جنّت کی تلاش

یہ یونیورس جب سے کُن فیکون ہوئی ہے۔ جب سے تتھتھّسو ہوئی ہے اس وقت سے جو بھی غلط کام کرتا ہے۔ اسے پنشمنٹ ملتی ہے۔ یہ پنشمنٹ دنیا میں بھی ملتی ہے اور آفٹر لائف میں بھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ ورلڈ یہ یونیورس یہ گلیکسیاں برباد ہو چکی ہوتیں۔ دنیا میں وال ای والا منظر ہوتا۔ خراب روبوٹ اور بلیاں اس دنیا پر راج کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آج بھی ہیومن بئینگز اس دنیا میں موجود ہیں۔ یہ گناہ بھی کرتے ہیں۔ یہ چوریاں بھی کرتے ہیں۔ یہ ڈکوئیٹ بھی ہیں۔ یہ اڈلٹریاں بھی کرتے ہیں۔ یہ بروک بیک ماؤنٹین بن جاتے ہیں۔ کلنگز بھی کرتے ہیں۔ مگر جو بھی پکڑا جاتا ہے اسے پنش کیا جاتا ہے۔ اسے پرزن میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کو زہر کے ٹیکے لگا دئیے جاتے ہیں۔ ہینگ ٹِل ڈیتھ کر دیا جاتا ہے۔ تھیفس کے ہینڈ کَٹ کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ پرزنوں میں سڑ جاتے ہیں۔ ان کو سورج کی روشنی نصیب نہیں ہوتی۔ گرمی سے ان کی کَنڈ پِت سے بھر جاتی ہے۔ رات کو مسکیٹوز ان کا بلڈ سَک کرتے ہیں۔ دن میں فلائیز ان کو سونے نہیں دیتیں۔ ان کی لائف لیونگ ہیل بن جاتی ہے۔

آپ سلطان کو دیکھ لیں۔ آپ ان کی لائف ہسٹری پھرول لیں۔ آپ کو پتہ لگے گا کہ ہول لائف انہوں نے بغیر بتّی کے سیکل نہیں چلائی۔ موٹر سیکل پر ون ویلنگ نہیں کی۔ یہ کار بھی کئیرفلی چلاتے رہے۔ ان کا کبھی چالان نہیں ہوا۔ کبھی انہوں نے ریڈ سگنل نہیں توڑا۔ یہ ہمیشہ اپنی حق حلال کی کمائی سے ہاؤس رَن کرتے رہے۔ یہ کسی سے پانی کا گلاس پینے کے روادار نہیں۔ یہ اتنے فیمس ہونے کے باوجود کبھی ایروگنٹ نہیں ہوئے۔ یہ پرستاروں کی چکن تکّے، بریانی، قورمے، برگر، پیزے کی آفر بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ یہ ان سے کیش لے لیتے۔ یہ اس کیش سے ہر جمعرات چِک پیز پلاؤ کی دیگ پکوا کر ڈسٹری بیوٹ کر دیتے۔ یہ کہتے، کسی کا پیسہ سلطان کیسے اِیٹ سکتا ہے؟ سلطان کو گاڈ آلمائٹی آلموسٹ ایوری تھنگ گرانٹ کر چکا ہے۔

یہ ورلڈ پوائزوں کے لیے ایگزامینیشن ہال ہے۔ خدا اپنے لوّنگ ہیومن بئینگز کو ڈفیکلٹیز میں ڈال کے ایگزامن کرتا ہے۔ سلطان نے ساری زندگی سٹریٹ وے گزاری۔یہ ہمیشہ گاڈ فئیرنگ رہے۔ پھر بھی ان کے حاسدین نے ان کو ایک جھوٹے کیس میں پھنسا لیا۔ یہ پانی کی سبیل پر زنجیر سے بندھا ہوا گلاس چوری کرنے کے الزام میں جیل چلے گئے۔ یہ چاہتے تو اپنے فینز کو بھڑکا سکتے تھے۔ یہ ان کو ہر چیز آن فائر کرنے کا کہہ سکتے تھے۔ یہ اگر چاہتے تو پورے کنٹری پر قبضہ کر سکتے تھے۔ مگر یہ لا ابائیڈنگ سٹیزن ہیں۔ یہ چپ چاپ جیل چلے گئے۔ یہ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بند ہوگئے۔ یہ نیکڈ فلور پر سونے لگے۔ انہوں نے کّدو شریف اور چپاتی سے لنچ اور ڈنر کرنا شروع کردیا۔ یہ اپنے پریزنٹ پر راضی ہوگئے۔

