کیا بنے گا؟

انہوں نے مخصوص رازدارانہ انداز میں گردن آگے کرکے اور آہستہ سی آواز میں پوچھا، 'جعفر بھائی!۔۔ یار کیا بنے گا؟'۔

میرے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی اور میں نے ان کا کندھا ہولے سے دبا کر کہا، 'پہلے کیا بنا تھا؟'

انہوں نے جواب دیا، 'کچھ نہیں'۔ میں نے کہا تو اب بھی کچھ نہیں بنے گا۔ انہوں نے اس مسخرے پن پر نظروں ہی نظروں میں مجھے سخت سست کہا، دل ہی دل میرا شجرہ 'دانش' کی علامت پرندے سے ملایا اور بزبان اردو مجھ سے کہاکہ حالات بڑے خراب ہیں بھیّا۔ تم ٹی وی نہیں دیکھتے؟

یہ صاحب میرے جاننے والے ہیں۔ ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ 'ڈرائیور کم پی آر او' ہیں۔ کراچی کے رہنے والے ہیں۔ ہفتے میں ایک دو دفعہ ان کا ہمارے دفتر، کام کے سلسلے میں آنا ہوتا ہے اور سلام دعا/گپ شپ ہوجاتی ہے۔ ہردفعہ ملنے پر ان کے ابتدائی جملے ہمیشہ یہی ہوتے ہیں کہ کیا بنے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی خاص چیز یا واقعہ پر پریشان ہوتے ہیں بلکہ ان کی پریشانی اور اس 'کیا بنےگا' ماخذ کسی نہ کسی ٹاک شو کے میزبان کی پچھلی رات کو چھوڑی ہوئی درفنطنی ہوتی ہے!

وہ اس نیوز چینلی ثم ٹاک شو یلغار کے کلاسک شکار ہیں جس نے اچھے بھلے سمجھدار بندوں کی پچھلے چند سالوں سے مت ماری ہوئی ہے۔

بہرحال میں نے 'چیزے' لینے کے لیے ان کو ایک دفعہ پھر اکسایا کہ قبلہ! آخر بولیے (بولیے کی جگہ جو لفظ میں نے سوچا تھا، وہ کہنے سے 'منی' فساد ہونے کا اندیشہ تھا) تو سہی کہ ہوا کیا؟۔ کیا 'بھائی' پھر دلہا بننے پر تیار ہوگئے؟۔ 'بھائی' ان کی چھیڑ ہیں اور ان کے ذکر پر وہ ایسے تپتے ہیں جیسے بھائی اور ان کے ہمنوا، بھتّے کے ذکر پر!

پہلے تو انہوں نے بھائی کی شان میں تئیس بند کا 'قصیدہ' پڑھا جس کی تاب نہ لاکر میرے جیسے بے شرم کے کان بھی لال ہوئے پھر انہوں نے چچ چچ کی آواز نکالتے ہوئے کہا کہ آپ نے وکی لیکس (اور لیکس کا تلفظ انہوں نے جھیل والے لیک سے مستعار لیا!) کے انکشافات نہیں سنے؟۔ میں نے جواب دیا کہ حضور والا، پڑھے تو ہیں، سنے نہیں لیکن ان میں، مجھے انکشاف تو کوئی نظر نہیں آیا۔ اگر کوئی ان کو انکشاف سمجھتا ہے تو یہ میرے لیے اس کی ذہانت کے بارے ایک انکشاف ہے۔

وہ بھنّا کر اٹھے اور الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے مجھے ایسی نظروں سے گھورا جیسے میرے استاد مجھے زمانہ طالب علمی میں گھورا کرتے تھے کہ بچّہ! تو نہیں سدھر سکتا اور تیرا کیا بنے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

باقی قاعدہ

حضرات، خواتین اس لیے نہیں لکھا کہ مدت مدید سے اس بلاگ پر خواتین کی آمد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے، ہمارا وچکارلا قاعدہ جو 'ج' تک پہنچ چکا تھا، ہم آج اس کو مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بہت سے احباب نے ہمیں لارے لگائے تھے کہ وہ بھی اس 'کار خیر' میں، ہماری مدد کریں گے لیکن یہ وعدے بھی محبوب اور حکومتی وعدوں کی طرح ایفا نہ ہوسکے۔ ویسے بھی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند چنداں مناسب نہ ہوتا۔

چلیے، قاعدے کی طرف چلتے ہیں۔

چ۔۔۔۔ چینی: یہ جادو کی چیز ہوتی ہے۔ ۱۲۷ روپے من گنے سے بننے والی چینی ۱۳۰ روپے کیلو تک بکتی ہے۔ شنید ہے کہ دوران عمل برائے چینی سازی اس میں زعفران، یورینیم، اریڈیم، پلوٹونیم جیسے قیمتی اجزاء بھی ملائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کی قیمت تھوڑی سی زیادہ ہوجاتی ہے۔ جس پر ناشکرے لوگ ، مہنگائی مہنگائی کا شور مچا کر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں لیکن اسے ایک مہینے کے لیے استعمال کرنا بند نہیں کرتے کیونکہ ۔۔۔ اس ملک خداداد میں سوائے چینی کے کوئی میٹھی چیز جو باقی نہیں رہی۔

ح۔۔۔۔حشر: واعظ حضرات، عوام کالانعام کو اس سے ڈراتے رہتے ہیں۔ خود، البتہ، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں، اور اگر ہے بھی تو ان کے لئے نہیں ہے، انہیں گھگو گھوڑوں کے لئے ہے۔ سرکار بھی اس کی تیاری کے لئے 'طاقت کے سرچشمے' کو مسلسل حشر کی ریہرسل کرواتی رہتی ہے تاکہ آخری سٹیج پر عوام کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔

خ۔۔۔۔خرگوش: یہ ایسے بندے کو کہتے ہیں جس کے کان، کھوتے جیسے ہوں۔ مثلا اظہر محمود، میرا بھانجا ولید وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ یہ لفظ اہل فارس کی تہذیبی روایت، اور ذخیرہ الفاظ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ جس میں 'کھڑکنّوں' کے لیے بھی خرگوش جیسا پیارا لفظ موجود ہے۔

د۔۔۔۔دلال: انگریزی میں اس کو بروکر وغیرہ کہتے ہیں۔ وطن عزیز اس جنس میں خود کفیل سے بھی چھ درجے آگے ہے۔ ہر نوع، سائز اور قیمت کے دلال، اس اسلامی جمہوریہ میں میسر ہیں۔ سیاسی سے صحافتی، عسکری سے معاشی، کھیل کے میدان سے یونیورسٹی کے لان تک ہرجگہ یہ جنس بافراط دستیاب ہے۔ پنجابی میں اس کا مترادف لفظ  اگرنستعلیق حضرات کے سامنے دھرایا جائے تو ان کو کراہت کا احساس ہوتا ہے۔

