الطاف انکل عرف قائد تحریک مزید عرف قائد انقلاب عرف شدید موٹے نے عوامی ریفرنڈم میں سترہ سوال پوچھے ہیں۔ ہم ان سوالوں کے جوابات کے ساتھ حاضر ہیں۔ ان سوالات میں موٹے انکل نے کچھ ایسی ہینکی پینکی بھی کی ہے جو ہم سکول کے دور میں مطالعہ پاکستان کے پرچے میں کیا کرتے تھے۔ مثلا ایک دفعہ ہم نے قائد اعظم کے چودہ نکات کو تئیس نکتوں تک پھیلا دیا تھا۔ ایسا ہی کچھ ان سترہ سوالات میں بھی کیا گیا ہے۔ اس ریفرنڈم میں الطاف انکل کی تحریک کے فاؤنڈنگ فادر عرف مرد مومن مرد حق کے ریفرنڈم کی جھلک بھی نظر آتی ہے کہ اگر آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں تو میں اگلے پانچ سال کے لیے صدر ہوں۔۔۔ہیں جی؟
پہلا اور دوسرا سوال اصل میں ایک ہی ہے، جو ہماری چودہ نکات والی تکنیک سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے کہ فلاں فلاں فلاں ملک میں دہشت گردی کے بعد وہاں کی عوام نے اتحاد وغیرہ کا مظاہرہ کیا تھا جبکہ ہم لڑ وغیرہ رہے ہیں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کررہے ہیں، جبکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
اصل میں تو یہ سوال ہے ہی نہیں، موٹے انکل کا معمول کا سیاسی پوائنٹ سکورنگ والا بیان ہے۔ جسے وہ ہر واقعہ، سانحے، حادثے پر مقام، نام وغیرہ بدل کے استعمال لیتے ہیں۔ لہذا ہم اس سیاسی بیان پر تو کوئی جواب دے نہیں سکتے۔ صرف شاباش دے سکتے ہیں۔۔۔۔ در شاباش۔۔
تیسرا اور چوتھا سوال بھی ایک بیان ہی ہے جس میں دہشت گردی کے شکار ممالک کے حکمرانوں کے بارے پوچھا گیا ہے کہ کیا انہوں نے ایسے واقعات کے فورا بعد غیر ملکی دورے کئے؟ یا اگر دوروں پر تھے تو منسوخ کرکے واپس آگئے؟
پتہ نہیں جی۔ ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ آپ تقریبا بیس سالوں سے غیرملکی دورے پر ہیں۔ جس دن آپ یہاں سے گئے تھے اس دن پیدا ہونے والے بچے آج ماسٹرز کررہے ہیں۔ جبکہ آپ۔۔ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔۔ بنے ہوئے، وہیں ٹکے ہوئے ہیں۔ اور ہمیں انقلاب کی اشکل دیتے جارہے ہیں۔ خود کھا کھا کے غبارے کی طرح پھول گئے ہیں جبکہ آپ کی انقلابی عوام بھوک سے خود کشیاں کررہی ہے۔ اس کا جواب کون دے گا؟
اگلے سوال میں انہی ممالک کا حوالہ دے کر فوج سے جاری رومانس پر مہر تصدیق ثبت کی گئی ہے کہ کیا انہوں نے فوج کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا؟
اس معاملے پر ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کم ازکم ایک فریق تو ایسا ہے جو کہہ سکتا ہے کہ آپ نے آج تک انہیں لمبا گیڑا نہیں کرایا۔ ایک دفعہ کوشش کی تھی تو ابھی تک ٹکور کررہے ہیں۔ اس کے بعد ماشاءاللہ آپ کا ٹریک ریکارڈ قابل رشک ہے۔ ہمیں تو یہ بھی شک ہورہا ہے کہ بعد از انقلاب، آپ جنرل یحیی خان کو نشان حیدر دینے کی سفارش بھی کریں گے۔ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے۔۔۔ آہو۔۔
اگلا سوال پھر وہی اٹھانوے فیصد اور دوفیصد کا رنڈی رونا ہے اور فوج سے دست بستہ گذارش ہے کہ انہیں اٹھانوے فیصد کا نمائندہ جانتے ہوئے، دوفیصد کا سربراہ بنادے۔
چند دن پہلے سہ بارہ دو فیصدیوں کے ساتھ وزارتوں کا حلف اٹھا کے ایسا سوال کرنا، موٹے انکل کا ہی حوصلہ ہے۔ لگے رہو موٹا بھائی
یہاں تک آکے میری بس ہوگئی ہے۔ اگلے سارے سوال بھی وہی کروڑوں دفعہ کے دہرائے ہوئے ٹیلیفونک، ٹیلی ویژنک اور اخباری بل شٹ بیانات ہیں۔ جن کو سن سن کے کان پک گئے ہیں بلکہ اب تو رسنے بھی لگے ہیں۔