کالا صاب

 یہ ماجرا جہاز سے شروع ہوتا ہے۔
غیر ملکی ائیرلائن کے جہاز میں تل دھرنے  کی جگہ تو تھی پر بندہ دھرنے کی بالکل نہیں تھی۔  لیہ سے لاہور جانے والی نیوخان کی بس کی طرح جہاز  بالکل "فُل" تھا۔ فضائی میزبانوں کی اکثریت مشرق بعید کے خطے سے تعلق رکھتی تھی اور ان کے زیب تن لباس مسافروں کی اکثریت کے لیے بہت ترغیب آمیز تھے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مڈل کلاسیوں کی عمومی اخلاقیات کے عین مطابق خواتین صرف  اپنے خاندان کی قابل عزت ہوتی ہیں، باقی جتنی بھی ہیں وہ سب "حلال" ہیں۔  جہاز کے پرواز بھرنے سے پہلے ہی  ان خواتین کی پریڈ شروع ہوچکی تھی۔ کسی کو پانی چاہیے تھا، کسی کو پیناڈول۔ کوئی اپنی سیٹ سے مطمئن نہیں تھا اور کسی کو صرف بٹن دبانے میں مزا آتا تھا اور خاتون کےپوچھنے پر کہ کیا تکلیف ہے؟ وہ اپنے پیلے دانت نکال کے دکھا دیتے تھے۔اطراف میں بیٹھے ہوئے غیور افراد کی اکثریت اپنی کہنیاں باہر نکال کے بیٹھی ہوئی تھی اور کسی بھی  "اتصال" پر ان کی خوشی اور لطف  دیدنی تھا۔ فلائٹ پرسر جو برٹش تھا،  ان حرکات و سکنات پر اس کے چہرے پر جو  تمسخرانہ اور حقار  ت آمیز تاثرات تھے وہ میرے جیسے بے شرم کو بھی پانی پانی کردینے کے لیے کافی تھے۔  ٹیک آف کے بعد جب پرواز ہموار ہوئی تو جو پہلی ٹرالی مہمانوں کی خدمت کے لیے آئی، وہ بنت عنب کی مصنوعات پر مشتمل تھی۔ تمام حضرات جو پرائی خواتین کو نظروں اور کہنیوں سے وہ سب کچھ کررہے تھے جو در حقیقت کچھ اور چیزوں سے کرنا چاہ رہے تھے، یکدم "حاجی  ثناءاللہ " بن گئے اور لاحول کی آوازوں کی گونج سی سنائی دینے لگی۔  یہاں ہمیں وہ لطیفہ یاد آیا جس میں ایک صاحب رات کے پچھلے پہر"حلال" گوشت ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔
لاہور ائیرپورٹ پر قدم رنجہ فرمانے کے بعد جب ہم امیگریشن کی قطاروں تک پہنچے تو وہاں ایک پرواز ہمارے پرانے آقاوں کے دیس سے بھی پدھاری ہوئی تھی۔ تو رات کے آخری پہر کافی رونق کا سماں تھا۔ وہ لوگ جو دبئی یا لندن کے ائیرپورٹس پر قطار توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ، وہی لوگ اپنے وطن مالوف کے ہوائی اڈے کو خالہ جی کا واڑہ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو پھلانگنے کی کوششیں لگاتار جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس پر مستزاد وہ وردی والے اصحاب جو اکٹھے چھ چھ پاسپورٹ کاونٹر والے صاحب کو لا کے دے رہے تھے کہ  "سرجی، اپنے ای بندے نیں"۔ ان مراحل سے فارغ ہونے کے بعد جب باہر نکلنا نصیب ہوا تو بلا مبالغہ ہم نے خود کو وی آئی پی محسوس کیا، تمام ٹیکسی ڈرائیور حضرات ہمیں وہ پروٹوکول دینے کے آرزو مند تھے جو کسی جنرل یا جج کو دیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں یہ محسوس ہونے لگا کہ شاید اس پروٹوکول کی جنگ میں ہماری اپنی پھیتی پھیتی نہ ہوجائے۔ اس پر ہم نے اپنا معصوم خلیجی رویہ تبدیل کرکے ، خرانٹ فیصلابادی  رویہ اپنایا۔ جس کے فوری اور خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ۔