ڈ۔۔۔۔ڈڈّو: یہ خواجے کا گواہ ہوتا ہے۔ البتہ اس گواہی کی نوعیت ذرا پیچیدہ قسم کی ہوتی ہے۔ یہ ڈڈّو زیادہ تر ٹاک شوز میں اپنے اپنے خواجوں کی گواہیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ آج کل جو ڈڈّو سب سے 'ان' ہے، اس کا خواجہ، سگ پرست نہیں، بلکہ خلق خدا نے اسے ہی سگ کے مرتبے پر فائز کیا ہوا ہے۔

ذ۔۔۔۔ذلالت: یہ ایک حالت ہوتی ہے۔ جو کمزور پر طاقتور مسلط کرتا ہے اور اس کے لیے رنگ برنگے جواز ڈھونڈنے کا کام دانشوروں پر چھوڑدیتا ہے۔ جو ٹیکنی کلر اصطلاحات، تھری ڈی استدلال اور ڈیجیٹل دانش کو بروئے کار لا کر ان ذلیلوں کو اور ذلیل کرنے اور ذلیل ہی رکھنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

ایک اداس شام

پَتّوکِی کے لاری اڈّے سے باہر نکلتے ہی اداسی نے مجھے گھیر لیا۔ شام کے جھٹپٹے میں قریبی چھپّر ہوٹل سے سموسوں کے حیوانی چربی میں تلے جانے کی خوشبو، بسوں کے ڈیزل کی مہک، سڑک سے مٹی کی ٹرالی گزرنے کے بعد اڑنے والے غبار، تانگوں اور کھوتا ریڑھیوں کے 'انجنوں' کے خشک فضلے کے فضا میں تیرتے ذرات نے مل جل ایک طلسمی اور پرفسوں ماحول تخلیق کیاہوا تھا۔ میں مبہوت سا ہو کر رہ گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے دل میں میٹھا میٹھا درد جاگ اٹھا ہو۔ حاجی ثناءاللہ نے میرے کندھے پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا تو جیسے میں ہوش میں آگیا۔ اور مجھے یاد آیا کہ یہ درد دل نہیں بلکہ دمے کا پرانا مریض ہونے کی وجہ سے سانس بند ہورہا ہے۔۔۔!

حاجی ثناءاللہ، انجمن قومی تاجران (رجسٹرڈ) پَتّوکِی، کے تاحیات صدر ہیں۔ یہ پَتّوکِی کے روح رواں ہیں، کیونکہ پَتّوکِی کے تینوں پٹرول پمپ ان کی ملکیت ہیں۔ یہ جب چاہیں پَتّوکِی کو بے جان کردیتے ہیں۔ اس کی روح کھینچ لیتے ہیں۔ یہ میرے مدّاح ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری تحاریر نے ان کی زندگی میں مشعل راہ کا کام کیا ہے۔ یہ معمولی چوری چکاری کرتے تھے۔ پھر انہوں نے میری تحاریر کا مطالعہ شروع کردیا۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا دھارا ہی بدل گیااور انہوں نے معمولی چوری چکاری کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا اور اب یہ اس عظیم شہر کے قابل فخر سپوت ہیں۔

میں جب تھک جاتا ہوں۔ اپنے معمولات زندگی سے اکتا جاتا ہوں۔ میرا ذہن بنجر ہوجاتا ہے تو میں اپنے جسم اور ذہن کو ڈھیلا چھوڑدیتا ہوں۔ اور جو دس پندرہ دعوت نامے بمعہ ٹکٹ موصول ہوئے ہوتے ہیں ان پر ایک سے دس تک گنتا ہوں۔ جس دعوت نامے پر دس آجائے میں اسی شہر چھٹی گزارنے چلا جاتا ہوں۔ اس دفعہ پَتّوکِی، کی باری آگئی۔ حاجی ثناءاللہ، بہت برسوں سے اصرار کررہے تھے کہ میں ان کو شرف میزبانی بخشوں۔ انہوں نے میرے اعزاز میں ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا۔ مجھے اس تقریب کی صدارت کرنی تھی۔

لاری اڈّے سے میں اور حاجی صاحب ہونڈا سیونٹی پر ان کے گھر روانہ ہوئے جہاں میری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ حاجی صاحب سیونٹی ایسے چلارہے تھے جیسے سلطان گولڈن کے استاد ہوں۔ میرا سانس خشک ہونے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا (یاشاید سٹریٹ لائٹس بند تھیں)۔ اچانک موٹر سائیکل ایک جھٹکے سے رک گئی۔ میں نے چونک کر دیکھا تو ہم گول گپوں کی ریڑھی کے پاس کھڑے تھے۔ حاجی صاحب نے پَتّوکِی کے مشہور عالم گول گپوں سے میری تواضع کی۔ پَتّوکِی آکر گول گپے نہ کھانا ایسا ہی ہے جیسے دبئی جاکر بھی بندہ۔۔۔۔۔ چلو مٹی پاؤ۔۔۔

رات کے پھیلتے اندھیرے، نیم تاریک بازار، بھونکتے ہوئے آوارہ کتّوں، سڑک کے دونوں اطراف کھلی نالیوں سے آنے والی مہک اور ریڑھی کے پاس کھڑے ہو کرگول گپے کھانے کا ایسا لطف آیاکہ میری ساری ناسٹیلجک فیلنگز بیدار ہوگئیں۔ مجھے لالہ موسی یاد آگیا جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ جہاں میں اپنے دوستوں کے ساتھ دو گول گپے کھا کر کھٹّے کے چار پیالے مفت پی جاتا تھا۔ اور دو دو مہینے کھانسی اور اباجی کا جوتا میرا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ میں اداس ہوگیا۔ اداسی کی وجہ ناسٹیلجیا یا بچپن کی یادیں نہیں تھیں بلکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ حاجی صاحب، شیخ ہیں لہذاڈنر پر بھی مونگ کی دال ہی ہوگی۔۔۔!

