2018 کے موسم خزاں کا ذکر ہے۔ جرمنی کی کولون یونیورسٹی کے ترکی نژاد
پروفیسر اوغر ساہین معمول کے مطابق صبح سویرے یونیورسٹی جانے کے لئے ٹرین میں سوار
ہوئے۔ وہ شہر کے مضافات میں رہائش پذیر تھے اور ڈرائیو کرنے کی بجائے ٹرین پر جانا
پسند کرتے تھے۔ اس دن خلاف معمول سفر کے دوران انہیں نیند آگئی۔ انہوں نے ایک عجیب
خواب دیکھا۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو ان کی منزل قریب تھی۔ وہ اترے اور دن کے
معمولات میں مشغول ہوگئے۔
دو دن بعد ویک اینڈ کی رات انہیں پھر وہی خواب بعینہ نظر
آیا۔ صبح اٹھ کر انہوں نے اپنی اہلیہ اوزلم طوریسی سے اس کا ذکر کیا جو خود بھی
سائنسدان تھیں۔ روایتی بیویوں کی طرح انہوں نے پروفیسر اوغر کو کہا کہ زیادہ کام
کرنے کی وجہ سے آپ تھکن کا شکار ہیں۔ ہو سکے تو چھٹیاں لے کر کسی پر فضا مقام پر
چند دن گزار آئیں۔ پروفیسر صاحب کے دل کو یہ بات لگی۔
ایک ہفتے بعد دونوں میاں بیوی ترکی میں تھے۔ سب سے پہلے انہوں
نے مولانا رومؒ کے مزار پر حاضری دی۔ پروفیسر ساہین روحانیت سے بھی شغف رکھتے تھے
اور مولانا رومؒ کی شاعری ان کو خاص طور پر پسند تھی۔ اسی دن رات کو وہی خواب
پروفیسر ساہین نے دوبارہ دیکھا۔ صبح جب انہوں نے ڈاکٹر طوریسی سے اس کا ذکر کیا تو
ان کا رنگ زرد تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بھی وہی خواب دیکھا تھا!
خواب ایک گنجان آباد شہر سے شروع ہوتا ہے۔ شہر کے مرکز میں
پروفیسر اوغر ساہین پیدل جا رہے ہیں اور پورا شہر ویران ہے۔ کوئی انسان، پرندہ،
جانور نظر نہیں آتا۔ دکانیں کھلی ہیں۔ کاریں، بسیں، سڑکوں پر بغیر کسی انسان کے
موجود ہیں۔ پروفیسر مسجد ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ عصر کی نماز پڑھ سکیں۔ بالآخر انہیں
ایک مسجد نظر آتی ہے۔ وہ مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔ مسجد میں امام کے مصلّے پر ایک بزرگ
نماز پڑھ رہے ہیں۔ پروفیسر ساہین انتظار کرتے ہیں کہ وہ نماز ختم کریں تو ان سے
شہر کی ویرانی کی وجہ دریافت کریں۔
بزرگ نماز ختم کرکے دعا کرتے ہیں اور پھر پروفیسر ساہین کی طرف
متوجہ ہوتے ہیں۔ سفید لباس، سبز پگڑی میں ملبوس، سرخ و سفید رنگ، سفید ڈاڑھی۔
اشارے سے پروفیسر کو پاس بلاتے ہیں۔ انکو پاس بٹھا کر ان کا ماتھا چومتے ہیں۔ پھر
اپنا نام بتاتے ہیں۔
پروفیسر ان کا نام سنتے ہیں تو عقیدت سے بے اختیار ہو کر ان
کے ہاتھ چومنا شروع کردیتے ہیں۔ بزرگ ان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہیں اور
پروفیسر ساہین سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ بیٹا کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟
پروفیسر اشکبار آنکھوں سے اثبات میں سر ہلاتے ہیں۔ اس پر بزرگ بتاتے ہیں کہ اس شہر
کی ویرانی کو دیکھ رہے ہو؟ اگر یہ کام نہ ہوا تو پوری دنیا ایسے ہی ویران ہو جائے
گی۔ کوئی انسان باقی نہیں بچے گا۔ میرے بچّے! مجھے اسی کام کے لیے تمہارے پاس
بھیجا گیا ہے۔ اب میری بات دھیان سے سنو۔
آج سے قریبا ایک سال بعد ایک وبا آئے گی۔ جو شہروں کے شہر
ویران کر دے گی۔ اگر اس کا جلد علاج نہ ڈھونڈا گیا تو مخلوقِ خدا تڑپ تڑپ کر مر
جائے گی۔ تم کو خدا نے ایک ایسا علم عطا کیا ہے جو اس بیماری کا علاج دریافت کر
سکتا ہے۔ میرے بچّے، آج ہی سے اس پر کام شروع کر دو۔ یہ بیماری زکام اور نمونیہ کی
بگڑی ہوئی شکل جیسی ہوگی جس پر کوئی بھی دوا اثر نہیں کرے گی۔ تم حفاظتی دوا بنانے
