کیِ فرق پیندا اے

کالونی کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی بردارِ خُورد نے ون وے کی خلاف ورزی کی تو ہم نے ان سے دریافت کیا، "کِی تکلیف اے تینوں؟"۔ جواب ملا کہ دوسری طرف سے جانے پر یوٹرن لینا پڑتا۔ مزے کی بات یہ کہ صرف بیس پچیس میٹر کا فرق پڑتا۔ ہم نے انہیں بائیک موڑنے اور اسی طرف سے جانے کا حکم دیا۔ مرتا کیا نہ کرتا، سگ باش بردارِ خورد مباش۔۔۔برادر نے بائیک موڑی اور اسی سڑک پر ہولئے۔ گھر پہنچنے پر ہم نے ان کو ایک عدد پُر جوش لکچر دیا جس میں قوانین کا احترام اور ان کی اہمیّت سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ سب کچھ بظاہر بغور سننے کے بعد وہ ہم سے یوں گویا ہوئے۔۔" بھائی جی۔۔ سڑک تے خالی سِی بالکل۔۔ کیِ فرق پیندا اے"۔
زیادہ تر کیسز میں کچھ سال ملک سے باہر گزارنے والوں کو گھروالے اور حلقہءاحباب، کالا صاحب سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔ پیسے آگئے نیں تے دماغ ستویں اسمان تے پہنچ گیا اے۔۔ ایتھے ای کھجل ہندا سِی پہلے۔۔۔ ہماری لیکن کھال موٹی ہے اور ہم ایسی باتیں ایک کان سے سن کر ان کا جواب اپنی گز بھر لمبی زبان، بقول امّی جی "لُتری" سے دیتے ہیں۔
بچپن میں گھر اور سکول سے ہمیں ٹریفک بارے جو معلومات یا تربیت ملی وہ صرف اتنی تھی کہ سڑک دونوں طرف دیکھ کے پار کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ کبھی کسی نے کچھ سمجھانے یا بتانے کی کوشش نہیں کی۔ بائیک ہم نے اس وقت چلانی شروع کی جب ہمارے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے۔ ہمیں کسی نے منع نہیں کیا۔ ڈرائیونگ لائسنس تو کالج میں کہیں جا کے بنوایا۔ سڑک پر ہمارے رویّے ایسے تھے اور ہیں جیسے سب گھر سے اس امر کا تہیّہ کرکے نکلے ہوں کہ زندہ گھر واپس نہیں جائیں گے اور یہیں کہیں کسی کھوتا ریڑھی یا ویگن سے ٹکرا کر شہید ہوجائیں گے یا کسی کو شہید کردیں گے کہ حادثے میں فوت ہونا بھی شہادت ہی ہوتی ہے۔
چند سال پہلے ہمیں دیس نکالا ملا اور ہم ایک ایسے ملک میں پہنچے جہاں ٹریفک کا نظام دیکھ کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔۔۔ اس ٹریفک کا وطنِ عزیز و مُلکِ خداداد سے موازنہ کیا تو ہمیں یوں لگا جیسے مادرِ وطن میں سڑکوں پر ٹریفک نہیں چلتی، موت کے کنوئیں کا شو چلتا ہے۔ سڑک پر موجود ہر شخص اتنی جلدی میں ہوتا ہے جیسے فائر بریگیڈ کا ملازم ہو اور بازارِ حُسن میں آگ لگنے کی اطلاع پر آگ بجھانے جارہا ہو۔
ہم جب بھی وطنِ عزیز کا چکر لگاتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ٹریفک بارے جو کچھ ہم نے پردیس میں رہ کر سیکھا ہے اس پر ہر ممکن حد تک عمل کرسکیں اور جن پر ہمارا بَس چلتا ہے ان کو بھی تاکید کریں۔ ٹریفک سگنل پر سبز بتّی جلتی ہے تو اکثر ہم اکیلے ہی کھڑے ہوتے ہیں کہ باقی سب احباب ساٹھ یا اسّی سیکنڈ کا طویل عرصہ گزارنے کی سکت نہیں رکھتے اور سگنل توڑ کر آگ وغیرہ بُجھانے نکل جاتے ہیں۔ اکثر احباب تو ہمیں اکیلا سگنل پر کھڑا دیکھ کر ہنستے ہیں اور کچھ تو باقاعدہ جُگتیں بھی کرتے ہیں۔ فیصل آبادی جو ہوئے۔ ہم ڈھیٹ بنے کھڑے رہتے ہیں۔ کسی کو تو کھڑا ہونا ہی ہے۔
ہم اپنی پوری ایمانداری سے بیان کرتے ہیں کہ بچپن سے لے کر آج تک ہم نے کسی مسجد میں ٹریفک یا کسی بھی قسم کے قوانین کے احترام کا وعظ یا بیان نہیں سُنا۔ ہم نے ہر قسم کی مساجد میں نمازیں باقاعدگی سے پڑھی ہیں۔ بریلویوں کی مسجد ہمارے محلے میں تھی۔ دیوبندیوں کی مسجد میں ہم ابّو کے ساتھ جمعہ پڑھنے جاتے تھے۔ اہل حدیثوں کی مسجد میں وہ جمعہ پڑھتے تھے جس دن کرکٹ میچ آرہا ہوتا تھا کہ ان کا جمعہ جلد اور سب سے پہلے ختم ہوجاتا تھا۔ ان مساجد میں ہم نے ہر قسم کے قصّے، کہانیاں، ایمان کو گرما دینے والے وعظ، شلوار کی اونچائی اور داڑھی کی لمبائی، روزے کے مسائل، مدارس کے لیے چندہ دینے کے فضائل، جہاد کی اہمیّت (صرف سننے والوں کے لیے)، نُور بشر کے مسائل، قربانی کی کھالوں کا درست مصرف، فلسطین، کشمیر، بوسنیا وغیرہ کے مسلمانوں کی امداد، یہود و ہنود کی سازشیں، شیعوں کا کُفر، بریلویوں کا شرک، دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کا گستاخ رسول ہونا۔۔۔ یہ سب ہم نے سنا۔ نہیں سُنا تو یہ نہیں سُنا کہ سگنل توڑنا، گناہ کبیرہ ہے اور یہ اقدام قتل کے برابر ہے۔ یہ نہیں سُنا کہ مُلکی قوانین کو جان بوجھ کے توڑنا، فتنہ ہے۔ اور فتنہ قتل سے بدتر ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر مسجد کے منبر سے کہے گئے لفظ پر لوگ اپنا مال اور جان قربان کرسکتے ہیں تو کیا انہیں یہ نہیں سکھایا جاسکتا؟

