کمینہ

ٹرین پنڈی سے روانہ ہوئی تو سہ پہر نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہی تھا۔ اس بوگی میں معمول سے رش کم ، لیکن شور زیادہ تھا۔ اس شور کا منبع تین نوجوان تھے، جو ریل کے وسل دیتے ہی اپنی نشستوں‌ پر جم گئے تھے اور تاش نکال کر کھیلنے کے نام پر جھگڑنے لگے تھے۔ اس جھگڑے کا حاصل وہ فلک شگاف قہقہے تھے جو وقتا فوقتا ان کے دہانوں سے توپ کے گولوں کی طرح برآمد ہورہے تھے۔ رش کم ہونے کی وجہ سے انہوں نے آمنے سامنے دو بڑی سیٹوں پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ان کے ساتھ والے حصے میں ایک خاندان سفر کررہا تھا۔ جوتقریبا 14، 15 افراد پر مشتمل تھا۔ بزرگ خواتین اس شور شرابے پر زیادہ خوش نہیں تھیں۔ لیکن نوجوان پود ان تینوں‌کے ہاؤ ہو میں‌پوری دلچسپی لے رہی تھی۔ ان نوجوانوں کا دھیان بھی تاش سے زیادہ ہمسایوں کی دلچسپی میں تھا۔
گاڑی جیسے ہی شہر سے نکلی اور کھلے علاقے میں آئی، وہ تینوں سب چھوڑ چھاڑ کر دروازے میں جا کھڑے ہوئے۔ ان میں‌ایک جو دبلا پتلا اور معنک تھا، اس نے سگریٹ سلگالیا۔ اس سارے ہنگامے میں‌ ان کا سرپنچ، اس حرکت پر معنک کو خونریز نظروں‌ سے گھورتا ہوا دوسرے دروازے میں جاکر کھڑا ہوگیا اور پہاڑی علاقے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ سوہاوہ پار کرنے کے بعد یا شاید پہلے پہاڑی علاقے کے ایک چھوٹے سے سٹیشن پر گاڑی رکی، شاید کسی دوسری گاڑی کا کراس تھا۔ گاڑی کے رکتے ہی تینوں چھلانگیں مار کر نیچے اتر آئے، پانچ دس منٹ پلیٹ فارم نما چبوترے پر گھومنے کے باوجود بھی جب گاڑی کی روانگی کے آثار نظر نہ آئے تو وہ اپنے سامان سے بیٹ اور ٹینس بال نکال لائے اور پلیٹ فارم پر کرکٹ کھیلنے لگے۔ دیکھا دیکھی ان کے ساتھ پانچ چھ مسافر اور مل گئے۔ تقریبا آدھ گھنٹے کے بعد گاڑی نے وسل دی اور روانہ ہوئی۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ وہ تینوں‌بھی شاید مسلسل بولنے اور رنگبازیاں کرنے کی وجہ سے تھک چکے تھے اور اب کھڑکیوں‌سے لگے پیچھے کو دوڑتے مناظر میں‌گم تھے۔ اپنی حرکتوں اور باتوں سے ان کا غیر اعلانیہ لیڈر لگنے والا سائیڈ والی سنگل سیٹ پر براجمان ہوچکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں‌اب ایک ڈائجسٹ تھا اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اس میں‌گم تھا۔ ان کے ساتھ سفر کرنے والی فیملی کو بھوک نے ستایا اور انہوں نے اپنے ٹفن وغیرہ کھولے تو پوری بوگی مرغن کھانوں کی خوشبو سے مہک اٹھی۔ ایک خاتون نے مروتاً اس سے کھانے کو پوچھا تو اس نے بہت معصومیت سے جواب دیاکہ ”جی شکریہ! مجھے ڈاکٹر نے چکنائی والے کھانوں سے منع کیا ہے۔“ خاتون نے اپنی لہجے میں‌بے یقینی سموتے ہوئے کہا، ”کیوں؟“ اس پر وہ بولا، ”بس جی کیا کریں گی پوچھ کر؟ چھوڑیں“۔ نوجوان کے لہجے کی اداسی اور چہرے پر چھائی افسردگی آمیز مسکراہٹ نے خاتون کے شوق تجسس کو بڑھاوا دیا اور انہوں نے اصرار سے پوچھا ”بیٹا! بتاؤ تو سہی کیا بات ہے؟“
”میرے دل میں سوراخ ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر احتیاط کی تو ایک سال تک اور جی سکتے ہو۔ آپ یقینا ہمارے شور شرابے سے تنگ آگئے ہوں گے۔ لیکن میری جتنی بھی زندگی باقی ہے اسے مرنے کے خوف میں ضائع نہیں‌ کرنا چاہتا، اسی لئے میں‌اپنے کزنز کے ساتھ مری آیا تھا، اگلے سال تک پتہ نہیں میں‌ رہوں گا یا نہیں! میں‌ آپ سے اس شور شرابے کی معافی چاہتاہوں“۔ یہ کہہ کر نوجوان افسردہ سے انداز میں‌ مسکرایا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔
خاتون کا تو وہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں‌ لہو نہیں۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ نوجوان کے پاس آئیں‌اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اصرار کرکے اسے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ ان تینوں کو کھانا، چائے ، ڈرائی فروٹ ہر چیز مہیا کی جارہی تھی۔ باقی کے دونوں اس معنک سمیت حیران تھے کہ آخر کیا قیامت آگئی ہے کہ جو خواتین ہمیں‌ تھوڑی دیر پہلے کچا چبانے والی نگاہوں سے گھور رہی تھیں اب وہی اتنے پیار سے تواضع کررہی ہیں۔ وہ بار بار سوالیہ نظروں سے اپنے لیڈر کو گھورتے تھے لیکن اس کے چہرے پر لگے ”بکواس بند کرو اور آرام سے کھاؤ“ کا بینر پڑھ کر پھر چپ چاپ پیٹ پوجا میں‌ مصروف ہوجاتے تھے۔
باقی سفر میں بھی ان کا ہنگامہ جاری رہا، لیکن اب ان خواتین کی نگاہوں سے غصے کی بجائے ہمدردی جھلک رہی تھی۔ آدھی رات کے بعد جب گاڑی اپنی منزل پر پہنچی تو رخصت ہوتے ہوئے بزرگ خواتین ، اس نوجوان کو گلے لگا کر ایسے دعائیں دے رہی تھیں کہ جیسے وہ محاذ جنگ پر جارہا ہو!
سٹیشن سے باہر آتے ہی دونوں نےمل کر لیڈر نما کو دبوچ لیا اور اس رام کہانی کی وجہ دریافت کی۔ پورا ماجرا سننے پر دونوں نے بیک وقت فلک شگاف نعرہ لگایا!!
کمینہ!!

