کھولنا اپنے ہی پولوں کا

دوسروں کے پول کھولنا شاید اس کائنات کا سب سے آسان اور۔۔۔۔ لذیذ کام ہے۔ وہ گنجا ہے، وہ کالی ہے، وہ توندیل ہے، وہ بالکل سیدھی ہے جیسے اسے کوئلے والی بڑی استری سے پریس کیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ لیکن آج میں اپنے ہی پول کھولنے پر اتر آیا ہوں۔ آپ کو شاید بلکہ یقینا مزا آئے گا، پر مجھ کو خاطر خواہ بدمزگی ہوگی جس سے چند احباب کے محظوط ہونے کا امکان یقینی ہے۔۔۔

چلیے شروع کرتے ہیں ۔۔۔مثلا نمبر ایک، میرا جیسا کنجوس اس کائنات میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ میری ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب جب تک مجھے ۹۹۹ ڈائل کرنے کی دھمکی نہیں دیتی، میں اسے دبا دبا کراور پچکا پچکا کر اور جھٹک جھٹک کر اس میں سے پیسٹ نکالتا رہتا ہوں،اور ۸۰ گرام کی ٹیوب میں سے میں تقریبا 7۔۷۹ گرام پیسٹ استعمال کرلیتا ہوں اور باقی بچنے والے اعشاریہ تین گرام کو نہ استعمال کرنے پر میری جو افسوسناک اور کربناک حالت ہوتی ہے، وہ قابل دید ہی ہوسکتی ہے، لفظ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

فلرٹیشن کا مرض (پنجابی میں لکھیں تو۔۔۔ ہونا ٹھرکی کسی بندے کا) زمانہ طفولیت سے ہی لاحق ہے۔ پہلی جماعت میں تھا تواپنی مس پر عاشق ہوگیا تھا۔۔۔ اور اسے جھوٹ نہ سمجھیں۔ پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میں نے کوئی سات خیالی معاشقے پھڑکاڈالے تھے۔ چچا نے شاید یہ مصرعہ میرے لئے ہی کہا تھا کہ

مرا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے۔۔۔

جوانی کے حقیقی معاشقے سنانے کی غلطی تو میں ہرگز نہیں کرسکتا، کہ میں یملا تو ہوں پر اتنا بھی یملا نہیں! ہیں جی۔۔۔

اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ بڈّھا ہونے پر تو میری شدید واٹ لگے گی کہ بابے تو ویسے ہی ٹھرکی ہوجاتے ہیں اور میرے جیسے متوقع بابے، جو زمانہ قبل از تاریخ سے ہی ٹھرکی واقع ہوئے ہوں، تو وہ تو ٹھرکی کی بھی تیسری فارم یعنی ٹھرکیئسٹ ہوجائیں گے۔۔۔ اللہ میرے حال پر رحم فرمائے۔۔۔ اور مجھے جوانی میں ہی ۔۔۔ آہو۔۔۔

بزدلی مجھ میں ایسے کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے جیسے میرا میں انگلش۔ عورتیں بےچاریاں تو ویسے ہی مشہور ہوگئی ہیں چھپکلیوں، کاکروچوں، چوہوں وغیرہ سے ڈرنے میں، جبکہ اس کام میں جو یدطولی مجھے حاصل ہے، وہ کسی عورت کے بس کی بات نہیں۔ ویسے یہ عورتیں جب لڑکیاں ہوتی ہیں تو ان کے کالج ویمن کالج کہلاتے ہیں اور جب حسب توفیق چار پانچ چاند سے بچوں کی اماں جاتی بن جاتی ہیں تو ان کا اصرار ہوتا ہے کہ انہیں لڑکی سمجھا اور پکارا جائے۔۔۔ ساری دوسری سائنسوں کی طرح یہ سائنس بھی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔۔۔

کہیں آپ یہ نہ سمجھنا شروع کردیں کہ میں ہرکام میں ہی کنجوس ہوں اس لئے وضاحت کیے دیتا ہوں کہ لفظ خرچ کرنے کے معاملے میں، میرا ایک ہی ثانی ہے (بلکہ وہ اول ہے میں ثانی ہوں)۔ میں اتنی فضول خرچی سے لفظ بولتا اور لکھتا ہوں جیسے ہمارے حکمران قومی خزانے سے کبھی عمرے کرتے ہیں اور کبھی مجرے سنتے ہیں۔ 'الفاظوں' کے معاملے میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ میں نے کبھی جزرسی کی ہو، جو بات ایک فقرے میں کہی یا لکھی جاسکتی ہو، میں اس پر تین تین گھنٹے اور چھ چھ دستے کاغذوں کے لگا دیتا ہوں۔ اور جب بات ختم ہوتی ہے تو کوئی مائی کا لعل یا ابا کی بنّو یہ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ اصل بات کیا تھی۔۔۔ ایک دفعہ پھر۔۔۔۔ ہیں جی۔۔۔۔