یہ جیل میں ان کا دوسرا دن تھا۔ جولائی کا ہاٹ منتھ اپنے عروج پر تھا۔ اچانک پرزن کے اوپر گہرے بادل چھا گئے۔ کُول بریز چلنے لگی۔ جولائی کا مہینہ نومبر بن گیا۔ نیکڈ فلور اچانک فلاور بیڈ بن گیا۔ فضا میں خوشبو سپریڈ ہونے لگی۔ جیل کے باہر ریڑھیوں والے پی نٹس بیچنے لگے۔ لوگ خرید کے ان کو چھیلتے تو بیچ میں سے کاجو نکلتے۔ یہ لنچ کرنے لگے تو چنے کی دال اور روٹی ایک دم مٹن ٹینڈرلین اور تازہ تندوری نان میں بدل گئی۔ جیل کا گدلا پانی، سپارکلنگ واٹر بن گیا۔ یہ تہجّد کے لیے باتھ لینے لگے تو گندا ٹائلٹ یکدم سیون سٹار ہوٹل کا واش روم بن گیا۔ ان کی چھوٹی سی کوٹھڑی اتنی بڑی ہوگئی کہ اس میں وہ دس کلومیٹر جاگنگ کرنے لگے۔

ان کو تکلیف پہنچانے کے لیے جس دورافتادہ گرم شہر میں ان کو بھیجا گیا تھا وہ گاڈ ولنگ ایک سَب جنّت قرار دے دیا گیا۔ شہر کے لوگ اشارے توڑ کے، جھوٹ موٹ لڑائی جھگڑا کرکے قطار اندر قطار جیل میں آنے لگے۔ جیل کا عملہ جسے سلطان پر ظلم کرنے کا حکم تھا۔ وہ سب یہ دیکھ کر لرز گئے۔ وہ گریہ کرنے لگے۔ وہ خدا سے اپنے سنِز کی پارڈن مانگنے لگے۔ وہ سلطان کے پاؤں پڑ گئے۔ سلطان نے کہا، تمہارا کوئی قصور نہیں۔ تم اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ جاؤ آج سے تم آزاد ہو۔

شام ڈھلتے ہی کوٹھڑی میں ہلکی دودھیا روشنی پھیل جاتی۔ بڑی بڑی آنکھوں والی حسین عورتیں جن کی چِیکز حیا سے پنک ہوتیں، کوٹھڑی ان سے بھر جاتی۔ پھلوں کے رَس سے بھرے بلوریں گلاس سلطان کو پیش کیے جاتے۔ سلطان لیدر کاؤچ پر اپنا سَر پنک گالوں والی کی گود میں رکھے نیم دراز تھے۔ اس نے سلطان کے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سلطان کے ہاتھ سے جوس کا گلاس لیا اور کہا، جانِ عالم! بارہ بج گئے ہیں۔ دودھ پی لیں۔دوسری پنکی نے سلطان کے ریشمی گاؤن میں ہاتھ ڈالا اور آہستگی سے اسے ۔۔۔۔ چررررررر۔۔۔ کرکے پھاڑ دیا۔ فضا میں بھینی بھینی خوشبو تھی اور یہ سونگ گونج رہا تھا۔۔۔

آندیاں نصیباں نال اے گھڑیاں۔۔۔


۔۔اک کمرے میں بند ہوں۔۔۔


شہرِ اقتدار میں سائے لمبے ہونے لگے تھے۔ پہاڑوں کی طرف سے آنے والی ہوا میں ایک تازگی اور بے نام سی افسردگی تھی۔ پرانی مگر عالیشان عمارت پیڑوں میں گھری شام کے دھندلکے میں ہزار بھید چھپائے کھڑی تھی۔ صدر دروازے سے ایک سیاہ گاڑی آہستگی سے پورچ میں آ کے رکی۔ مستعد جوان نے چوکسی سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ ایک وجیہہ الشان شخصیت گاڑی سے باہر نکلی۔ پیشانی کی کشادگی اور آنکھوں کی چمک بلند بختی کا اعلان کر رہی تھی۔ سفید لباس، نیلی واسکٹ، نیو بیلنس کے سنیکرز، سیاہ چشمہ، چال میں ہلکی سی للک۔

