دوراہا

پروگرا م میں خوش آمدید۔ ہمارے آج کے مہمان مقبول کالم نویس، ڈرامہ نگار، شاعر اور دانشور جناب حسین ایثا ر ہیں۔ جن کے تعارف کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا نام حسین ایثار ہے!۔
جی ۔۔ایثار صاحب۔ کچھ اپنے بارے بتائیے۔
میں۔۔۔(سگریٹ کا طویل کش لے کر خلاؤں میں گھورتے ہوئے ایک لمبا وقفہ ) میرا تعلق لائل پور سے ہے۔  انتہائی پیارا، دلآویز، حسیں، دلنشیں، دلدار ، جان من شہر تھا۔ اب تو اس شہر کےنام سے جغرافیہ تک سب بدل گیا ہے۔ ڈھیٹ، بے حیا، غلیظ،  منافق، واہیات، بے ہودہ، بدتمیز  (منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے) ہوچکا ہے اب یہ شہر۔ ۔۔ میں تو ۔۔۔
۔۔۔بات کاٹتے ہوئے۔۔ یہ بتائیے  آپ کے والد کیا کرتے تھے؟
ہاںںںںں،،، میرے والد۔۔۔ وہ  ایک باشعور، باتمدن، مہذب، تعلیم یافتہ، شعور یافتہ، اپنے وقت سے بہت آگے کی سوچ رکھنے والے انسان تھے۔ اس کی ایک مثال میں عرض کرتا ہوں۔ نوجوانی میں مجھے عشق ہوگیا۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں۔ لیکن میرے معاملے میں تو یہ ایک معجزہ تھا۔ اس وقت میری شکل آج کے مقابلے میں زیادہ منحوس تھی، مجھے تو چنگڑیاں لفٹ نہیں کراتی تھیں چہ جائیکہ ایک پراپر پڑھی لکھی  لڑکی مجھ سے اظہار محبت کرے۔ لہذا میں تو بالکل ریشہ خطمی اور انٹاغفیل وغیرہ ہوگیا۔ اباجی کو پتہ چلا تو انہوں نے میری وہ گدڑ کُٹ لگائی کہ کیا پُلیسے لگاتے ہوں گے۔ لیکن میں ، جیسا سب کو پتہ ہے، مستقل مزاج انسان ہوں۔ میں اپنے موقف پر قائم رہا جس پر ابا جی نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ وہ ایک الگ کہانی ہے بہرحال۔ محبت میں ناکامی اور گھرسے بے دخل ہونے کے بعد میں لاہور بھاگ گیا اور کافی عرصے بعد جب لائل پور واپس گیا تو اپنی محبت کو ایک نظر دیکھنے کی کسک دل میں تھی۔ ایک دن موقع مل گیا لیکن اس کو دیکھتے ہی مجھے اپنے اباجی کی دور اندیشی کا اندازہ ہوا، وہ نازک اندام حسینہ ، جس کی زلف گرہ گیر کا میں اسیر ہوا تھا، ایک نصرت فتح علی ٹائپ خاتون کی صورت  میں ڈھل چکی تھی ۔ بوٹے کے کباب، گھنٹہ گھر کی آئس کریم اور لگاتار نوماہی زچگیوں نے  اسے، موتیے کی کلی سے گوبھی کا پھول بنا دیا تھا۔ اللہ، اباجی کو غریق رحمت کرے، وہ درست کہا کرتے تھے کہ "اوئے ڈنگرا ، تیری مَت کھوتے توں وی لنگھی اے"۔
آپ کو اردو صحافت کا پہلا سپر سٹار کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ مایوسی کے تاجر ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
آج جو کچھ بھی میں ہوں، اس کی وجہ جدوجہد، محنت، مستقل مزاجی، لگن، علم سے محبت، جہالت سے نفرت ہے۔ میں مایوسی نہیں پھیلاتا اور جو گھٹیا اور شُہدے لوگ یہ سمجھتے ہیں ان کی عقلوں میں فتور ہے یا وہ بے غیرت ہیں۔ میں معاشرے کا آئینہ ہوں،  اس میں وہی کچھ نظر آئے گا جو معاشرے میں ہورہا ہے۔
ایثار صاحب، ایک طرف تو آپ مغربی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے گرویدہ ہیں  اور انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے کام اور کارنامے گنواتے آپ کو دوسرا سانس نہیں آتا  جبکہ اسی  تہذیب نے انسانیت کے خلاف جو جرائم کیے اور کررہی ہے ، آپ اس کے دفاع میں ،،جس کی لاٹھی اس کی بھینس،، کی دلیل دیتے ہیں۔ کیا یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد نہیں؟