کا علم سکھاتے ہو۔ تم دونوں میاں بیوی کو خدا کی طرف سے اس کام کے لیے چُنا گیا
ہے۔ جاؤ، میرے بچّے۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔
پروفیسر ساہین اور ڈاکٹر طوریسی دم بخود بیٹھے ایک دوسرے کو
دیکھتے رہے۔ بالآخر پروفیسر ساہین اٹھے اور سامان پیک کرنا شروع کردیا۔ اسی دن
دونوں جرمنی واپس آگئے۔ اگلے دن سے ہی میاں بیوی اپنی لیبارٹری میں جُت
گئے۔ مختلف کمبینیشن کے وائرس بنا کے ان کے اثرات کا جائزہ لیتے اور پھر ان کے لیے
ویکسین تیار کرتے۔ یہ ایک طویل اور پر مشقت کام تھا۔ لیکن دونوں میاں بیوی صاحبِ
ایمان تھے۔ ان کا یقین تھا کہ جو انہوں نے خواب میں دیکھا وہ بالآخر ہو کے رہے گا۔
2019 کے نومبر میں کورونا کے کیسز رپورٹ ہونے شروع ہوئے۔ پروفیسر
ساہین اور ڈاکٹر طوریسی اس کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے فورا حکومت سے رابطہ کیا اور
کورونا مریضوں کے سیمپلز حاصل کرنے کی درخواست کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے چین،
برطانیہ، امریکہ اور فرانس کے اعلی ترین ویکسین ماہرین کے ساتھ ایک میٹنگ ارینج
کرنے کی درخواست بھی کی۔ یہ میٹنگ جنوری 2020 میں جنیوا میں ہوئی۔ تب تک کورونا
مریضوں کے سیمپلز پر ریسرچ کرکے پروفیسر ساہین ویکسین کا پروٹو ٹائپ تیار کر چکے
تھے۔
میٹنگ شروع ہوئی تو پروفیسر نے بلا کم و کاست تمام ماجرا کہہ
سنایا۔ زیادہ تر ماہرین کے چہرے پر بے یقینی تھی۔ پروفیسر ساہین نے جب ویکسین کے
پروٹو ٹائپ بارے بتایا تو سب حیران تھے کہ اتنی جلد ویکسین بنانا ممکن نہیں۔
پروفیسر نے بتایا کہ وہ تقریبا سوا سال سے اس پر کام کر رہے ہیں۔ اس لیے وائرس کا
سیمپل ملتے ہی انہوں نے تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ ابتدائی ویکسین تیار کرلی ہے اور
وہ اس پر مزید ڈیٹا ملنے کے ساتھ بہتری لاتے جائیں گے۔ پروفیسر ساہین نے تمام ماہرین
پر زور دیا کہ وہ آج سے ہی اپنی ویکسینز پر کام شروع کردیں۔ انہوں نے پچھلی سوا
سال کی ریسرچ اور اس کے نتائج سب کے ساتھ شئیر کیے اور کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ
مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ مخلوقِ خدا کو بچانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
جنوری 2020 کے بعد کی داستان ساری دنیا کو ازبر ہے۔ خوف،
موت، وبا، بھوک اور بے روزگاری۔ ساری دنیا پر خوف کا سایہ تھا۔ بالآخر سال کے اختتام
تک چینی، برطانوی، امریکی اور جرمن ویکسینز بن چکی تھیں۔ ان کے ٹرائلز ہو چکے تھے
اور وہ استعمال کے لیے تیار تھیں۔
بہت حیران کن بات یہ تھی کہ زیادہ تر ویکیسنز پر کام کرنے والے ماہرین پچھلے سال
کے آخر تک اسلام قبول کر چکے تھے۔ پروفیسر ساہین اور ڈاکٹر طوریسی کی کہانی حرف بہ
حرف سچ ثابت ہونے کے بعد اسلام کی حقانیت ان پر واضح ہوئی اور حق تعالٰی نے ان کے
دلوں میں ایمان کی روشنی بھر دی۔
عجیب بات یہ تھی کہ پوری دنیا میں سازشی تھیوریز کے ذریعے ویکسین
کا کریڈٹ کبھی بل گیٹس کو دیا جاتا اور
کبھی اسے کفار کی سازش کہا جاتا۔ حالانکہ یہ رب تعالٰی کی اپنی مخلوق سے محبّت تھی
جس نے پروفیسر اوغر ساہین اور ڈاکٹر اوزلم طوریسی کے ذریعے بیماری کا علاج اپنے
بندوں تک پہنچایا۔
ویکسین لگوانا حکمِ الہیٰ ہے۔ اگر کوئی اس کو سازش کہتا ہے تو وہ خدا کا نافرمان اور بزرگانِ دین کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔ بطور مسلمان ہم سب پر فرض ہے کہ ویکسین لگوائیں اور خدا کے پسندیدہ اور فرماں بردار بندوں میں سے ہوجائیں۔