ان کا استقبال کرنے والوں میں چھریرے بدن، تیکھے نقوش والے صاحب تھے۔ انہوں نے گرمجوشی اور عقیدت سے وجیہہ کا ہاتھ تھاما اور چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ چوکس جوان کی رہنمائی میں دونوں احباب ڈرائنگ روم میں پہنچے۔سنٹر ٹیبل انواع و اقسام کے فواکہات و مقویات سے سجی تھی۔ وجیہہ نے بیٹھنے سے پہلے مقویات کی ایک مٹھی بھری اور صوفے پر صاحب کے ساتھ جُڑ کے بیٹھ گئے۔ بادام پستوں کا ایک پھکّا مار کے منہ چلاتے ہوئے وجیہہ کی آنکھوں میں برسات سی اتر آئی۔ ریڈ بُل کے گھونٹ سے نٹس نگل کے صاحب سے لپٹ سے گئے۔

وجیہہ نے قمیض کے دامن سے آنکھیں پونچھیں اور بھرّائی ہوئی آواز میں بولے، "بہت مِس کیا ہے تمہیں۔ کیا کوئی اپنے چاہنے والوں سے یوں کرتا ہے؟ گلے شکوے تھے تو مجھے کہا ہوتا۔ میں تمہاری ایک آواز پر دوڑا چلا آتا۔ تمہارے بن کیسے یہ دن گزرے ہیں یا خدا جانتا ہے یا پنبیری جانتی ہے۔"

صاحب پر رقّت طاری ہونے لگی تھی۔ بہت مشکل سے خود کو سنبھالا اور اپنا بازو وجیہہ کے گرد حمائل کرکے ان کو زور سے بھینچا۔ "میں بہک گیا تھا جانی۔ ایک سٹیل کے گلاس کے ذریعے مجھ پر جادو کر دیا گیا تھا۔ مجھے وہی کچھ نظر آنے لگا تھا جو شیر خان اور مولوی خلیل مجھے بتاتے تھے۔ انہوں نے مجھے تمہارے بارے من گھڑت کہانیاں سنائیں۔ کچھ تو بہت گندی تھیں۔ ساتھ کچھ تصاویر اور فلمیں بھی دکھائیں۔ میں ایک صاف دل اور سادہ انسان ہوں۔ میں نے ان کو سچ مان لیا۔" صاحب نے تاسّف سے سر نفی میں ہلایا۔ ڈن یل کی ڈبّی اٹھا کر سگریٹ نکالا تو وجیہہ نے ہاتھ پکڑ لیا۔ بولے، سگریٹ مت پیا کرو۔ دیکھو کتنا سا منہ نکل آیا ہے۔ یہ کہہ کر واسکٹ کی اندرونی جیب سے پلاسٹک کی تھیلی نکالی اور سائیڈ ٹیبل پر تھوڑا سا سفوف انڈیلا۔ صاحب سے کریڈٹ کارڈ لے کر سفوف کو چار لکیروں میں تقسیم کیا اور صاحب سے بولے، بسم اللہ کرو۔ صاحب نے ہچکچا کر انکار کیا۔ وجیہہ نے بھی اصرار نہیں کیا اور پانچ سو کا کڑک نوٹ نکالا۔  اس کو رول کرکے چاروں لکیریں کھینچ لیں۔ وجیہہ کا چہرہ مزید نورانی ہو چکا تھا۔ انہوں نے سر اوپر کرکے گہرا سانس لیا۔ ناک میں چھوٹی انگلی سے خلال کیا اور صاحب سے مخاطب ہوئے، "یہ پنبیری کے پیر صاحب کا خاص دم کیا ہوا سفوف ہے۔ موت کے علاوہ ہر بیماری کی دوا ہے۔ ہر چیز واضح نظر آنے لگتی ہے۔ میرے لیے تو یہ مرشدوں کا تبّرک ہے۔"

