یہ کوئی دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے، اب ”خبرناک“ اور اس سے پہلے ”حسب حال“ کے میزبان آفتاب اقبال نوائے وقت میں حسب حال ہی کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ میں بھی اس کالم کے متاثرین میں شامل تھا اور اکثر صاحب کو بذریعہ برقی خط کالم بارے اپنے تاثرات پہنچایا کرتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے میرے پیغام کا جواب دینے میں تاخیر کی ہو۔ میں نے ان کے کالم کے مشہور اور مستقل کردار ”عزیزی“ کے بارے بھی دریافت کیا تھا کہ کیا واقعی یہ حقیقی کردار ہے یا گھڑا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ عزیزی واقعی موجود ہے اور ان کا بہت اچھا جاننے والا ہے، نام بتانے پر البتہ وہ راضی نہیں ہوئے تھے۔
اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان پیغامات اور تبادلہ خیالات میں سے بہت سے نکات کو انہوں نے اپنے کالمز کا حصہ بنایا، میری کچھ 'تراکیب' جو میں نے ان پیغامات میں استعمال کی تھیں، وہ بھی انہوں نے استعمال کیں۔ بلکہ ایک دو کالم تو خالصتا میری فرمائش پر بھی لکھے۔
وہ تو ایک دن انہوں نے ٹی وی کی حالت زار پر ایک کالم لکھتے ہوئے اپنے بنائے ہوئے ڈرامے ”نقاب“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹی وی کی تاریخ میں یہ ڈرامہ ٹرینڈ سیٹر تھا۔ اس سے پہلے کوئی تھرلر پاکستان میں نہیں بنایا گیا۔ اس پر میں نے انہیں لکھا کہ جناب! جان دیو۔۔۔ اگر نقاب تھرلر ہے تو مولا جٹ تو پھر ٹرمینیٹر سے بڑی ایکشن فلم ہے۔ بس اسی بات پر صاحب غصہ کھاگئے اور مجھے اس انداز کا پیغام بھیجا جیسے آج کل وہ بے چارے سٹیج کے مسکین فنکاروں کو "دبکے" مارتے ہیں!۔۔۔
انہوں نے لکھا تھا کہ " پاکستان میں پہلی دفعہ ڈرامے میں باڈی بلاسٹ تیکنیک استعمال کی گئی تھی اور یہ پاکستان کا پہلا تھرلر تھا اب یہ مت پوچھنا کہ تھرلر کیا ہوتا ہے"۔۔۔۔۔
یہ پیغام پڑھنے کے بعد میں نے خودسے ایک سوال کیاتھا (جناب بدتمیزوالا سوال نہیں، حالانکہ اصولی طور پر وہی سوال پوچھنا بنتا تھا) اور ایک طعنہ دیا تھا۔ سوال تیکنیک کے متعلق تھا، جو یہاں دہرانے کے لائق نہیں اور طعنہ تھا ۔۔۔
ہور چوپو۔۔۔۔