آپ عجیب گھٹیا، فضول، ازکار رفتہ ، واہیات سوچ کے مالک ہیں۔ آپ جیسے بوزنوں۔۔۔۔ (کمرشل بریک)
(بات کاٹتے ہوئے) زبان سنبھال کے بات کریں۔ جب تک آپ کے گارڈز اندر آئیں گے، میں آپ کا منہ نیلا اور تشریف لال کردوں گا۔ اپنی یہ چ ۔۔چالاکیاں میرے ساتھ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے تنخواہ چینل سے ملتی ہے نہ تو میں آپ کا جاہل عوام ہوں اور نہ آپ کی میڈیا فرم کا ملازم۔
(حسین ایثار ، گہرے گہرے سانس لینے لگتے ہیں،   رنگ سیاہ سے سیاہی مائل پیلا ہونے لگتا ہے۔ جیب سے ایک چپٹی سے بوتل نکال کر ، سامنے پڑے مگ میں ایک محلول انڈیلتے ہیں اور ایک ہی سانس میں چڑھا جاتے ہیں۔ بوتل سے تھوڑا سا محلول اور انڈیل کر ایک چھوٹا سا  سِپ لیتے ہیں۔ چہرے پر رونق واپس آجاتی ہے)۔ یار ، تُوں گُسہ ای کرگیاایں۔ تُوں تے اپنا جگرایں۔ چل دفع کر گُسہ ۔
(کمرشل بریک سے واپسی)
جی ، ناظرین، ہمارے ساتھ موجود ہیں، جناب حسین ایثار۔ آئیے ان سے گفتگو دوبارہ شروع کرتے ہیں۔ جی، ایثار صاحب۔ آپ اکثر اپنی تحاریر میں معاشرے میں پھیلی منافقت پر لکھتے ہیں۔ آپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آپ کے طعن و تشنیع کا شکار اکثر منتخب لوگ ہی بنتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو آپ نے دائمی استثنی دیا ہوا ہے۔ جن میں لطافت حسین اور چودہری یونس الہی  و ہمنوا شامل ہیں۔ آپ کا کیا  کہتے ہیں اس بارے؟
لطافت حسین اور ان کی جماعت، اس ملک کے لیے امید کی آخری کرن ہیں۔ وہ ایسا لیڈر ہے جو عوام کو ایجوکیٹ کرتا ہے۔ کبھی آپ اس کے جلسے میں گئے ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ کیسے وہ  ایک دو تین کہتا ہے اور کروڑوں کا مجمع بالکل خاموش ہوجاتا ہے؟
۔۔۔بات کاٹتے ہوئے۔۔۔ جناب۔ یہ لیڈر کی بجائے پی ٹی ماسٹر کی نشانی ہوتی ہے۔
آپ عجیب بات کرتے ہیں۔ نہایت بے۔۔(ایک دم کچھ یاد آجاتا ہے) نہیں میرے بھائی، اس نے ڈسپلن سکھایا ہے عوام کو۔ اصلی مڈل کلاس قیادت ہے۔ اس نے سڑک چھاپ لوگوں کو اسمبلی کے ممبر بنادیا ہے۔ اس ملک میں وہی انقلاب لائے گا۔ جہاں تک ان کے خلاف قتل و غارت ، بھتہ خوری، منظم جرائم ، اغواء برائے تاوان کے الزامات کا تعلق ہے تو یہ سب پراپیگنڈہ ہے جو جماعتیے، ایجنسیوں کے ایماء پر  کرتے ہیں۔ کیونکہ لطافت حسین اٹھانوے فیصد عوام کا حقیقی لیڈر ہے اور جاگیر دار اس سے خوفزدہ ہیں۔ ایم بی ایم (میرا بھائی موومنٹ) سے زیادہ پر امن، صلح جو، راست باز، با عمل، صالح، عوام دوست، مہذب جماعت  اس کائنات میں نہ تو پہلے کبھی بنی ہے اور نہ آئندہ کبھی بن سکتی ہے۔  جہاں تک سوا ل ہے چودہری یونس الہی کا تو وہ  نئی نسل کے ان سیاستدانوں میں شامل ہیں جن کی شرافت، شائستگی، ایمانداری ، نجابت  کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔  میں اللہ کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ ایسے اجلے دامن والا سیاستدان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ (مگ اٹھا کر ایک لمبا سِپ لیتے ہیں)۔
آپ سیاستدانوں کی مالی لوٹ مار کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے ہیں۔ لیکن آپ نے کئی ایکڑز پر مشتمل جو محل نما فارم ہاوس بنایا ہے اس کے بارے مختلف کہانیاں گردش میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ منی لانڈرنگ  کے طور پر آپ نے اس فارم ہاوس کی ملکیت میں بہت سے پاٹے خاں قسم کے سیاستدانوں اور صحافیوں کو بھی شریک کیا ہے جس کی وجہ سے کوئی اس پر سوال اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ آپ کا کیا کہنا ہے اس پر۔