صاحب نے چائے کا کپ اٹھا کے ہلکا سا سپ لیا۔ رومال سے ہونٹوں کے گوشے صاف کیے۔ نمک پارہ اٹھا کے تھوڑا سا کھایا۔ باقی پرچ میں کپ کے ساتھ رکھ کے بولے، "آج سے چند دن پہلے عجیب ماجرا ہوا۔ شام کو لان میں بیٹھا تھا کہ پہاڑوں کی طرف سے آنے والی ہوا میں ایسی بُو آئی جیسے گوشت جل رہا ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ طبیعت کچھ مکدّر سی ہوئی۔ اندر جا کے چائے بھی پی۔ لیکن عجیب سا اضمحلال طاری تھا۔ اسی عالم میں نیند آگئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مارگلہ کے جنگلات میں آگ لگی ہے۔ شعلے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ ان شعلوں میں ایک بزرگ کی شبیہہ نظر آئی۔ کالے چوغے میں ملبوس، سر بھی کالے کپڑے سے ڈھکا ہوا، ہاتھ میں ایک عصا جس کے سرے پہ عجیب سا دھاتی پھل تھا، بزرگ نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور گونج دار آواز میں بولے۔۔۔ وجیہہ کو بچاؤ۔۔۔ ورنہ سب کچھ برباد ہو جائے گا۔ میں ہڑبڑا کر جاگ اٹھا۔ یہ خواب مجھے سات دن مسلسل آیا۔ اس کے بعد میں نے فیاض سے رابطہ کیا۔ شیر خان اور مولوی خلیل کی کہانیوں بارے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ وجیہہ ایک اپ رائٹ اور آنسٹ انسان ہے۔ اس نے کبھی کوئی حرامزدگی نہیں کی۔ اس کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ تم پر ضرور کسی نے جادو کیا ہے۔ میں تمہیں ایک بزرگ کا پتہ بتاتا ہوں جو پھونکوں سے جادو کا اثر ختم کر دیتے ہیں۔ میں نے فیاض کے پیر سے رابطہ کیا۔ اس نے پھونکوں سے مجھ پر کیے گئے جادو کا اثر ختم کر دیا۔ اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تمہارے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔ اسی لیے آج تمہیں بلایا ہے۔"

یہ کہہ کر صاحب وجیہہ سے لپٹ گئے۔ دور کہیں آل انڈیا ریڈیو پر"تعمیلِ ارشاد"  میں یہ گانا بج رہا تھا۔۔۔

ہم تم اک کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو جائے

چودھری صاحب سے ایک ملاقات

 

یہ صحافت میں مور دین تھری ڈیکیڈز سے ہیں۔ یہ پاکستان میں کالم نگاروں کے فادر ایڈم ہیں۔ قاسم علی شاہ جیسے ان کے کالم پڑھ پڑھ کے آج ایک لیکچر کے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ یہ ایک بمباٹ اینکر بھی ہیں۔ ان کی سکرین پریزنس بروس لی سے کم نہیں۔ یہ خانزادے کو بھی کِک کرا چکے ہیں۔ یہ طویل قامت ہینڈسم ہَنک ہیں۔ ان کی گہری جھیل جیسی آنکھوں میں کئی ممالک کی حسینائیں باری باری غوطے کھانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ لیکن یہ ایک گجّر ہیں۔ انہیں دودھ کی پاکیزگی کا جماندرو احساس ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ ایک کلو دودھ کو کاڑھیں تو بمشکل چند گرام کریم بنتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے ویلڈنگ والی دکان پر بیٹھ بیٹھ کر اپنی نظر کمزور کی تاکہ موٹے شیشوں والی عینکیں پہن سکیں۔ یہ عینک پہن کر ہونق لگتے ہیں مگر اس کی وجہ سے حسینائیں ان کا پیچھا چھوڑ چکی ہیں۔ اسی کارن یہ کئی کلو کریم آج تک سیو کر چکے ہیں۔

میں جب ان کے گھر پہنچا تو صبح کے دس بجنے والے تھے۔ یہ ایک معمولی سا فارم ہاؤس تھا۔ گیٹ کھڑکایا تو اندر سے ڈوگ بارکنے لگا۔ میں ڈر گیا۔ گیٹ تھوڑا سا کھلا اور اس میں سے ان کی سِری برآمد ہوئی۔ مجھے دیکھ کر یہ ایک دم ہیپی ہوگئے۔ مجھے اندر آنے کو کہا۔ میں نے کہا، پہلے کتا باندھ لیں۔ ہنہنا کر بولے، وہ تو ریکارڈنگ ہے۔

ان کا فارم ہاؤس قیمتی پینٹنگز، مینٹل پیسز سے سجا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جب بھی یورپ کے ٹور پر جاتے ہیں۔ وہاں میوزیم وزٹ کرتے ہیں۔ ان کے حلیے سے سب انہیں یملا سمجھتے ہیں۔ وہ اس کا فائدہ اٹھا کر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی پیس پار کر لیتے ہیں۔ ان کو لٹریچر سے بھی لگاؤ ہے۔ یہ کبھی جاسوسی، سسپنس کا شمارہ مِس نہیں کرتے۔ ان کے پسندیدہ رائٹرز میں یہ خود، ایم اے راحت، محی الدین نواب اور عمران خان شامل ہیں۔ یہ ان کی آڈیو بُکس کے دیوانے ہیں۔ یہ کہتے ہیں رومانس کو اس طرح آج تک کوئی رائٹر ڈسکرائب نہیں کر سکا۔ انہوں نے رومانس کپتانی انداز میں ڈسکرائب کرنے کی ٹرائی بھی کی لیکن ان کی زوجہ نے ان کو بہت مارا۔ یہ کئی دن بیڈ ریسٹ پر رہے۔ منہ بھی سوجا رہا۔