ڈائیوو  لاہور کے ٹرمینل  پہنچ کے ہمیں ایسا لگا کہ جیسے اب ہمیں کچھ دیر سکون کا سانس لینا نصیب ہوگا۔  وائی فائی کی سہولت نے اس تاثر کو مزید پختہ کیا کہ یہ ایک آدھ گھنٹہ بہت مزے سے گزر جائے گا۔ اس کے بعد دو گھنٹے کا اور سفر باقی رہ جائے گا جو سوتے ہوئے کٹ جائے گا۔ ابھی ہم سیدھے ہوکے بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ایک معقول صورت و حلیہ کے صاحب، جنہوں نے عمدہ کاٹن کے سوٹ پر گہرے رنگ کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔  پانی کے الیکٹرک کولر کے پاس آئے،  گلاس میں پانی ڈالا، ایک گھونٹ پیا اور باقی پانی سے وہیں کھڑے کھڑے کُلیاں کرنے لگے۔  سامنے ہی  مردوں کے لیے واش روم تھے جس میں چھ سات واش بیسن تھے اور ہماری سمجھ کے مطابق ایسے کام وہیں کرتے ہیں۔ زیادہ  حیران کن بات  یہ  کہ جو لوگ وہاں بیٹھے تھے ان کے نزدیک یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی۔ یہ سب کرنے کے بعد وہ اطمینان سے اپنی خشخشی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی نشست پر براجمان ہوگئے۔
یہ وہ وقت تھا جب ہم نے اپنے تاثرات ٹویٹ کئے۔ جس پر ہمارے ایک یار جانی نے ہمیں "کالا صاب" ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ "انجائے کر" ، کالا صاب نہ بن۔
اس پر ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کیا یہ واقعی کالا صاحبی ہی تو نہیں کہ ہر چیز اور ہر بات ہمیں ناگوار گزر رہی ہے؟ کیا یہ درم و دینار کا نشہ ہے جو ہمیں سب کو گنوار اور بد تہذیب سمجھنے پر مجبور کررہا ہے؟  شاید ہم اس بات پر یقین کر ہی لیتے کہ واقعی یہ ہماری گرم جیب ہی ہے)اگرچہ جیب بھی کوئی اتنی زیادہ گرم نہیں ہے ( جس کی گرمی ہمارے دماغ کو چڑھ گئی ہے لیکن  دو تین پہلے ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ہم اس بات پر یقین کرتے کرتے بال بال بچ  گئے۔
ہمارے ایک زمانہ قبل از تاریخ جتنے پرانے اور بہت عزیز دوست  المشہور لنگوٹیے، جن سے بہت عرصہ بعد ہماری ملاقات ہوئی، ایک قانون نافذ کرنےو الے ادارے میں عرصہ دراز سے نوکر چلے آرہے ہیں۔ اس نوکری سے پہلے بھی ان کا خاندانی و معاشی و تعلیمی  پس منظر  ماشاءاللہ بہت  عمدہ تھا۔ یہی وجہ رہی کہ وہ اس نوکری کے دوران فٹبال ہی بنے رہے اور اِدھر سے اُدھر  لڑھکتے رہے۔ مرض وہی پرانا، جو ہمارے استاد، گلزار صاحب نے اردو کی ایک کہانی کے اخلاقی سبق کے طور پر ازبر کروایا تھا کہ ایمانداری بہترین حکمت عملی ہے۔ قصہ مختصر ہم ان کے ساتھ فیصل آباد کی سڑکیں ناپ رہے تھے کہ جیل روڈ کی گرین بیلٹ پر ایک جوان العمر  خاکروب کو جو سڑک پر  صفائی کی ڈیوٹی دے رہا ہوگا، اپنا جھاڑو پھینک کر لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا۔ حادثے کے دوسرے فریق کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو آگے ذرا فاصلے پر ایک نئی ماڈل کی کرولا کھڑی نظر آئی، اس کے قریب پہنچے تو ایک ریش دراز حاجی صاحب، جو حلیے سے ہی سوتر منڈیے لگ رہے تھے،  اور ان کا بطن ، شمشیر کے دم کی طرح سینہ شمشیر سے باہر تھا بلکہ کافی باہر تھا، گاڑی سے باہر نکلتے نظر آئے، انہوں نے گاڑی کے بمپر کا تشویش ناک انداز میں جائزہ لیتے ہوئے گاڑی کا ایک چکر لگایا۔ ان کے بشرے سے بالکل یہ اندازہ نہیں ہورہاتھا کہ ابھی چند لمحات قبل انہوں نے ایک جیتے جاگتے انسان کو اپنی سواری سے "پھنڈر" کیا ہے۔ ہمارے منہ سے بے ساختہ بزبان پنجابی ایک گالی نکلی ۔ ہمارے دوست نے اپنے نوکری پیشہ سرد لہجے میں ہم سے پوچھا کہ "دند پن دئیے ایدے؟"۔  ہماری دل اور دماغ میں بھری ہوئی عرصہ دراز کی تلخی کی تو یہی خواہش تھی لیکن جانے کیوں ہم نے یہ جواب دے کے انہیں گاڑی آگے بڑھانے کا کہا کہ "کنیاں کُو  دے دند پنّیں گا؟"۔
اب ہماری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ کیا ہم کالے صاب ہیں یا ہمارے عزیز ہم وطنوں کی اکثریت کرتوتا ً کالی ہے!۔