خیالاتِ پریشاں

یہ کیسا انصاف اے؟
مجھے نوٹس دیا اے۔ میں نے کیا کِیا اے؟
سب سے پَیلے پاکستان اے۔ پھر لندن اے۔ مزے ایں۔ رنگ میں بھنگ ڈالا اے۔ مجھے ڈر نئیں لگتا اے۔
نواز شریف اے۔ بے ایمان اے۔ لوٹ کے کھا گیا اے پاکستان کو۔ میری اونسٹی اے، ڈگنیٹی اے۔ صرف 24 کروڑ کا فلیٹ اے۔ ایجویئر روڈ اے، اچھااے۔ رونق میلہ اے۔ میمیں‌ ایں۔ پھرتی ایں۔ مزا آتا اے۔
زرداری اے، اچھا آدمی اے۔ مجبور اے۔ پھس گیا اے۔ نواز شریف نے دھوکہ دیا اے، مکر گیا اے۔
رانی مکر جی اے، وہ بِی مکر گئی تھی، میں‌ گیا اوں، وہ نئیں آئی اے، میں نے ویٹ کیا اے، پھر بِی نئیں‌ آئی اے۔ دل توڑا اے۔ محفلیں یاد آتی ایں۔ شوکت عزیز تھا، عبداللہ یوسف بی تھا، گانے ہوتے تھے، ڈانس ہوتا تھا، مزا آتا تھا۔ اب کچھ بی نئیں‌ اے۔ ظلم اے۔ زیادتی اے۔ اس پر کوئی سووموٹو نوٹس نئیں‌اے۔ میرا کوئی حق نئیں اے؟؟ خدمت کی اے، ملک کی، عوام کی۔
مجھے جسٹس چوہدری سے ڈر نئیں لگتا اے۔ صرف اس کی آنکھوں سے ڈر لگتا اے۔ خون اے، اترا ہوا اے۔ ساری نواز شریف کی سازش اے۔ اس کے پاس پیسہ اے۔ لگاتا اے۔ وکیلوں کو لگاتا اے۔ جلوس نکلواتا اے۔ صحافیوں کو کھلاتا اے۔ مکار اے۔ جھوٹا اے۔ ہائی جیکر اے۔ اب لارڈ نذیر کو میرے پیچھے لگادیا اے۔
امریکہ اے۔ بے وفا اے۔ نظریں‌ نئیں ملاتا اے۔ کہتا اے، عدالت کا معاملہ اے۔ اتنے بندے پکڑ کے دئیے ایں، پھر بھی کوئی مدد نئیں کی اے۔ ظلم اے۔
میں‌ بہادر اوں، میں نے جنگیں لڑیں‌ ایں۔ مجھے ڈر نئیں لگتا اے۔ (سوں‌سوں سوں) رو نئیں را اوں۔ نزلہ اے۔ ناک صاف کی اے، رویا نئیں اوں، مجھے ڈر نئیں‌ لگتا اے۔۔۔

7ند سوال

آپ ”لوگ“ اتنے بد تہذیب اور بد تمیز کیوں‌ ہوتے ہیں؟
جہالت آپ میں کوٹ کوٹ کر کیوں بھری ہوئی ہے؟
آپ قتل و غارت اور خونریزی کے کیوں‌ اتنے شوقین ہیں؟
علم سے دشمنی آپ کی گھٹی میں کیوں پڑی ہوئی ہے؟
دوسروں کی حق تلفی کرنا، آپ اپنا پیدائشی حق کیوں سمجھتے ہیں؟
آپ خود کو انسان کہلانے پر کیوں بضد ہیں؟
آپ اتنے تنگ نظر اور چھوٹے دل کے کیوں ہیں؟
نفرت، منافقت اور مکاری، آپ کی فطرت کیوں ہے؟
آپ لوگ ”ڈھگے“ کیوں مشہور ہیں؟
آپ کے لہجے اور برتاؤ سے ہر وقت تعصب کیوں چھلکتا رہتا ہے؟


کیا کہا؟
نہیں نہیں، نفرت اور تعصب کی وجہ سے یہ سوال نہیں پوچھے۔۔۔
صرف اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں!