ان کی بیگم کو ان سے عشق ہے۔ یہ جہاں بھی جائیں وہ ان کے ساتھ جاتی ہیں۔ یہ ان سے دور بھی جانا چاہیں تو وہ ان کو سونگھ کر پیچھے آجاتی ہیں۔ اس بات پر میں ہنس پڑا۔ یہ مائنڈ کر گئے۔ یہ سائیڈ ٹیبل پر پڑا قلوپطرہ کا مجسمہ اٹھا کر مجھے مارنے کو لپکے۔ میں بھاگ کے باہر لان میں درخت پر چڑھ گیا۔ یہ بیگم کو آوازیں دینے لگے، "رحیلہ۔۔۔۔ میری شَرلیاں آلی بندوق لیا۔۔ اج میں اینہوں نئیں شڈناں۔۔"۔

میں نے پتوں سے سر نکال کے پوچھا، آپ کو ایک دم اتنا غصہ کیوں چڑھا؟۔ کہنے لگے تم نے سونگھنے والی بات پر ہنس کر میرا مذاق اڑایا ہے۔ میں گجّر ہوں۔ تم نے ریسسٹ بن کے سوچا کہ یہ نہاتا نہیں ہوگا اس لئے سمیل آتی ہوگی اور بیگم اس کو پکڑ لیتی ہوگی۔ ایسی بات نہیں ہے۔ اکتوبر کا تیسرا ہفتہ ہے اور میں تقریبا ہر دو ہفتے چھوڑ کے نہاتا ہوں۔ میں تمہاری اس ہنسی کو پنش کروں گا۔ بس میری بندوق آلینے دو۔

اتنی میں ان کی بیگم اندر سے ڈوئی سمیت نمودار ہوئیں۔ گھور کے ان کو دیکھا اور بولیں، اندر بیٹھک میں جا کے بیٹھ کر انسانوں کی طرح مہمان سے باتیں کریں۔ اتنے ٹچی ہیں تو ہر دوسرے دن نہا لیا کریں۔ میں یہ ڈرامے برداشت نہیں کروں گی۔

یہ ہنس دئیے۔ مجھ سے کہنے لگے، میں تو شغل لگا رہا تھا۔ میں بہت فنی ہوں۔ جرنلزم میں نہ ہوتا تو آج لاہور کے تھئیٹر میں پرفارم کر رہا ہوتا۔

یہ بہت کیژول ہیں۔ یہ محفل میں بیٹھے بیٹھے نَوز سے ریٹس نکالتے رہتے ہیں۔ یہ ان ریٹس کو ٹیبل کی نچلی طرف چپکا دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کہنے لگے، آکسیجن انسانی زندگی کے لیے سب سے ضروری ہے۔ اگر نوز میں ریٹس زیادہ ہو جائیں تو انسان کی سانس بند ہو سکتی ہے۔ یہ ریسٹ ان پِیس ہو سکتا ہے۔ میں ان ریٹس کو نکال کے اپنی لائف بچاتا ہوں۔ زندگی بچانے کا تو حکم بھی ہے۔

چائے بن کے آئی تو ساتھ کٹے ہوئے کھیرے اور ثابت مولیاں تھیں۔ کیچپ اور مایونیز کی بوتلیں بھی رکھی تھیں۔ یہ کھیرا کیچپ سے لبیڑ  کر منہ میں ڈالتے اور ساتھ چائے کا گھونٹ بھرتے۔ مجھے بھی انسسٹ کرنے لگے کہ تم بھی ایسے کھاؤ۔ بہت مزا آئے گا۔ میں نے کہا، مجھے میرے ڈاکٹر نے مزے لینے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ کوئی وجہ تو ہونی چاہیئے۔ اس پر میں نے ڈاکٹر صاحب کا مزے نہ لینے والا قول دہرایا۔ وہ سن کر ان کو اچھو لگ گیا۔ میں نے مایونیز چٹائی تو سانس بحال ہوا۔

