پیروڈی

اس نے میری طرف دیکھا۔ میز سے میرا رومال اٹھایا اور اپنی ناک صاف کر کے واپس میز پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں میں مجھے شعلے لپکتے نظر آرہے تھے۔ اس نے ایک لمبی سانس لی اور کہا ” کب تک میں اس حالت کو برداشت کروں گا، آخر میرا قصور کیا ہے؟“ میں نے اس کی بات سنی، کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ وہ بدستور میری طرف گھور رہا تھا۔ میں کرسی پر سیدھا ہوا اور ایک قہقہ لگایا۔ اس پر اس نے اٹھ کر میرے منہ پر ایک گھونسہ جمایا۔ اور کہا ” میں بخار اور فلو سے مرا جارہاہوں اور تجھے جاوید چوہدری کی ایکٹنگ سوجھی ہے، سیدھی طرح دوائی دیتا ہے یا کسی اور ڈاکٹر کے پاس جاؤں“۔

بلا تبصرہ

بابے کا یہ ملک تھا سالم
لیکن اب تو ہاف نئیں لبھدا
نہانے پر تو لعنت بھیجو
پِین کو پانی صاف نئیں‌ لبھدا
محافظ خود محفوظ نئیں ہے
جسٹس کو انصاف نئیں‌ لبھدا
صدر کی وردی اتر گئی ہے
سو سو میل تے قاف نئیں لبھدا
(خالد مسعود)

مائے نیں میں‌کنوں‌ آکھاں ۔۔۔

صوفی شاعر نے کہا تھا۔۔
کیہہ حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ ملدا
پچھلے دو دن چھٹیاں‌ تھیں۔ ایک جمعہ کی ہفتہ وار چھٹی اور ایک 12 ربیع الاول کی ۔ یہ دن کیسے گزارے، مت پوچھیے ۔ پردیس میں سب سے مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب کرنے کو کچھ نہ ہو۔ ایسے ہی وقت میں‌ یادیں اپنا پروجیکٹر چالو کرکے آپ کو اس زمانے کی فلمیں‌ دکھانا شروع کر دیتی ہیں جو آپ پردیس میں بھلا دینا چاہتے ہیں
اگرچہ مجھے سات سال ہو چکے ہیں ملک چھوڑے ہوئے ۔۔لیکن ابھی تک میرا یہاں‌ دل نہیں‌ لگا۔ حالانکہ دبی میں دل تو کیا بندے کا ”داء“ بھی لگ جاتا ہے۔ یہاں‌ کسی کو دل کا حال بھی نہیں سنا یا جا سکتا کیونکہ سب کی ایک ہی کہانی ہے اور ایک ہی کہانی کوئی کب تک سنے گا!!
اگر آپ بھی گھر سے اور اپنوں سے دور ہیں تو شاہ حسین کی اس کافی کو سننے سے پرہیز کریں،
مائے نیں میں‌کنوں‌ آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نیں