راجُو


اصل نام تو شاید ریاض تھا یا رزاق ، پر نام میں کیا رکھا ہے کہ گوروں کے علامہ اقبال  فرماگئے ہیں کہ گلاب کو جس نام سے بھی پکارو ، وہ گلاب ہی رہے گا تو راجو کو بھی جس نام سے  پکاریں وہ راجو ہی رہے گا۔ پست قامت، گورا چٹا رنگ، نیلی آنکھیں۔ اتنا سوہنا ارائیں ہم نے اپنی زندگی میں آج تک نہیں دیکھا۔  یہ تو یاد نہیں کہ اس کا نام پہلی دفعہ کب سنا تھالیکن جب سے ہم نے ہوش سنبھالی تو راجو ہمارے علاقے کا ایک ، بقول حسن نثار، لیجنڈری قسم کا کردار تھا۔  پُلس مقابلوں سے کرکٹ کےمیچوں میں بلّوں سے فریق مخالف کی پھینٹی تک ، ایم این اے کو تھپڑوتھپڑی ہونے سے اسی ایم این اے کا باڈی گارڈ بننے تک ، ایسی ایسی داستانیں کہ بس لڑکپن میں یہی خواہش تھی کہ بڑے ہوکے  "راجو" بننا ہے۔
سُودی کے برادر بزرگ ، نام تو جن کا محمود ہے لیکن خاندان میں بھولے اور دوستوں میں مُودے کے نام سے جانے جاتے ہیں، وہ جب تازہ تازہ کالجیٹ ہوئے تو ہم شاید دسویں جماعت میں تھے۔ ان سے ہمیں راجو کی مزید داستانیں سننے کا موقع ملا کہ ان دنوں ان کی دوستی اس سے ہوگئی تھی۔  کہ راجو کے بظاہر اس دنیا میں دو ہی کام اور شوق تھے، پھینٹی کھانا   (اور لگانا بھی)اور کرکٹ کھیلنا۔ کرکٹ بارے  تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ کرکٹ کھیلنی اسے اتنی ہی آتی تھی جتنی میاں صاحب کو سیاست  یا خاں جی کو مردم شناسی۔ بھولے کے ریفرنس سے ہی ایک دن راجو نے  سعید کی ویڈیوگیمز والی دکان میں ہم سے شرف تعارف یہ پوچھ کر حاصل کیا  کہ "تسی مُودے دے پراء او"۔ اب یہ بڑی مزے کی بات ہے کہ  راجو کا اندا ز تخاطب اتنا مہذب اور نستعلیق اور شائستہ اور شگفتہ اور نسرین وغیرہ تھا کہ ہم حیران رہ گئے کہ یہ وہ پھنّے خاں ہے جو پلس مقابلے تک کرتا ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمارے دل میں اس کی جو "عزت" تھی وہ ایک کوڑی کی نہیں رہی کہ ۔۔ لے دس۔۔ یہ ہے راجو۔
وہ  تو رمضان میں رات کو ہونے والے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کے  فائنل نے راجو بارے،  ہمارے وچار دوبارہ انہی عظمتوں تک پہنچائے ، جو پہلے قائم تھیں۔  فائنل پر رواں تبصرے کے لیے راجو بذات خود مائک لے کے ایسی ایسی در فنطنی چھوڑ رہا تھا کہ سوچ ہے آپ کی۔ اپنی  زندگی کے ہر مرحلے پر وہ چونکہ اشتہاری ہی رہا تو کسی نے گلبرگ تھانے فون کھڑکا دیا کہ راجو یہاں بذات خود موجود ہے۔ پولیس کیسے آئی اور کتنی سہولت سے اس کو پیچھے سے آکے دبوچا ، اس کا پتہ اس کو تب چلا جب انہوں نے اسے موبائل میں پٹخا۔ پندرہ منٹ بعد کیا دیکھتے ہیں کہ راجو پھر مائیک سنبھال کے پولیس سمیت مخالفوں کی والدہ اور ہمشیرہ کو واحد کررہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ چلتی موبائل سےکود کے گلیوں میں گھس گیا اور جتنی دیر میں "فُکراٹے" موبائل رکوا کے اس کے پیچھے جاتے وہ انہیں غچّہ دے کے گلیوں میں غائب ہوچکا تھا۔ پولیس والوں کے لیے عوام الناس نے  کافی اصطلاحات وضع کی ہیں، جن میں چھلّڑ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ لیکن راجو کی وضع کردہ فکراٹے کی اصطلاح کا مقابلہ آج تک کوئی نہیں کرسکا۔
