آپ عبدالشکور کو دیکھ لیں۔ یہ فیصل آباد میں پیدا ہوا۔ یہ اپنے آبائی گھر واقع منڈی کوارٹر میں رہتا ہے۔ یہ بچپن سے ہی پڑھاکو تھا۔ اس نے پرائمری ، مڈل اور میٹرک کے امتحان ہائی تھرڈ ڈویژن میں پاس کیے۔ یہ اعلی تعلیم کے لیے ملت 'یونیورسٹی' غلام محمد آباد (گلاما باد) میں داخل ہوگیا۔ ایف اے امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد، عبدالشکور، حاجی ثناءاللہ کی کپڑے کی دکان پر منشی لگ گیا۔ حاجی صاحب کے دیکھا دیکھی اس نے داڑھی بھی رکھ لی اور تبلیغی اجتماعات میں بھی جانا شروع کردیا۔
عبدالشکور کی زندگی ناکامی کی اعلی مثال ہے۔ یہ سائیکل پر گھومتا ہے۔ اس کی شادی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اس کی شلوار ٹخنوں سے اونچی ہوتی ہے۔ لوگ اسے مولوی مولوی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جب بھی خود کش بمباروں کی فیصل آباد میں داخلے کی اطلاع آتی ہے، پولیس اسے پکڑ کر لے جاتی ہے اور ہفتے دس دن تک حوالات میں بند رکھتی ہے۔ حاجی ثناءاللہ بھی ان دنوں کی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں۔ یہ جب بھی لاہور جاتا ہے، بس میں چیکنگ کرنے والی پولیس پارٹی سب سے پہلے اسے کہتی ہے کہ 'اوئے مولبی، چل باہر آ"۔ عبدالشکور کی زندگی، شرمندگی کی شرمناک مثال ہے۔ عبدالشکور کا امیج دنیا کی نظروں میں نہایت خراب ہے۔ لوگ اسے دہشت گرد، بنیاد پرست، مولوی، تقلیدیا اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں۔
اگر عبدالشکور، شلوار ٹخنوں سے نیچی کرلے، کلین شیو ہوجائے۔ منڈی کوارٹر کے مشٹنڈوں کے ساتھ گھومنا پھرنا شروع کردے۔ چرس نہ سہی، سگریٹ ہی پینا شروع کردے۔ 'بروکری' چاہے نہ کرے، لیکن 'خریداری' ہی شروع کردے۔ اور سب سے بڑھ کر اگر وہ 'منگ پتہ' کھیلنا شروع کردے۔ اس کا اچھا کھلاڑی بن جائے۔ تو اس کا امیج اور تاثر ڈرامائی طور پر بدل جائے گا۔ لوگ اسے زندہ دل، خوش باش اور اعلی انسان سمجھنے لگیں گے۔ پولیس اسے تنگ کرنا چھوڑ دے گی۔ خاندان میں اس کی عزت بڑھ جائے گی۔ یہ حاجی ثناءاللہ کی دکان پر کام کرنے کی بجائے اس جیسی کئی دکانیں خود کھولنے کی قابل ہوجائے گا۔
آپ وارث پورے چلے جائیں، افغان آباد، اشرف قصائی کے اڈے پر چلے جائیں، یا کسی بھی ڈیرے کا چکر لگالیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ منگ پتے کے اچھے کھلاڑی کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ عبدالشکور کو اپنا تاثر بدلنے کے لیے کم ازکم یہ کام ضرور کرنا پڑے گا، ورنہ دنیا اسے قدامت پرست اور جاہل قرار دے کر مسترد کردے گی۔ اس کا مستقبل جو پہلے ہی لوڈ شیڈنگ کا مارا ہے، بالکل ہی تاریک ہوجائے گا۔
فیصلہ ترا، ترے ہاتھوں میں ہے ۔۔۔۔۔عبدالشکور!۔