دو اقتباس

۔۔۔۔ میں تمہیں الف لیلہ کی کہانی نہیں سنا رہی، یہ ہمارے ملک کا دستور ہے۔ یہاں فرد تباہ ہوجاتا ہے اور سوسائٹی مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔ سال کے آخر پر اعدادوشمار شائع ہوتے ہیں، اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آج ہم دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں رہ رہے ہیں، اور دنیا میں فی کس سب سے زیادہ کما رہے ہیں، اور اپنے جسموں کو دنیا کی عمدہ ترین غذا پر پال رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور پتہ نہیں کہ کدھر جارہے ہیں۔ ہماری روحوں کو دن بھر میں کتنی کیلوریز کی ضرورت ہے، اس کے اعداد و شمار ابھی تک شائع نہیں ہوئے۔
عبداللہ حسین کی کہانی ”ندی“ سے
================================================
۔۔۔۔ میری چپ حویلی کے صدر دروازے کے قدموں میں گرے ہوئے اس قفل کی مانند ہے، جسے چور پچھلی رات دروازے کے کنڈے سے اتار کر پھینک گئے ہوں۔ ایسا تالا بہت کچھ کہتا ہے، لیکن کوئی تفصیل بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے، لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کرسکنے کا غم، اپنی ہیچ مدانی کا احساس، اپنے مالکوں سے گہری دغابازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کردیتا ہے۔
بانو قدسیہ کی کہانی ”انتر ہوت اداسی“ سے