گول گپوں کے بعد مونگ کی دال کے ڈنر کا خیال کسی بھی شریف انسان بلکہ لکھاری کو بھی اداس بلکہ مرنے کی حد تک رنجیدہ کرسکتا ہے۔

نقاب اور آفتاب

یہ کوئی دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے، اب ”خبرناک“ اور اس سے پہلے ”حسب حال“ کے میزبان آفتاب اقبال نوائے وقت میں حسب حال ہی کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ میں بھی اس کالم کے متاثرین میں شامل تھا اور اکثر صاحب کو بذریعہ برقی خط کالم بارے اپنے تاثرات پہنچایا کرتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے میرے پیغام کا جواب دینے میں تاخیر کی ہو۔ میں نے ان کے کالم کے مشہور اور مستقل کردار ”عزیزی“ کے بارے بھی دریافت کیا تھا کہ کیا واقعی یہ حقیقی کردار ہے یا گھڑا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ عزیزی واقعی موجود ہے اور ان کا بہت اچھا جاننے والا ہے، نام بتانے پر البتہ وہ راضی نہیں ہوئے تھے۔

اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان پیغامات اور تبادلہ خیالات میں سے بہت سے نکات کو انہوں نے اپنے کالمز کا حصہ بنایا، میری کچھ 'تراکیب' جو میں نے ان پیغامات میں استعمال کی تھیں، وہ بھی انہوں نے استعمال کیں۔ بلکہ ایک دو کالم تو خالصتا میری فرمائش پر بھی لکھے۔

وہ تو ایک دن انہوں نے ٹی وی کی حالت زار پر ایک کالم لکھتے ہوئے اپنے بنائے ہوئے ڈرامے ”نقاب“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹی وی کی تاریخ میں یہ ڈرامہ ٹرینڈ سیٹر تھا۔ اس سے پہلے کوئی تھرلر پاکستان میں نہیں بنایا گیا۔ اس پر میں نے انہیں لکھا کہ جناب! جان دیو۔۔۔ اگر نقاب تھرلر ہے تو مولا جٹ تو پھر ٹرمینیٹر سے بڑی ایکشن فلم ہے۔ بس اسی بات پر صاحب غصہ کھاگئے اور مجھے اس انداز کا پیغام بھیجا جیسے آج کل وہ بے چارے سٹیج کے مسکین فنکاروں کو "دبکے" مارتے ہیں!۔۔۔

انہوں نے لکھا تھا کہ " پاکستان میں پہلی دفعہ ڈرامے میں باڈی بلاسٹ تیکنیک استعمال کی گئی تھی اور یہ پاکستان کا پہلا تھرلر تھا اب یہ مت پوچھنا کہ تھرلر کیا ہوتا ہے"۔۔۔۔۔

یہ پیغام پڑھنے کے بعد میں نے خودسے ایک سوال کیاتھا (جناب بدتمیزوالا سوال نہیں، حالانکہ اصولی طور پر وہی سوال پوچھنا بنتا تھا) اور ایک طعنہ دیا تھا۔ سوال تیکنیک کے متعلق تھا، جو یہاں دہرانے کے لائق نہیں اور طعنہ تھا ۔۔۔

ہور چوپو۔۔۔۔

الف امریکہ، ب بھیڑیا

اردو کے ابتدائی قاعدے (القاعدے نہیں) جو ہم نے اپنے اپنے بچپنوں میں پڑھے تھے، ازکار رفتہ ہوگئے ہیں اور فی زمانہ، زمینی حقیقتوں سے بالکل متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر الف انار، ب بکری، پ پنکھا، ت تختی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اردو میں تعلیم حاصل کرنے والے اطفال تو اب انار کے نام سے بھی واقف نہیں، کھانا تو دور کی بات ہے۔ یہی حال بکری اور اس کے گوشت کا ہے۔ بھلا ہو شیر کا اور اس محاورے کا جس میں یہ دونوں ایک ہی گھاٹ پر مبینہ طور پانی پیتے ہیں، کیونکہ اگر یہ محاورہ نہ ہوتا بکری کا ذکر بھی معدوم ہوچکاہوتا۔ پنکھا بھی معدوم ہونے کی سرحد پر ہی کھڑا ہے۔ جن کو بجلی میسر ہے وہ اس کی ضرورت سے بے نیاز ہیں کیونکہ وہ پنکھے کے برادر نسبتی ائیر کنڈیشنر سے تعلقات گانٹھ چکے ہیں اور ہما شما کو تو یہ نعمت موسوم بہ بجلی میسر ہی نہیں۔ اس لئے وہ پنکھے کی حاجت سے بھی بے نیاز ہیں۔ تختی بھی آثار قدیمہ میں شمار ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں تختی والے سکول”کھوتی سکول“ کہلاتے تھے۔ سرکار نے یہ تفریق ختم کرکے اب سارے سکول ”کھوتے سکول“ کردیئے ہیں! جبکہ ہمارے ایک دوست عرصہ تک مُصر رہے کہ تختی، تختے کی بیوی ہوتی ہے، وہی تختہ جو الٹایا جاتا ہے! واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
قصہ مختصریہ کہ ہم نے اردو کا ایک وچکارلا قاعدہ بنایا ہے۔ جو بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ روشن خیال اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید روشن خیال بنائے گا۔ آئیے ابتدا کرتے ہیں۔
الف ۔۔۔۔۔۔ امریکہ : اصولی طور پر تو آجکل ہر حرف تہجی سے امریکہ ہی بننا چاہیے کیونکہ جتنی انسان دوستی، علم سے محبت، اعلی ترین اخلاقی و آفاقی اقدار، رواداری، مذہبی یگانگت، عدل و انصاف، امن پسندی، رحمدلی، سچ سے لگاو اور جھوٹ سے نفرت اس عظیم الشان ملک کی ہیئت مقتدرہ میں پائی جاتی ہے، انسانی تاریخ اس کی مثال کسی ایک دور میں پیش کرنے سے معذور ہے!
ب ۔۔۔۔ بھیڑیا: یہ ایک جانور ہوتا ہے۔ خونخوار۔۔۔ وحشی۔۔۔۔ میمنے اور اس کی کہانی بڑی مشہور ہے۔ یہ اتنی عمدہ کہانی ہے کہ تاریخ کے ہردور میں اس کی ڈرامائی بلکہ حقیقیاتی تشکیل کی جاتی ہے۔ بھیڑیے اور میمنے کا کردار ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ آخری مشہور میمنے اور بھیڑیے کی مڈبھیڑ ۲۰۰۲ میں ہوئی تھی۔ آٹھ سال بعد اب بھیڑیا شور مچا رہا ہے کہ میمنا اسے پھاڑ کھائےگا! ہور چوپو۔۔۔
(ب سے ایک اور مشہور جانور بھی ہوتا ہے۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے!)
پ ۔۔۔۔۔ پیٹ: ہر جاندار کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ اسے بھرنا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اکثریت تو اسے روکھی سوکھی سے بھرتی ہے، جبکہ کئیوں کے پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ بھر جائے تومستی چڑھتی ہے جسے ”رج کھان دی مستی“ کہتے ہیں اور اسی کے زیر اثر بھیڑیا، میمنا اور میمنا، بھیڑیا نظر آنے لگتا ہے۔
ت۔۔۔۔۔۔ترقی: یہ بڑی اچھی چیز ہوتی ہے۔ اس سے دنیا کی آبادی قابو رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ جب انسان غیر ترقی یافتہ تھا تو لڑائی میں سینکڑوں لوگ مرتے تھے۔ ترقی کرنےکے بعد اب وہ لاکھوں، کروڑوں انسان ماردیتا ہے اور اسے کولیٹرل ڈیمیج کا دانشورانہ اور فلسفیانہ نام دیتا ہے!
ٹ ۔۔۔۔۔ ٹی سی: بچّو! اس کے بارے آپ بڑے ہو کر خود ہی جان جائیں گے کیونکہ یا تو آپ کو یہ کرنا پڑے گی یا کوئی آپ کی کرے گا۔ دعا ہے کہ آپ دوسرے آپشن سے ہی دوچار ہوں۔۔۔
ث۔۔۔۔۔ثانیہ: یہ پاکستانیوں کی مشہور زمانہ بھابھی (ہائے۔۔۔ کس دل سے یہ لفظ لکھا ہے۔۔۔ میرا دل ہی جانتا ہے) اور کچھ کم مشہور زمانہ ٹینس کی کھلاڑی ہے۔ اس کے متعلق جتنا کم لکھوں اتنا ہی اچھا ہے ۔۔۔۔ آہو۔۔۔
ج۔۔۔۔جعفر: خود دیکھ لیں کہ ثانیہ کا صحیح جوڑ کس کے ساتھ بنتا تھا؟

