کُکّڑ، بانگ اور گڈ مارننگ
15 تبصرے:
- Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ایسے ککڑ کا تو چرغہ بنا دینا ﭼﺎﮨﻴﮯ
- April 27, 2012 at 3:39 PM
- ڈاکٹر جواد احمد خان نے فرمایا ہے۔۔۔
-
بہت خوب۔۔۔۔۔ کم از کم یہ تو ثابت ہوا کہ کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتیں۔
ککڑ تو ککڑ ہے بانگ دینا اسکی فطرت ہے اب یہ بانگ کسی ککڑ چور اور ککڑ خور کو متوجہ کرلے تو قصور تو ککڑ کا ہی ہوا نا۔۔۔۔ - April 27, 2012 at 5:44 PM
- فیصل نے فرمایا ہے۔۔۔
-
ہاہا جاوید چودھری بھائی
کدھر بھڑوں کے چتھے میں ہاتھ ڈال دیا ہے؟
پیماریوں کی تشخیص تو کی ہے، علاج بھی بتائیں۔ - April 27, 2012 at 8:27 PM
- Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔
-
زبردست لکھا ہے
مجھے یہ نہیں سمجھ آتی یہ خود کو ہندوستانی مہاجر کہنے والے اور اسکا کریڈٹ چاہنے والے اس وقت کے دار الحکومت میں ہی کیوں آکر بستے رہے، انہیں اور شہر کیوں نہیں نظر آئے تھے حالانکہ وہ تو باڈر سے ذیادہ قریب تھے اور جو باقی شہروں میں مہاجر آباد ہوئے وہ کیوں نہیں بولتے ہمیشہ انہیں ہی کیوں تکلیف ہوتی ہے۔ - April 27, 2012 at 9:11 PM
- عدنان شاہد نے فرمایا ہے۔۔۔
-
میاں جعفر لکھا تو آپ نے سہی ہے مگر مجھے لگتا ہے یہاں کھمسان کا رن پڑنے والا ہے آپ کے بلاگ پر
- April 27, 2012 at 9:26 PM
- Umair نے فرمایا ہے۔۔۔
-
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس مہاجر، مقامی کی جنگ میں ہم کیوں نہیں شامل ہوئے آج تک۔ میرے آباء و اجداد بھی ہندوستان سے ہی آئے تھے، ہمیں کبھی اس قسم کا طعنہ نہیں ملا نہ ہی میں نے کبھی اپنے دادا یا دادی کے منہ سے پاکستان یا "مقامی" پاکستانیوں کے خلاف کچھ سنا۔ بلکہ اس طرح کی کوئی بحث کبھی ہوئی ہی نہیں۔ اگر ہندوستان میں جائدادیں تھیں تو الحمد للہ اب یہاں بھی ہیں۔ اگر وہاں کنگلے تھے تو یہاں بھی کنگلے ہی آئے تھے۔
ہم "شروع" سے ہی پاکستانی ہیں اور نیچرلائزڈ پنجابی ہیں۔ مادری زبان اب بھی اردو ہے۔ - April 27, 2012 at 11:06 PM
- زینب نے فرمایا ہے۔۔۔
-
خود کو مہاجر کہلوانا بند ذہنیت کی علامت ہے میرے سسر ستر کی دہائ میں لکھنؤ سے کراچی آۓ تھے اب کوئ ان سے کہے کہ آپ مہاجر ہیں تو زوردار گھوری ڈالنے کے بعد فرماتے ہیں پاکستانی ہوں لکھنؤ تو قصہ پارینہ بن چکا
- April 27, 2012 at 11:48 PM
- عادل بھیا نے فرمایا ہے۔۔۔
-
:) ماشاءاللہ آپکے پاس نہ صرف بہترین موضوعات ہوتے ہیں لکھنے کیلئے بلکہ خوبصورت سوچ بھی۔
آپکی تحریر اور اوپر کئے گئے دوستوں کے تبصروں سے اتفاق کرتا ہوں۔ - April 28, 2012 at 10:29 AM
- Munir Abbasi نے فرمایا ہے۔۔۔
-
Usta z.
Please stop it.
kaheen zameen jumbad na jumbad gul muhammad wali bat aap pe b na poori ho jullay.
Enough is enough, I think. - April 28, 2012 at 11:57 AM
- Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔
-
از شکیل
کیا کہوں سواے اس کے
ہم تو یرغمالی ہیں
یہ بندوقوں والے ہاتھ ہیں جو
یہ ہاتھ ہمارے ہاتھ نہیں
جو نفرت پھیلاتے ہیں ہر سو
ہم لوگ ان کے ساتھ نہیں
یہ ووٹ ہمارے ووٹ نہیں
یہ لوگ ہمارے لوگ نہیں
ہم تو یرغمالی ہیں
یہ موچی، مزدور، کاریگر
یہ ہمارا شھر چلاتے ہیں
یہ اپنا خون جلاتے ہیں
اور ہمارے چراغ جلاتے ہیں
یہ لوگ ہمیں بہت پیارے ہیں
ہم تو یرغمالی ہیں
کوی آے ہمیں آزاد کرے
پھر دنیا کو ہم بتلا دیں گے
ہم کتنی محبت کرتے ہیں
تم ہم کوکتنے پیارے ہو
تب تک کا انتظار کرو
جب تم ہم یرغمالی ہیں - April 28, 2012 at 1:27 PM
- یاسر عمران نے فرمایا ہے۔۔۔
-
لگتا ہے آپ کے بلاگ کی ٹریفک کم ہو گئی اس لیے پنگا ایک بار پھر
- April 28, 2012 at 6:07 PM
- Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔
-
از شکیل
تصیح
جب تم ہم یرغمالی ہیں
=
جب تک ہم یرغمالی ہیں - April 28, 2012 at 6:28 PM
- Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔
-
بهائ پاکستان عالمی سازش کے نرغے میں هے.اگر آپ منی لانڈرنگ کے کیس جو ڈراپ هوے اور نے صوبے کا شوشہ پہر انڈیا کا سرحد پر پنگے بازی
میں یو کے هون میرے گھر رقم برآمد هوتی تو دہشت گردی میں ملوث ہونے بولتے.
اب اگر چارجز ڈراپ هوے هیں تو یونہی نہیں.
یہ کوئی موقع نہیں کہ بات کرتے اور انارکی پھیلاتے.
ساتھ میں ایک سال کے آرام کے بعد بلوچستان میں دھماکے جب طالبان نے زمہ داری قبول نہیں کی
تو پہر کون لوگ ہیں سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو بات واضح ہو جاتی ہے - October 25, 2014 at 10:24 PM
- Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔
-
واہ بہت خوب، لیکن یہ پان پراگ وغیرہ نہ لکھتے بہتر تھا، کچھ عجیب سا تاثر ابھرا اس سے۔
- May 31, 2016 at 1:47 PM
- Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔
-
واہ بہت خوب، لیکن یہ پان پراگ وغیرہ نہ لکھتے بہتر تھا، کچھ عجیب سا تاثر ابھرا اس سے۔
- May 31, 2016 at 1:48 PM