غلیظ ذہنیت والے لوگ اس کے علاوہ اور سوچ بھی کیا سکتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے میری آمدنی اتنی ہے کہ ان گھٹیا لوگوں کی گندی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ میرے ہفتہ وار کالم کا چیک ہی اگر آپ دیکھ لیں تو آپ کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ جبکہ۔۔۔
۔۔۔ بات کاٹتے ہوئے۔۔۔ پیسہ کمانا اہم نہیں ہے، کیسے کمایا جائے وہ اہم ہے۔ ورنہ  پیسے تو سنی لیون اور نرگس بھی بہت کماتی ہیں ایثار صاحب۔ اور میرے ہوش ٹھکانے پرہی رہتے ہیں کیونکہ میں کافی پیتا ہوں۔
نہیں نہیں۔۔ میرا مطلب  یہ نہیں تھا۔ بہرحال میں ایسے ایک تو کیا سو فارم ہاوس بنا سکتا ہوں۔ یہ میرا پیسہ ہے ، جو میرا دل چاہے وہ میں کروں گا۔ یہ مامے لگتے ہیں اس فارم ہاوس کے؟
یعنی آپ کو تو یہ حق ہے کہ کسی کے بارے میں کچھ بھی لکھ دیں لیکن کوئی آپ سے اگر یہ سوال کردے کہ یہ اتنا لمبا کُرتا کہاں سے آیا تو آپ اس کا جواب دینے کے مکلف نہیں۔ فئیر انف۔ آگے چلتے ہیں۔ آپ کی میڈیا فرم بارے کہا جاتا ہے کہ پچھلے دور حکومت میں اخبارات اور چینلز پر جو تشہیری مہمات  "پڑھا لکھا پنیاب" کے نام سے چلائی گئیں، اس میں آپ کا حصہ بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ آپ اکنامکس کے ڈگری ہولڈر ہیں لیکن یہ ایڈورٹائزنگ کے بزنس میں کیسے آگئے؟ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ سب چودہری یونس الہی کی مہربانیاں تھیں؟
یہ سب حاسد، کمینے، تُھڑدلے، نیچ  لوگ ہیں۔ ساری زندگی اچھے لباس اور اچھے کھانے کو ترسنے والے ۔ میں نے زندگی میں جو کچھ بھی کیا وہ اپنے بل بوتے پر کیا۔ یہ سب میری محنت کا کرشمہ ہے ۔ میرا ٹیلنٹ، صلاحیت، ہنر ان حاسدوں سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ میرا حق ہے کہ میں رنگ برنگی قمیصیں پہنوں اور رولیکس کی گھڑی باندھوں۔ یہ کسی کے باپ کا پیسہ نہیں ہے ۔ میری کمائی ہے۔ جو میرا۔۔
۔۔۔بات کاٹتے  ہوئے۔۔۔ جناب، اگر تشہیری مہم والی بات درست ہے تو یہ پیسہ واقعی عوام کے باپ کا پیسہ ہے۔ ان کے ٹیکس کا پیسہ ہے۔ اس پر آپ عیاشی کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ میں اور ان سیاستدانوں میں کیا فرق رہ گیا جن کے خلاف لکھ لکھ کے آپ نے بیس سال سے ہمارے کان کھالئے ہیں۔
وہ سارے پراجیکٹ میری فرم کو میرٹ پر ملے تھے۔ میں لعنت بھیجتا ہوں الزام لگانے والوں پر اور جلنے والے کا منہ کالا ہی  ہوتا ہے۔ گندے نالی کے کیڑے ہیں یہ سب ۔ گندگی پر بیٹھنے والی مکھیاں۔ آوارہ کُتوں کی طرح ہر شریف اور نجیب آدمی پر بھونکنا ان کی عادت ہے۔  میں ان کو غلاظت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اگر ان میں ہمت ہے تو میرے خلاف عدالت میں چلے جائیں۔ ان کا باپ بھی کچھ ثابت نہیں کرسکتا۔ کام ہی اتنا پکّا ہے۔ ان کی۔۔۔
ناظرین ، پروگرام کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔ اگرچہ ہماری بڑی خواہش تھی کہ حسین  ایثار کے ساتھ کچھ وقت اور گزارتے لیکن ہماری بدقسمتی اور ان کی خوش قسمتی کہ وقت ختم ہوگیا ہے۔ اپنا خیال رکھیے گا اور چوراہے سے سیدھے گزرجائیے گا، دائیں بائیں دیکھے بغیر۔