انقلاب زندہ باد

گنبد جیسے پیٹ، چربی میں غائب گردن، پھولی ہوئی گالوں اور ڈکراتی ہوئی آواز سے انقلاب آنے لگتے تو ساری دنیا میں ایسے انقلاب آتے جیسے برسات کے موسم میں پتنگے آتےہیں۔ عوام سے مطالبہ یہ ہے کہ تم انقلاب لے آؤ، پھر میں واپس آکر تمہاری قیادت کروں گا۔ ہشکے بئی ہشکے۔۔۔ ایڈا تو چی گویرے دا برادر نسبتی۔۔۔ کھیر پکائی جتن سے، چرخا دیا جلا، آیا کتا کھاگیا تو بیٹھی ڈھول بجا۔۔۔ جاگیرداروں کو پھانسیاں دینی ہیں لبرٹی چوک میں۔ اور جاگیردار وہ ہوں گے جو پانچ پانچ مرلے کی جاگیروں کے مالک ہوں گے اور بھتًہ دینے سےانکاری ہوں گے۔ جن کے ساتھ جنموں کا ساتھ ہے وہ تو بے چارے چھوٹے موٹے کسان ہیں۔ جن کی صرف دو دوچار چار لاکھ ایکڑ زمینیں ہیں۔ ان بے چاروں کی تو پہلے ہی دال روٹی نہیں چلتی تو ان کو کیوں تنگ کریں ؟

ماوزے تنگ، لینن، کاسترو، چی گویرا اور اگر نیک پاک لوگ معاف کرسکیں تو ملا عمر جیسے لوگ انقلابی ہوتےہیں۔ جن کو اپنے نظریے پر ایمان کی حد تک یقین ہوتا ہے اوروہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں اور سب سے آگے رہ کے قائد ہونے کا حق ادا کرتےہیں۔ انگریزکوئی کھوتے دے پتًر نہیں ہیں کہ انہوں نے لیڈنگ فرام دی فرنٹ کا محاورہ بنایا ہوا ہے۔ جبکہ سننے میں یہ آتاہے کہ تازہ انقلابی ”فرنٹ“ سے لیڈ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

یہ سارے بھی اوورسیز انقلابی ہوتے تو لینن برازیل میں بیٹھ کے انقلاب کی قیادت کرتے، چی گویرا جزیرہ ہوائی سے انقلاب کی کمان کرتے، کاسترو موزمبیق سے ٹیلیفونی انقلاب کا بھاشن دیتے، ماوزے تنگ اہرام مصر کو انقلابی کمان کا ہیڈکوارٹر بنا کر گراں خواب چینیوں کو انقلاب کی میٹھی لوریاں سناتے۔ ان سارے انقلابیوں کی ایسی کی تیسی، پاگل خانے۔۔۔ اپنا بھی بیڑا غرق کیااور اپنی قوم کا بھی۔ اور ان کی قوموں کی بھی ایسی کی تیسی کہ اپنے جان سے پیارے انقلابی لیڈروں کو آگے لگائے رکھا اور ان کی جان کی ذرا پروا نہیں کی۔ لیڈر کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے، ناکتخدا کی عصمت کی طرح۔۔۔ اس کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھے تو اس کو خطرہ ہوجاتا ہے۔۔۔ ہیں جی۔۔۔

ضروری نوٹ: یہ”بیستی“ نہیں، ”بیستی جیسا اقدام“ہے۔

 

اشرف سٹیل مارٹ

اس دنیا میں سب سے بڑی ہیکڑی علم کی ہیکڑی ہے۔ صاحبِ علم فرد اور صاحبِ علم گروہ بے علم لوگوں کو صرف حیوان ہی نہیں سمجھتا، بلکہ ہر وقت انہیں اپنے علم کے ”بھؤو “ سے ڈراتا بھی رہتا ہے۔ وہ اپنے علم کے تکبّر کا باز اپنی مضبوط کلائی پربٹھا کے دن بھر بھرے بازار میں گھومتا ہے اور ہر ایک کو دھڑکا کے اور ڈرا کے رکھتا ہے۔ اس ظالم سفّاک اور بے درد کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس کے پھل دار علمی احاطے سے ایک بیر بھی توڑنا چاہے تو یہ اس پر اپنی نخوت کے کتّے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ اپنے بردوں کو اچھّا غلام بننے کا علم تو عطا کرسکتا ہے۔ لیکن انہیں باعزّت زندگی گزارنے کے رموز سے آگاہ نہیں ہونے دیتا۔ زمانہ گزرتا رہتا ہے اور اپنے اپنے دور کا ہر ذی علم برہمن، اپنے دور کے شودر کے کان پگھلتے ہوئے سیسے سے بھرتا چلا جارہا ہے۔