یہ جرنلزم میں جیلسی سے بہت ہرٹ ہیں۔ یہ کہنے لگے، میرے زیادہ تر کولیگز فیلئیر ہیں۔ یہ میرے بارے غلط باتیں مشہور کرتے ہیں۔ میں نے اس ملک اور جرنلزم کی جتنی خدمت کی ہے کوئی اس کے پاسنگ بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ان سب کو میں نے ہر شہر میں پلاٹ لے کر دئیے۔ ان کی منتھلیاں لگوائیں۔یہ رات ڈَرنک ہو کر ہنگامہ کرتے تو میں ان کو تھانے سے چھڑا کر لاتا۔ اکثر ان کی بیویوں سے جھوٹ بولتا کہ یہ تو میرے ساتھ ترابیاں پڑھنے گیا ہوا تھا۔ یہ موتیے کے ہار کوئی مولوی صاحب کے لیے لایا تھا۔ اس نے وہاں سے ایک اٹھا لیا۔ اور یہ نشے میں نہیں بلکہ کوئی شوقین مرید ختم کی مٹھائی میں بھنگ ڈال کے لے آیا تھا۔ اس نے تین چار ڈلیاں برفی کی کھا لیں۔ اسی وجہ سے مدہوش ہے۔ میں ایک آنسٹ اور اپ رائٹ ہیومن بئینگ ہوں۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن ان کو بچانے کے لیے میں جھوٹ بھی بولتا رہا۔ آج یہ مجھے ملک صاحب کا نوکر کہتے ہیں۔ میری انٹیگرٹی پر سوال اٹھاتے ہیں۔جس دن میں نے ان کے بارے سکسٹی نائن پرسنٹ بھی بتا دیا تو یہ منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے۔

یہ سب کہہ کر یہ نڈھال سے ہوگئے۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ آواز بھرّا گئی۔ انہوں نے نَوز سے ٹٹول کر رَیٹ ڈھونڈا ۔ اسے قلوپطرہ کے مجسمے پر چپکایا۔ اور فریش ہو کر سانس لینے لگے۔

آخری معرکہ

 

ممثّل بے بدل پنکج ترپاٹھی نے کہا تھا۔۔۔ "گاؤ بھوس٭٭ کے"۔ وقت آن لگا ہے، کپتان ہم سے کہے۔۔۔ "اٹھو۔۔بھوس٭٭ کے"

ارمان مسلے جاتے ہیں۔ خواہشیں حسرت بن جاتی ہیں۔ جس کے ساتھ مل کر بچوں کے نام سوچےجاتے ہیں وہ کسی عبداللطیف کی چوکڑی کو جنم دے رہی ہوتی ہے۔ یہی دنیا ہے۔ یہی مایا۔ کارِ ناکام ہے یہ ۔۔ کارِ ناکام۔

یک سال ادھر سب کچھ کہ ہنکی ڈوری تھا۔ فضائیں مشکبو۔ پسینے گلاب۔ دن کو چنتا نہ رات کو خواب۔ سورج ڈھلتے مغرب ادا ہوتی۔ یارانِ خوش جمال چوتھے مالے پر جمع ہوتے۔ موسیقی کہ روح کی غذا ہے، حسن کہ نفس کا آبِ حیات۔ رُوم رُوم سے صدا اٹھتی۔۔۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔۔ وہ ٹھنگنا نابغہ کہ دنیا جسے عامر خان کے نام سے یاد کرتی ہے۔۔۔ کیا خوب کہتا تھا۔۔۔ اڑتا ہی پھروں ان ہواؤں میں کہیں۔۔یا میں جھول جاؤں ان گھٹاؤں میں کہیں

دوام مگر سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ جانے کس بدخصال کی نظرِ بَد تھی۔ سب ختم ہوگیا۔ سوچو تو لگتا ہے جیسے کوئی خواب تھا۔ اقبال کا خواب پورا کرتے کپتان خود خواب ہوچلا۔ انسان چیخ اٹھتا ہے۔

دنیا بنانے والے کیا تیرے مَن میں سمائی۔۔۔ تو نے کاہے کو دنیا بنائی۔۔۔

جاڑے کی ایک شب کپتان سے خلوت ہوئی۔ عرض کی، اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے۔ کپتان ہنسا۔ طالبعلم کی ٹنڈ پر چپت لگائی۔ موج میں تھا۔ ایک اور لگائی۔ طالبعلم نے بھنے گوشت کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ بڑا ٹکڑا منہ میں ڈال کر چباتے ہوئے کپتان نے آنکھ میچ کر یہ شعر پڑھا،

بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ

مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے

لٹیرے مگر کائیاں نکلے۔ عیّار۔ سپہ سالار کہ اکل کھرے سپاہی۔ کان ان کے بھر دئیے۔ کپتان کو دیوث بنا کر دکھا دیا۔ سپاہی مگر سادہ دل۔ عیّاری سے ان کو علاقہ نہیں۔ دنیا کہ بدلنے جا رہی تھی۔ امّت مسیلمہ کا رہنما۔ دنیا جس کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے کو تھی کہ ۔۔

مجھے اپنوں نے مارا، گیروں میں کہاں دَم تھا

میری کِشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا

ایسا لیڈر صدیوں میں گاہ گاہ۔ قوم مگر اپنی خوش قسمتی سے بے خبر اس کو ضائع کرنے پر مصر۔ امکانات کی ایسی دنیا کہ وطن جنت بن جائے۔ اس کے لیے مگر اٹھنا ہوگا۔ پوری قوم شیشہ پلائی دیوار کی طرح کپتان کی آواز پر اکٹھی ہو۔ گولیاں وہ کھا چکا۔ موت کا خوف اس کو کبھی نہ تھا۔ اب تو جان پاجامے میں لیے پھرتا ہے۔ ڈرا وہ اس کو سکتے نہیں۔ قوم کو سمجھنا ہوگا ۔۔ ڈر کے آگے جیت ہے۔

ممثّل بے بدل پنکج ترپاٹھی نے کہا تھا۔۔۔ "گاؤ بھوس٭٭ کے"۔ وقت آن لگا ہے، کپتان ہم سے کہے۔۔۔ "اٹھو۔۔بھوس٭٭ کے"

لیجنڈ آف رولا جٹ

 

کائنات کی وسعت تخیّل کی حدود سے ماورا ہے۔ عام ذہن اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ کوانٹم فزکس کی رُو سے بہت سی دنیائیں وجود رکھتی ہیں جن میں ہر طرح کے ممکنات ہیں۔ روحانیت واحد رستہ ہے جس کے ذریعے ان دنیاؤں تک رسائی ممکن ہے۔ اس درجے تک پہنچنا بہت کٹھن ریاضت کا متقاضی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس رستے کے ذریعے مختلف دنیاؤں میں سفر کر کے وہاں کی خبریں لا سکتے ہیں۔

دنیا میں خیر و شر کی کشمکش ازل سے جاری ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے دن تک مؤخر ہے۔ اس جنگ کا موجودہ میدان ٹیکنالوجی ہے۔ دجالی قوتوں کے پاس روحانیت کے متضاد یعنی کالے جادو کے بعد اب ٹیکنالوجی کی طاقت بھی آچکی ہے۔ یہ ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ عام انسان کے لئے ان کا تصور بھی ممکن نہیں۔ تمہید طویل ہو چکی لیکن قصّہ ایسا محیّر العقول ہے کہ سیاق و سباق لازم تھا۔

پہلے کسی مضمون میں بیان کیا جا چکا ہے کہ عالمی وباء کو کیسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہوئی اور ماضی میں جا کے کیسے کپتان کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا جو روحانی اقتدارِ اعلٰی کی بروقت مداخلت سے ناکام بنایا گیا۔ کپتان روحانی طاقتوں کا نمائندہ ہے جو بدی کی طاقتوں کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔ کپتان کے ذریعے ہم اس عظیم معرکہ تک پہنچیں گے جسے انسانی شعور ہرمجدون کے نام سے جانتا ہے۔

کپتان کی جوانی خراب کرنے کی کوششیں ناکام بنائی گئیں۔ اس کے بعد کپتان کے بچپن کو نشانہ بنایا گیا۔ اس منصوبہ کو بھی خاک چٹائی گئی۔ 2018 وہ ڈیڈ لائن تھی جس کے بعد کپتان کو لانا ناممکن ہو جاتا۔ اس سال پوری روحانی دنیا کمر کَس کے کپتان کی حمایت میں سامنے آئی اور وہ عظیم منصوبہ شروع ہوا جس کے اختتام پر ہرمجدون برپا ہوگا۔ خیر کی ساری طاقتیں کپتانی جھنڈے تلے اکٹھی ہونی شروع ہوئیں۔ ایک عظیم مسلم ریاست جس کا خواب نور الدین زنگی، صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، جمال الدین افغانی، علامہ اقبال اور خلیل الرحمن قمر نے دیکھا تھا، اس کی بنیاد پڑی۔