حاجی غلام دین نمازی زکاتی

”تمہاری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تم چوّل ہو“۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے کھیسے سے کے ٹو کی ڈبی نکالی، سگریٹ سلگایا اور لمبا کش لگا کر ناک سے دھواں نکالتے ہوئے سر ہلانے لگے۔
ٹھہرئیے ! پہلے میں ان سے آپ کا تعارف کروادوں۔
ان کا نام حاجی غلام دین نمازی زکاتی ہے۔ چونکئے مت۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حج کرنے کے بعد بندہ اپنے نام کے ساتھ حاجی لگا سکتا ہے تو نماز پڑھنے کے بعد اسے نمازی لکھنے اور زکوۃ دینے کے بعد زکاتی لکھنے کا بھی پورا حق ہے۔ اگرچہ خود انہوں نے صرف اس وقت ہی زکوۃ دی تھی جب حکومت بینک کھاتوں سے زبردستی زکوۃ کاٹ لیا کرتی تھی۔ آج کل کے حالات میں‌جہاد کا ذکر کرنا وہ مصلحت کے منافی گردانتے ہیں‌، اس لئے جہادی لکھنے پر آمادہ نہیں اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے نفس امارہ کے ساتھ جہاد میں مصروف رہتے ہیں۔ میں جب بھی بہت خوش ہوتا ہوں، میرا کوئی کالم ہٹ ہوتا ہے، میرے پروگرام کو اشتہارات زیادہ ملتے ہیں اور نتیجے کے طور پر میرا کمیشن بھی بڑھ جاتا ہے، جب بھی کسی نئے اعلی عہدیدار سے میرے ”دوستانہ“ تعلقات پنپتے ہیں۔ غرض جب بھی میری زندگی میں خوشی کا کوئی موقع آتا ہے میں‌ان کے پاس حاضری ضرور دیتا ہوں۔
میری ان سے ملاقات انجمن تاجران غلہ منڈی کی تقریب حلف برداری میں‌اتفاقا ہوئی اور پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے مجھے اپنی شخصیت کا گرویدہ کرلیا۔ ان کی شخصیت کی سادگی حیران کن ہے۔ بے تحاشا دولتمند ہونے کے باوجود غربت ان کے چہرے اور باتوں‌سے ٹپکتی ہے۔ سادہ خوراک استعمال کرتے ہیں۔ ایک دفعہ تو میں نے انہیں کیک رس، پیپسی میں ڈبو کر کھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے!
اس کے بعد میری ان سے ملاقاتیں جاری رہیں۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کے پیچھے ان کا ہی ذہن کام کرتا رہا ہے۔ آپ اعلی درجے کے عیار، چوٹی کے دھوکے باز اور بے حد عمدہ بے ایمان ہیں۔ ان سے ملنے سے پہلے میں بھی نام نہاد ایمانداری، راست گوئی، اور قلم کی عصمت وغیرہ کا قائل ہوا کرتا تھا۔ لیکن ان کی صحبت میں، مجھے پتہ چلا کہ زندگی میں کامیابی کے گُر کیا ہوتے ہیں!
لیکن آج ان کی بات نے مجھے حیرت زدہ اور غمگین کردیا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور میرے کندھے پر ہاتھ مار کر بولے۔ ”دل چھوٹا نہ کرو۔ چوّل ہونا فی زمانہ ایک خوبی ہے، اس میں بیستی کی کوئی بات نہیں۔ یقین نہیں‌ آتا تو رحمن ملک سے لے کر سلمان تاثیر اور فوزیہ وہاب سے لے کر شیخ رشید تک کسی کو بھی دیکھ لو۔ ایک سے بڑھ کر ایک چوّل ہے۔ اور ان سب کے سردار کا نام تو پوری دنیا جانتی ہے“۔ یہاں‌ تک پہنچتے پہنچتے ان کی آواز بھرّا گئی تھی اور آنکھوں میں فرط عقیدت سے آنسو آگئےتھے۔ میں نے اٹھ کر ان کے گھٹنوں‌ کو چھوا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