=====================================================================

علم کی ہیکڑی بڑی ظالم ہیکڑی ہے۔ یہ علم کے پردے میں بے علم اور معصوم روحوں پر بڑےخوفناک حملے کرتی ہے۔ علم اور جان کاری کا حصول اپنے قریبی لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور ان کے شبے میں اضافہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ایک جان کار ایک ان جان سے صرف اس لیے ارفع، اعلا اور سپیرئیر ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے۔ اس نے واقفیت، معلومات، خبر، گُن اور ابلاغ کے بہت سے کالے اپنی دانش کے پٹارے میں ایک ساتھ جمع کررکھےہوتے ہیں۔ وہ جس بستی، جس آبادی اور جس نگری میں بھی جاتا ہے، اپنے پٹارے کھولے بغیر وہاں کے لوگوں کو سیس نوانے اور دو زانو ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ ڈاکٹر، وکیل، ملاّ، پریچر، سیاست دان، معلّم، مقرر، کالم نگار، مندوب، اپنے نالج اور اپنی جان کاری کے پگھلے ہوئے سیسے کو نہ جاننے والے لوگوں کے کانوں میں ڈال کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گنگ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماؤف کردیتا ہے۔ علم والا یہ نہیں چاہتا کہ اس کے علم کا کوڑیالا کسی اور کے پاس جائے اور اس کی پٹاری خالی کرجائے۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کے علم کا کالا ہر بے علم کو ڈس کر واپس اس کے پاس پہنچے، تاکہ وہ اگلے  آپریشن کی تیاری کرسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ علم والا بے علم کوسوائے شرمندگی، بے چارگی، کم تری اور لجاجت کے اور کچھ نہیں دے سکتا۔ اور کسی شرمندہ، بے چارے، کم تر اور ہیٹے شخص کو درماندگی کے سوا اور دیا بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن لوگوں کے درد کا درماں کرنے کےلیے انہیں علم کی بجائے اس یقین، اعتماد اور اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے جو اُمّی پیغمبر پریشان اور خوارو زبوں لوگوں کے کندھے پر ہاتھ دھر کر عطا کرتے رہے ہیں۔

======================================================================

علم کی ہیکڑی بھی عجیب ہیکڑی ہے۔ شہسوار کے پاس گھوڑا بھگانے کا علم ہوتا ہے تو وہ اسے چابک بنا کر استعمال کرتا ہے۔ مہاوت اپنا علم آنکس کی زبان میں ادا کرتا ہے۔ دانش ور، عالم، مفکر، گیانی، دوان اپنے علم کی تکّل جھپ کھلا کر لوگوں کے باطن میں اترتا ہے اور ان کی بے پردگی کا نظارہ کرکے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ علم والا آپ کو کچھ دیتا نہیں، آپ کی ذلتّوں کا معائنہ کرکے آپ کو سندِ خفّت عطاکرجاتا ہے۔ آپ اس کے علم سے حصہ نہیں بٹا سکتے جو اصلی ہے، جو اس کا ہے، جو نافع ہے۔ البتہ وہ علم جو پرانی گرگابی کی طرح ڈھیلا اور لکرچلا ہوجاتا ہے، اسے ضرور پس ماندہ گروہوں کو عطا کردیا جاتا ہے۔ جیسے پرانے لیر ے بڑی محبت سے خاندانی نوکر کو دے دیئے جاتے ہیں۔ ہاں بس ایک اُمّی ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ بلا امتیاز سبھوں کو دے دیتے ہیں اور اس کی کوئی قیمت طلب نہیں کرتے۔ وہ اپنا سارا وجود، پورے کا پورا وجود لوگوں کو عطا کردیتے ہیں اور ان کے باغ وجود سے علم نافع کی نہریں ابد تک رواں دواں رہتی ہیں۔ لیکن ہمارے علم کی نخوت بڑی ڈاہڈی نخوت ہے۔ یہ رعونت تو انسان کو انسان نہیں سمجھتی، البتہ اس کے ڈے ضرور مناتی رہتی ہے۔

اشفاق احمد کی کہانی “اشرف سٹیل مارٹ” سے اقتباسات

آئیے!

بہت سے کام مجھے بہت مشکل لگتےہيں اور ان ميں سرفہرست پُرسہ دينا يا تعزيت کرنا ہے۔ ميں آج تک سمجھ نہيں پايا کہ آپ کسي ماں کو کيسے کہہ سکتے ہيں کہ وہ اپنے بيٹے کے مرنے پر صبر کرلے؟ کسي غمزدہ باپ کے سامنے 'اللہ کي مرضي' کا رٹا ہوا فقرہ کيسے دھرا سکتےہيں؟ سچ کہوں تو ميں ميّت والے گھر جانے سے گريز کرتا ہوں۔ دلاسہ دينا يا تعزيت کرنا تو دور کي بات ہے، ميري اپني حالت غير ہوجاتي ہے۔ مجھے سمجھ نہيں آتا کہ ميں کيا کہوں اور کيسے کہوں؟

خلاف عادت يہ ساري تمہيد ميں نے اس لئے باندھي ہے کہ ميں بہت دن سے سوچ رہا تھا کہ اس آفت کے بارے لکھوں جس نے ہميں پاني کي شکل ميں گھير ليا ہے۔ ليکن سمجھ ميں نہيں آتا تھا کہ کہ کيا لکھوں، اس ماں کو کيسے پرسہ دوں کہ جس کے بچے پاني ميں بہہ گئے۔۔۔ ان سفيد پوشوں کے دکھ کو کيسے بانٹوں جو ايک وقت کے کھانے کے لئے گھنٹوں قطاروں ميں لگے رہنے پر مجبور ہيں۔ ان بے کسوں کو کيسے سمجھاوں کہ روٹي نہيں ملتي تو لاٹھي چارج سے گزارا کرو اور ان لوگوں کے کہے کو حق جانو جو جگہ جگہ گھوم پھر کر تمہاري مدد کرنے کي بجائے تمہيں يقين دلا رہے ہيں کہ يہ سب تمہارے اعمال کا نتيجہ ہے!

ميں اپنے دوستوں سے صرف يہ کہنا چاہتاہوں کہ آئيے اور اٹھيے اور جس کي جو استطاعت ہے، اس کے مطابق اپنے ان آفت زدہ بھائيوں اور بہنوں کي مدد کے لئے نکليے۔ ان لوگوں کے کہے پر بالکل کان نہ دھرئيے جو يہ راگ الاپ رہے ہيں کہ ہماري امداد مستحقين تک نہيں پہنچے گي۔ مجھے يقين ہے کہ سب دوستوں کو کسي نہ کسي پر اعتبار ضرور ہوگا بحيثيت قوم ہم ابھي اتنے بے اعتبارے نہيں ہوئے! اٹھيے اور اپني امداد اپنے اعتبارکي تنظيم يا فرد کے حوالے کيجيے۔ اور پھر آکے اللہ کے سامنے اس مشکل کو آسان کرنے کي دعا کيجيے اور استغفار کيجيے۔

عمل کے بغير کوئي توبہ قبول نہيں ہوتي!