تعلیم کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور تربیّت بالکل بھُلا دی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بے دال کے بُودم بن رہے ہیں۔ والدین کے نزدیک سکول اور کالج کی فیسیں دے کے ان کی ذمّہ داری ادا ہوجاتی ہے۔ بچّے جانیں اور ان کے تعلیمی ادارے جانیں۔ یہ سب ہوتے ہوئے اگر آپ کو سڑک پر پاگلوں کا ایک ہجوم دکھائی دیتا ہے تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟

مقطع میں آ پڑی ہے سُخن گسترانہ بات

قادیانی/مرزائی/احمدی احباب بارے پھر بحث چھڑی ہے کہ کسی کو کافر کیوں قرار دیا جائے؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ آئین میں ترمیم کریں اور انہیں مسلم قرار دے دیں۔ جب تک ریاستی قانون انہیں غیرمسلم قرار دیتا ہے تب تک اسے ماننا پڑے گا۔
دوسرا رخ اس کا یہ کہ اس بنیاد پر ان سے امتیازی سلوک کیا جائے یا تشدّد کی کسی بھی قسم سے کام لیا جائے تو یہ مذہی، قانونی، اخلاقی کسی بھی رُو سے نہ تو جائز ہے اور نہ ہی اس کی کوئی توجیہہ یا حمایت کی جاسکتی ہے۔ یہ پاکستان کے شہری ہیں اور انہیں وہی حقوق (یا ان کی حق تلفی) حاصل ہیں جو عمومی طور پر ہم سب کو حاصل ہیں۔
تیسرا رُخ یہ کہنا کہ بھُٹّو نے مولویوں کے دباؤ میں یہ فیصلہ کیا تھا، قطعی غلط ہے۔ یہ انیس سو چوہتّر کا واقعہ ہے جب بھٹّو اپنے اقتدار کے عروج پر تھے۔ جن مولویوں کے دباؤ کی بات کی جاتی ہے، انہیں اسمبلی سے ڈنڈا ڈولی کرکے باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ جو بات ہم سمجھنا نہیں چاہتے وہ یہ کہ ان کے پیشوا (موروثی)  کو پارلیمان نے اپنا موقف بیان کرنے کا پورا موقع دیا اور ان کا مؤقف ظاہر و باہر اور آن ریکارڈ ہے کہ جو مرزا صاحب کو نبی اور مسیح موعود نہیں مانتا، ان کے نزدیک وہ ان کے دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔ ان کی حق گوئی کی داد دی جانی چاہیے کہ جس بات کو انہوں نے درست سمجھا اسے ڈنکے کی چوٹ پر ریاست کی مقنّنہ  کے سامنےبغیر کسی ہچکچاہٹ بیان کیا۔ اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے مقنّنہ نے بھی وہ فیصلہ کیا جسے وہ حق سمجھتی تھی۔ جمہوری اصول کے تحت اس فیصلہ کا احترام تب تک کیا جانا چاہیے جب تک اسے وہی مقنّنہ بدل نہ دے۔
قادیانی احباب اپنے پیشواؤں  کے جیسے مقلّد ہیں وہ شاید ان احباب کو جاننے والے حضرات بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ جائز اور اکثر ناجائز طور پر ہم مولویوں پر تنقید کرتے ہیں اور ان میں لبرل حضرات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن آج تک کبھی کسی نے، قادیانی احباب جس پیشوائی چنگل میں جکڑے ہیں، اس پر ایک لفظ نہیں لکھا۔ یہ بھی مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں اتنے ہی ڈسے جا رہے ہیں جتنے ہم ہیں شاید اس سے بھی زیادہ۔ ہم تو اپنے مولویوں پر ہر قسم کی تنقید اور ان کا پوسٹمارٹم کرتے رہتے ہیں لیکن یہ اس پیشوائیت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتے یا اٹھا نہیں سکتے۔

ایک زمانہ تھا جب ہم ان دوستوں بارے بہت سخت زبان استعمال کرتے تھے اور مرزا صاحب بارے وہ سب کچھ کہتے تھے جو یقینا ہم اپنے بارے سننا نہیں چاہیں گے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ جانا کہ نفرت کاشت کرنے سے تشدّد کی فصل اگتی ہے اور تشدّد زدہ معاشرہ معذور ہوجاتا ہے۔ تو اب کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے عقیدے پر رہتے ہوئے، مناسب انداز میں اپنی رائے بیان کردی جائے۔