےہم محاذ جنگ پر جارہے ہوں۔ جگہ جگہ مورچے اور ان سے جھانکتی بندوقوں کی نالیاں۔ سکیورٹی کے نام پر آدھا گھنٹہ پہلے کتوں نے اور پھر بندوں نے ہمیں سونگھ کر کلیر کیا۔ کانفرنس روم میں شہر کی تمام نیک نام این جی اوز کے نمائندے موجود تھے۔ عالی پناہ نے بریفنگ کا آغاز کرتے ہوئے سرداراں تائی کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا اور اس امر پر گہری خوشی اور مسرت کا اظہار کیا کہ خداوند کی مہربانی سے ایسا فیصلہ آیا ہے جس پر ہم اپنا لُچ بآسانی تل سکتے ہیں۔
انہوں نے فردا فردا سب کو ٹاسک سونپے۔ میڈم اور میں چونکہ یک جان دو قالب سمجھے جاتے ہیں۔ لہذا ہم دونوں کے سپرد ایک ہی ٹاسک کیا گیا۔ جس میں اس فیصلے کی آڑ لے کر مستقل اہداف پر گولہ باری جاری رکھنا شامل تھا ۔ میرے ذمے پرنٹ میڈیا آیا اور میڈم کے حصے الیکٹرانک۔ عالی پناہ نے گائیڈ لائن دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسے چائلڈ لیبر صرف وہ ہوتی ہے، جہاں پندرہ سولہ سال کے بچے کسی فٹ بال بنانے والی فیکٹری میں کام کریں اور اچھے پیسے کمائیں۔ جو سات آٹھ سالہ بچے ہمارے گھروں میں چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں اور روٹی کپڑے کے علاوہ کبھی کبھار دو تین سو روپے ترس کھا کے انہیں دئیے جاتے ہیں، وہ چائلڈ لیبر میں نہیں آتے، بلکہ ان کا شمار صلہ رحمی اور انسانیت کے احترام وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح سزائے موت اگر قاتل کو ملے تو غیر انسانی اور وحشیانہ سزا ہے اور اگر سرداراں تائی کیس میں ملوث ملزمان کو نہ ملے تو یہ ناانصافی اور انصاف کا قتل سمجھا جائے گا۔
بریفنگ کے اختتام پر سب کو حفط مراتب اور خدمات کے لحاظ سے گرانٹس کے چیک دئیے گئے۔ عالی پناہ کے سیکرٹری نے مجھے بلجیم میں ہونے والی کانفرنس کا دعوت نامہ اور ریٹرن ٹکٹ بھی دئیے۔ یہ کانفرنس، اسلامی معاشرے میں عورت کا کردار اور مردوں کی بے کرداری کے موضوع پر ہورہی ہے۔
بریفنگ سے واپسی پر شام ڈھل چکی تھی۔ میں نے گاڑی کلب کی طرف موڑلی۔ آخر اتنے اچھے دن کے اختتام پر جشن تو ہونا ہی چاہیے تھا۔