اردو کی 'وِچکارلی' کتاب - دیباچہ

غالباً اسمعیل میرٹھی نے 'اردو کی پہلی کتاب' لکھی تھی اور استاد الاساتذہ ابن انشاء نے 'اردو کی آخری کتاب'۔ اگرچہ ان حضرات نے اپنے تئیں سارے دریا، جھیلیں، ندیاں، ڈیم، بحور وغیرہ کوزے میں بند کردیئے تھے لیکن اہل نظر (یعنی ہم) جانتے تھے کہ اس ضمن میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ ہم نے بہت وقت اس انتظار میں گزارا کہ شاید کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے لیکن صد افسوس کہ کوئی مائی کا لال یا ابّا کی بنّو (محاورات میں دورجدید کے تقاضوں کے مطابق ترامیم بھی زیر نظر کتاب میں شامل ہوں گی) اس بھاری پتھّر کو نہ اٹھا سکے, بنا بریں ہمیں خود ہی ہمّت کرنی پڑی اور لنگر لنگوٹ وغیرہ کسنا پڑا۔ اگرچہ ہمارے لئے یہ کام کوئی ایسا کٹھن نہیں تھا لیکن ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ عصر حاضر میں شاید ایسا جواں مرد یا زنِ ذہین ہو جو ہمارا ہم عصر کہلانے کے لائق ہو، لیکن ۔۔۔ اے بسا آرزو کہ خاک شد۔۔۔ ہیں جی۔۔۔

ہم گاہے بہ گاہے یعنی کَدَی کَدَی (وہی 'مَوکَا ملے کَدَی کَدَی' والا) اس کتاب کے لئے مضامین اسی بلاگ پر تحریر کریں گے۔ جن کو بعد میں کتابی شکل میں چھاپا جائے گا(بشرطیکہ ہمیں ہی کسی چھاپے وغیرہ میں نہ اٹھا لیا جائے)۔ چونکہ ہم درویشی/ فقیری قسم کی طبیعت رکھتے ہیں اس لئے اس کتاب کی رائلٹی وغیرہ سے ہم اللہ کی شان دیکھنے بلاد یورپ و امریکہ وغیرہم جائیں گے جہاں سیر و سیاحت اور فاسق و فاجر فرنگنوں کو دیکھ کر حصولِ عبرت برائے آخرت، جیسے نیک مقاصد پورے کئے جائیں گے۔ ہم اس بات پر بھی عمیق و دقیق غور کررہے ہیں کہ ان اسفار بارے تین چار چَوندے چَوندے سفرنامے بھی پھڑکائیں جن کے ہر تیسرے صفحے پر 'وَن سَوَنِّی' فاسق و فاجر فرنگی دوشیزائیں ہم پر موسلادھار طریقے سے عاشق ہوں جیسے اپنے چاچا جی پر ہوا کرتی تھیں اور بخدا کارٹون والے معصوم سے چاچا جی کے سفرنامے جب ہم نے ذرا بڑے ہونےپر پڑھے تو ہمیں چاچا جی کے میسنے پن پر بیک وقت غصّہ اور پیار آیا۔ اس بیک وقت غصے اور پیار کی وجوہات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں، اسے کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں!

اس کتاب کے فلیپ پر اپنی آراء چھپوانے کے لئے دنیا کے بہت سے عظیم ادباء، شعراء و مصنفین نے ہم سے رابطہ کیا جن میں گاما بی اے، فیجا لُدّھڑ ، طافو طمنچہ، شادا پوٹھوہاری، ماجھو ٹھاہ، ببّن کراچوی، ناجا لاہوری، چاچا چُوئی، مائیکل ٹُن، جارج گھسیٹا وغیرہم شامل تھے، لیکن چونکہ ہم ایسی سستی تشہیر پر یقین نہیں رکھتے اس لئے ہم نے ان سب عظیم ہستیوں سے معذرت کرلی۔ اب سب کو دو دو ہزار اور کتاب کے پچاس مفت نسخے کون دیتا پھرے! ویسے بھی ادب عالیہ کے عظیم نثرپاروں کو کسی ریویو وغیرہ کی محتاجی نہیں ہوتی کیونکہ جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے اور ۔۔آہو۔۔۔

کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ فوکویاما بھائی جان کا وہ نظریہ ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ لہذا اصولی طور پر اب تاریخ کو پیچھے کا سفر کرنا چاہیے تو آخری کتاب سے پیچھے جاتے ہوئے پہلے 'وچکارلی' کتاب ہی آنی چاہیے، اسی لئے ہم نے اس نام کو موزوں جانا۔ ویسےبھی چاچو شیکسپئیر نے فرمایا تھا کہ نام میں کیا رکھاہے اور گلاب (اس نکتے پر ذرا غور کریں کہ چاچو کو کیسے پتہ تھا کہ میں نے اپنا گریویٹار گلاب رکھنا ہے۔۔۔!!!! یہاں آپ (اپنے) منہ سے ۔۔ ڈھن ڈھنااااان۔۔۔ کا میوزک بھی بجا سکتے ہیں ) کو جس نام سے بھی پکاریں وہ گلاب ہی رہتا ہے۔ لہذا اگر اس کتاب کا نام 'ٹریکٹر کو 'پَینچر' کیسے لگاتے ہیں؟' یا 'برسات کے موسم میں ملیریا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اور روح افزا کے فائدے' بھی ہوتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔

آخر میں ہم اپنا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنے نہایت قیمتی وقت کو خرچ کرکے آپ جیسے کم پڑھے لکھے، سطحی سوچ کے حامل اور عقل کے پورے لوگوں کے لئے اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ کیا! جئے ہم۔۔۔۔

دُر شاباش!

سيلاب شيلاب تو آتے ہي رہتے ہيں۔ اہم بات يہ ہے کہ اپنے موقف سے انحراف کرنا، باپ بدلنے کے مترادف ہوتا ہے، کم ازکم حاجي صاحب نے تو يہي ثابت کيا ہے! اسي بات پر حاجي صاحب کے لئے دُر شاباش!

شاہي سيّد نے فرمايا ہے کہ يہ اردو بولنے والے 'بھيّا لوگ' پناہ گزين ہيں! جيسے ان کے اور ہمارے محترم باچا خان، وفات پانے کے بعد بھي جلال آباد ميں پناہ گزين ہيں۔ شاہي سيّد کے لئے بھي ايک عدد دُر شاباش!