بی بی کے دوسرے دور حکومت میں ہر بلدیاتی حلقے میں ایک جیالا کونسلر کی جگہ پر نامز د کیا گیا تھا کیونکہ بلدیاتی الیکشن کرانا ہماری جمہوریت کے ماموں کے وارے میں نہیں ہوتا، ہمارے محلے میں غلام عباس نامی ایک جیالے کو یہ ذمہ داری سونپی گئی  جو شومئی قسمت سے راجو کے  پرانے محلے دار  اور بیلی تھے۔ گلستان روڈ پر ان کا ایک وڈیوسینٹر تھا جس کے وسیع و عریض تھڑے پر ہر  رو ز صبح سویرے،  سینٹری ورکرز کے جھمگٹ میں دربار سجا کے بیٹھتے تھے۔ ایک سہانی صبح  راجو کا گزر جب وہاں سے ہوا تو موٹرسائیکل روک کے وہ غلام عباس سے یوں مخاطب ہوا،  " یار  باسے، ایک فیملی گروپ فوٹو نہ ہوجائے"۔  یہ کہہ کر اس نے موٹر سائیکل کو گئیر لگایا اور اڑنچھو ہوگیا ، غلام عباس کی مقفع و مسجع گالیوں کی آواز  البتہ آدھ گھنٹے تک قرب و جوار کے لوگوں کے کانوں میں مسلسل آتی رہی۔
اسی ویڈیو سینٹر کے عین سامنے ظہیر لائبریری واقع تھی۔ اس لائبریری سے ہمارا تعلق پانچویں سے شروع ہوا جب ہم اشتیاق احمد کے ناول کرایہ پر لینے جاتے تھے اور یہ تعلق اس وقت تک جاری رہا جب تک یہ لائبریری بند نہیں  ہوئی۔ اس کے مالک بھی راجو کے لنگوٹیے یار تھے اور اکثر اس کے  واقعات سنایا کرتے تھے۔  مشکل یہ کہ ان واقعات میں سے اکثریت ایسی ہے کہ سنسر سے گزرنے کے بعد ان میں ، سے، پر ، ہے، کو وغیرہ ہی رہ جائیں گے۔  بہرحال ایک نسبتا ہومیوپیتھک سا واقعہ سنا کے اس ایپی سوڈ کو ختم کرتے ہیں۔ ظہیرالدین بابر، پروپرائٹر ظہیر لائبریری  راوی ہیں کہ ایک دن شام کو ایک مولانا صاحب چندے کی کاپی سنبھالے وار د ہوئے اور فرمایا کہ میں  رحیم یار خان سے آیا ہوں ، اللہ کا گھر بن رہا ہے، مدد کریں۔ راجو جو وہاں موجود تھا، اس نے مولانا سے پوچھا کہ ۔۔۔ ایس توں پہلے رب کرائے تے رہندا سی؟۔  مولانا ، لاحول ولا اور کافر و زندیق کی تسبیح کرتے ہوئے ایسے غائب ہوئے کہ دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔
اس ابتدائی تعارف کے بعد ہمارا  ارادہ تھا کہ اس دور کے حالات بھی بیانیں جب ہم راجو کی زیر صدارت ایک رجسٹرڈ کلب کی طرف سے کرکٹ کھیلا کرتے تھے  اور امپائرنگ کے کسی بھی تنازعے کی صورت میں راجو اپنی ٹی ٹی کی جھلک کراکے معاملہ چشم زدن میں نمٹا دیا کرتا تھا۔  پر یہ سب  پھر کبھی سہی۔   یار زندہ، صحبت باقی۔۔ اس بات پر ہمارے ایک جانی بہت شرماجاتے ہیں۔۔ نجانے کیوں؟