چچا نے”وفاداری بشرط استواری“ کی شرط کو ایمان کے اصل ہونے کی بنیاد بتایا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ استواری ختم ہوجائے تو وفاداری کی شرط بھی ساقط ہوجاتی ہے۔پس ثابت ہوا ، ہمارا ایمان ابھی تک ثابت و سالم ہے ۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ دوسال کی استواری اب ختم ہوچکی ہے لہذا ہم بھی وفاداری بدلتے ہوئے پرانا ٹھکانہ چھوڑ نئے ٹھیّے پر آبیٹھے ہیں۔ عبدالقدوس میاں کے بازار میں ہمیں جگہ مفت ملی تھی تو ہم نے اپنی ”ہٹّی“ وہاں کھول لی تھی۔ اب چونکہ عملہ تہہ بازاری نے اس ہٹّی کو ناجائز تجاوز (بھلا تجاوز کبھی جائز بھی ہوا کرتا ہے؟) قرار دیا ہے تو ہم بھی اپنا منجی بسترہ اٹھا کر وہاں سے کوچ کرآئے ہیں۔ وہ تو ہمارے چند مہربانوں کی لگاتار و مسلسل نصیحتوں نے کام کردکھایا اور ہم نے اپنا بلاگی اندوختہ وقتا فوقتا محفوظ کرنا شروع کردیا ورنہ آج ہم بھی اس بازار کے متاثرین کی اکثریت کی طرح ہاتھ مل رہے ہوتے۔
وہاں سے یہاں منتقل ہونے پر شاید چند مہربان ہم پر لوٹا ہونے کی پھبتی بھی کسیں، کستے رہیں، کیونکہ منجی اور پھبتی وقتا فوقتا کستے رہنا چاہیے ورنہ ڈھیلی ہو کر دونوں نہایت پھسپھسی ہوجاتی ہیں۔
اس جگہ پر منتقلی میں سب سے زیادہ کوشش اور محنت ہمارے قابل صد احترام (ھی ھی ھی) دوست جناب ڈاکٹر عمر احمد بنگش کی ہے۔ جنہوں نے اس جگہ کو ہمارے لیے سنوارا اور اس قابل بنایا کہ آج ہم آپ سے مخاطب ہورہے ہیں۔ جس کے لیے ہم ان کے بالکل بھی شکر گزار نہیں ہیں کیونکہ یہ تو ان کا فرض تھا۔ ہمیں امید واثق ہے کہ ہمارے دوست مستقبل میں اس قسم کی حرکت کرنے سے پہلے ایک دفعہ ضرور سوچیں گے !۔
آخر میں ہم اردوسیارہ کی انتظامیہ سے دردمندانہ اور پرسوز اپیل نما التجا / درخواست کرتے ہیں کہ ۔۔۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔۔۔۔ یعنی ہمارا بلاگی پتہ اپ ڈیٹ کردیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