آپ کے اور ہمارے، ہم سب کے پيارے، الطاف انکل نے ايم پي اے رضا حيدر کے قتل پر، پرامن يوم سوگ کي اپيل کي تھي۔ ان کے پيروکاروں نے بھرپور طريقے سے اس اپيل پر عمل کيا! اس ڈسپلن اور تنظيم اور يقين محکم پيدا کرنے پر الطاف انکل کے لئے دُر شاباش! (يہ الطاف انکل کي پندرہ کروڑويں دُر شاباش ہے)

شہباز شريف عرف خادم اعلي عرف عائشہ ہني کے ڈارلنگ عرف بيٹھي ہوئي آواز نے کہا ہے کہ سيلاب زدگان کي مدد کے لئے ناجائز دولت لوٹنے والوں سے پيسہ اگلوانا چاہيے۔ ان سے پوچھنا صرف اتنا ہے کہ يہ کام مياں شريف مرحوم کريں گے۔؟ اس کے ساتھ ہي انہوں نے تين ہزار سات سو ترپن ويں دفعہ خوني انقلاب آنے سے آگاہ کيا۔ يہ انقلاب، شايد اس سيلاب کے بعد آہي جائے کہ خدا کے گھر دير ہے، اندھير نہيں! خادم اعلي کے لئے بھي ايک عدد تازہ تازہ دُر شاباش!

صدرپاکستان اينڈ کو، کو کسي دُر شاباش کي ضرورت نہيں!

سمجھ تو آپ گئے ہوں گے!

ایک دن 'اوئے' کے ساتھ

(احمقانہ پس پردہ موسیقی)۔۔۔روحیل کھڑپینچ کی آواز, پس پردہ موسیقی پر اوور لیپ کرتی ہے۔۔۔''آج ہام آپ کی ملاقات جس شخصیت سے کرووائیں گےےےے، وہ ہار فن مولا ہیںںںں۔ ڈاکٹر صابر ایوان کا نام کون نئیں جانتااااا۔(احمقانہ موسیقی اوورلیپ کرتی ہے) نامور ماہر قنون ہیںںںں۔ ججوں کے ساتھ ڈریکٹ کنکشن راکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں ماشہور اے کہ نسواری کو بھی بری کرووالیتے ہیںںںں۔ (موسیقی اوور لیپ)۔ آپ نے یونی وسٹی آف کوکوبانگو سے اخلاقیات میں پی ایچ ڈی کی ی ی اور فوجداری مقدموں میں بڑا نام پیدا کیاااا۔آیئے ان سے ملتے ہیںںںں۔''

ڈرائنگ روم میں صابر ایوان اور روحیل کھڑپینچ آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ کھڑپینچ کی آواز اوور لیپ کرتی ہے۔۔۔۔'' پیلے ہم نے آنڈوں پرونٹھوں کا ناشتہ کیااااا۔۔۔ پھر ہم نے دودھ پتّی کے دو دو مگّے پیےےےے۔۔۔ اس کے بعد لسّی کا ڈُوھڑ (ڈیڑھ) گلاس پیااااا۔۔۔ پھر ہمیں نیند آگئی ی ی (خرّاٹوں کی آواز اوور لیپ) اور ہم بارہ بجے اٹھے۔۔۔احمقانہ موسیقی۔۔۔ پھر صابر ایوان سے گپ شپ شروع ہوئی ی ی ''۔۔۔

آپ پر اَلزام لگایا جاتا اے کہ آپ نے وزیر اعظم زلفی کی پھانسی پر مٹھیائیاں بانٹیں تھیںںںں، آپ اس پر کیا کہتے ہیںںںں؟

جی نہیں۔۔۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اصل ماجرا یوں ہے کہ جناب زلفی شہید، کی شہادت کے دوسرے دن میں نے ان کی غائبانہ رسم قل کا اہتمام کیا تھا، کیونکہ اس دن بوجہ چھٹی، سبزی منڈی بند تھی، لہذا پھلوں کا بندوبست نہ ہوسکا،بنابریں ختم قل شریف کے بعد حاضرین محفل میں گلاب جامنیں اور برفی وغیرہ بانٹی گئی تھی، اتنی سی بات تھی جس کا حاسدین نے بتنگڑ بنا دیاہے۔۔۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جناب نسواری کے مخالفین یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مخلص ساتھیوں کی کردار کشی کرکے ان کو پارٹی سے نکالا جائے اور جناب نسواری کی ساکھ مجروح کی جائے، لیکن میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ ایسا صرف میری نعش پر سے گزر کر ہی ہو سکتا ہے۔ (وفور جذبات سے صابر ایوان کی داڑھی میں موجود سفید دھاری پھڑکنے لگتی ہے)

یہ بتائیں کہ ایک طرف تو آپ بی ٹی وی پر اسلامی لییکچر دیتے ہیںںںں، دوسری طرف جناب ناصف ولی نسواری کے وکیل بھی رہے ہیںںںں (آنکھیں میچ کر، ناک سکوڑ کر اور ہونٹوں کو گول کرکے) کیا یہ کھُولا تاضاد نئیں اے؟

مجھے آپ کے اس سوال سے تعصب، عناد، تنگ نظری اور انتہاپسندی کی بو آتی ہے، سو آئی آبجیکٹ اینڈ ریفیوز ٹو آنسر اٹ۔۔۔

روحیل کھڑپینچ کی آواز اوور لیپ کرتی ہے۔۔۔۔ صابر ایوان گسّے میں آگئےےےےے۔۔۔ انہوں نے لنچ کے لئے میری فرمیش پر کریلے گوشت پکوائے تھےےےے ۔۔۔لیکن انہوں نے کریلے گوشت کی ہوا بھی نہیں لگوائی ی ی ی۔۔۔۔  اور مُجے آلو اور کدّو کی بھجیا کھانے پر مجبور کردیاااا۔۔۔ جس پر ہامیں مجبورا پاروگرام مختصر کرنا پڑاااا۔۔۔

اگلے پاروگرام میں ہام آپ کی ملاقات ماشہور اداکارہ صیمہ سے کرائیں گےےےے۔۔۔ اس وقت تک کے لئے اجازت دیجیےےےے ۔۔۔ اللہ حافظ

ہیرو / ہیروئن – ادبی و تحقیقی مقالہ

فی زمانہ ادب کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس میدان میں سنجیدگی کے ساتھ تحقیقی، تنقیدی اور تعمیری کام کیا جائے، ورنہ بے ادبی فروغ پاتی جائےگی جو بنیادی اخلاقیات کے لئے سخت ضرر رساں ہے۔ اسی تناظر میں ہم نے اس میدان میں پاؤں دھرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ، زنانہ ڈائجسٹوں کے ہیرو اور ہیروئن کی بنیادی کرداری خصوصیات، نفسیات، مابعد الطبیعیاتی تحلیل نفسی وغیرہم پر مشتمل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا یہ کارنامہ ادبی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہر عظیم انسان کی طرح ہمیں بھی اپنے منہ میاں مٹھو بننا بالکل پسند نہیں اس لئے ہم اپنی تعریف کو مستقبل کے نقّاد پر چھوڑتے ہوئے مقالے کا آغاز کرتے ہیں۔

ہیروئن: حُور کا دنیاوی ورژن، اتنی حسین کہ روزانہ محلے کے بیس پچیس لڑکے اسے یونیورسٹی/کالج آتا جاتا دیکھ کر وفات پاتے ہوں اور یوں اس کا محلہ، وہ نازی کیمپ لگے جہاں روزانہ درجنوں کے حساب سے یہودی مارے جاتے تھے، اس سے یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ ہیروئن یہودیوں کے محلے میں رہتی ہے۔۔۔سرو قد جبکہ اس کی سہیلیوں میں امرود قد، بیری قد، بانس قد، مالٹا قد وغیرہ شامل ہوں، رنگت جیسے شہد میں دودھ ملا ہو، جھیل (یعنی تربیلا، منگلا، راول، کاغان وغیرہ بلکہ جھیلوں کی کمی کے پیش نظر قدرت نے عطا آباد جھیل بھی بنا دی ہے!) جیسی آنکھیں جن میں صرف ہیرو ہی ڈوبتاہے اس سے پہلے کسی کو توفیق نہیں ہوتی، بال گھٹنوں سے ذرا نیچے اور زیادہ تر شاہ کالے جبکہ کبھی کبھار ہلکے براؤن اور ہیرو اکثر یہ فرمائش کرتا پایا جاتا ہو کہ اسے ان زلفوں کی چھاؤں میں زندگی بسر کرنے دی جائے، ناک ستواں نہ کہ پھینی، موتیوں جیسے دانت، گھنی پلکیں، ہنستے ہوئے گالوں میں ڈمپل، بولے تو منہ سے پھول جھڑیں جبکہ ہنسے تو موسیقی بجنے لگے (اس سے یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ ہیروئن کا تعلق گانے بجانے والے گھرانے سے ہے!)، جب بھی ہیروئن اور ہیرو سامنے آئیں تو ہوائیں چلنے لگیں، سلوموشن میں دوپٹہ اڑنے لگے، پرندے گانے لگیں (چڑیاں وغیرہ، کوّے نہیں!) اور زوبی ڈُو ہونے لگے، جبکہ ولن کی آمد کی صورت میں سکُوبی ڈو۔۔۔ سگھڑاپے میں پی ایچ ڈی کی حامل، یونیورسٹی / کالج میں بوجہ حسن و اخلاق و ذہانت نہایت ہردلعزیز، آلو بتاؤں سے لے کر زعفرانی قورمے تک اور دال ماش سے ہرن کے کبابوں تک ہر ڈش پر کامل عبور، سلائی کڑہائی میں ید طولی، ہمیشہ فاختئی، کتھئی، کیلوی، سیبی، سنگتری، آمی، آڑوی، بینگنی، بھنڈوی، کدوؤی رنگ کے ملبوسات زیب تن ، ہیرو کو آخری صفحے تک بھائی جان کہنا، اکیلے بیٹھ کر فلسفے میں سوچنا (اس کی مثالیں اگلے کسی مقالے میں بیان کی جائیں گی)، والدین کی اکلوتی اولاد، امیر ہونے کی صورت میں والدین زندہ، جبکہ غریب ہونے کی صورت میں صرف باپ جس نے ماں بن کر پالا۔۔۔ عبادت گذار، محلے میں میلاد شریف کی محافل میں بطور خاص بلوائی جانے والی، نام ایسا اچھوتا کہ پتہ نہ چلے کہ یہ کسی خاتون کا نام ہے یا کسی یونانی دوا، افریقی دریا یا انڈونیشیائی بلا کا۔۔۔ مثلا فارمینہ، جسورہ، زلائنہ وغیرہم۔۔۔

ہیرو: دراز قد (کم از کم چھ فٹ)، کھلتا ہوا گندمی رنگ، مردانہ وجاہت کا کامل نمونہ کہ عمران خان بھی جس کے سامنے پانی بھرے، گہرے بھورے ، ہلکے نیلے یا 'سن وے بلوری اکھ والیا' جیسے رنگ کی آنکھیں، زیادہ تر داڑھی مونچھ منڈا لیکن کبھی کبھی ہلکی مونچھیں، ورزشی جسم، بازوؤں کی پھڑکتی ہوئی مچھلیاں، خوش لباس، ہر کھیل کا ماہر (ہر کھیل کے معاملے میں دماغ زیادہ نہ دوڑائیں، حالات اچھے نہیں چل رہے!)، یونیورسٹی / کالج کا سب سے ذہین طالبعلم، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں سر فہرست، ہیروئن غریب ہو تو دنیا کے سب سے امیر باپ کا بیٹا اور ہیروئن کے امیر ہونے کی صورت میں اس کائنات کا سب سے مفلوک الحال انسان، جس کی بیوہ ماں کپڑے سی کرگھر چلا رہی ہو (لیکن ملبوسات دونوں صورتوں میں یکساں ہی رہیں گے)، بَلا کا خوددار (یہ بَلا بھی پتہ نہیں کون سی بَلا ہوتی ہے، چڑیل،ڈائن، اینا کونڈا، جن، بھوت۔۔ اس پر بھی ایک تحقیقی مقالہ لکھنا پڑے گا!)، دوستوں کا ایک بڑا گروپ جس میں صرف ایک ہی خاص دوست جو ہر مشکل صورتحال کو آسان بنانے کے لئےہمیشہ کمربستہ، شریف ایسا کہ بابرہ شریف کو شرمائے، لڑکیوں میں مغرور کے نام سے مشہور جبکہ حقیقت میں نہایت منکسر المزاج، نام ایسا کہ کم ازکم پڑھنے والے نے زندگی میں پہلی بار سنا ہو (از قسم روحال، صارم، یارق، زلیب وغیرہ)، ہیروئن کے ملنے سے پہلے ہر لڑکی کو بہن سمجھنے والا، بلکہ اگر ہیروئن کزن وغیرہ نکل آئے تو اس کو بھی نکاح نامے پر دستخط کرنےسے پہلے بہن ہی سمجھنے والا، بہادر، روشن خیال، نماز روزے کا پابند۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔

مندربہ بالا خصوصیات پر مشتمل انسان ان ڈائجسٹوں میں ہیرو/ہیروئن کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں یہ ساری خصوصیات تلاش کرنے کے لئے کم ازکم پینتیس سال اور ڈیڑھ کروڑ افراد چاہییں۔۔۔