اس ریاست کے خلاف سازشیں پہلے دن سے شروع ہوگئیں۔ شیطانی طاقتوں کے نمائندے کپتان کی کردار کشی سے لے کر اس کی کرپشن کے قصوں تک ہر طرح کا حربہ استعمال کرنے لگے۔

اعلی عہدوں پر موجود کچھ لوگ روحانیت سے نابلد ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کو نہ سمجھ سکے اور شیطانی طاقتوں کے نمائندوں پر یقین کرلیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ کپتان کو بظاہر اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ اس پر وہ الزام عائد کئے گئے جو بدترین دشمن بھی اس پر عائد نہ کر سکے تھے۔ ایک دفعہ کلائیو لائیڈ سے پوچھا گیا کہ کیا کپتان میچ فکسنگ کرتا ہے؟ ان کا چہرہ متغیّر ہوگیا۔ رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا کہ میں اپنی ولدیت پر شک کر سکتا ہوں لیکن یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ کپتان کرپٹ ہے۔ ایلن لیمب جو کپتان کا جانی دشمن تھا۔ اس سے عدالت میں سوال ہوا کہ کیا کپتان نے کبھی ریورس سوئنگ کرنے کے لیے گیند پر ڈھکن لگایا؟ اپنے ہی کیس میں لیمب جیسا دشمن بھی نہ چاہتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ مجھے لالچ دے کے یہ کیس کرنے پر مجبور کیا گیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ کپتان کلین ہے۔ اس نے آج تک کسی گیند پر ڈھکن نہیں لگایا۔ اسی کے ساتھ ہی جج نے کیس کا فیصلہ کپتان کے حق میں کر دیا۔

ریکھا سے کسی نے پوچھا کہ کیا کپتان کے ساتھ تمہارا کوئی ناجائز تعلق تھا تو وہ آہ بھر کے کہنے لگیں کہ میری بڑی خواہش تھی لیکن ایسا لنگوٹ کا پکّا مرد میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ میں ایک رات اس کے ہوٹل کے کمرے میں ویٹرس کے روپ میں دھوکے سے چلی گئی۔ وہاں کیا دیکھتی ہوں کہ کپتان مصلے پر سجدے میں پڑا ہچکیوں سے رو رو کے دعائیں کر رہا ہے کہ یا اللہ پاکستان کو ہندوستان کے خلاف فتح عطا فرما۔ ریکھا کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میری گھگھّی بندھ گئی۔ میں نے اسی وقت کپتان کو سجدے سے اٹھا کر اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور اس کی بہن بن گئی۔

روحانی طاقتیں کپتان کی اس بے وقعتی پر خاموش نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔ خیر اور شر کی فیصلہ کن جنگ کا سپہ سالار اگر سیشن ججز کی عدالتوں میں دھکے کھاتا پھرے گا تو ہرمجدون کیسے برپا ہوگا۔ فیصلہ کن وار کے لئے کپتان کو آخری معرکہ کا گرین سگنل دے دیا گیا۔ کپتان نے ماؤزے تنگ کے طریق پر ایسا لانگ مارچ تشکیل دیا جس کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کروڑوں لوگ جب کپتانی کنٹینر کے ساتھ "امر بالمعروف" کے نعرے لگاتے نکلے تو شیطانی طاقتوں کی سٹّی گم ہوگئی۔ سیٹلائٹس سے حاصل ہونے والی تصاویر نے شیطانی قائدین کے حواس گم کر دئیے۔ دیوارِ چین کے بعد واحد چیز جو واضح نظر آرہی تھی وہ انسانوں کی دیوارِ کپتان تھی جو لحظہ بہ لحظہ دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی تھی۔

اگر کپتان منزل تک پہنچ جاتا تو یہ شیطانی قوتوں کی بدترین ہزیمت ہوتی۔ کپتان کو روکنے کے لیے ایسا منصوبہ بنایا گیا جس کی مثال کسی فکشن، فلم یا خواب میں بھی نہیں مل سکتی۔ ایک مجہول سے نوجوان کی برین واشنگ کی گئی۔ اسے دیسی ساختہ معمولی سا پستول دیا گیا تاکہ منصوبے کو حقیقت کا رنگ دیا جاسکے۔ "سٹرینجر تھنگز" کی ایول ورلڈ جو بعینہ ہماری دنیا جیسے ہوتی ہے لیکن بالکل الٹی سمت میں۔ اس دنیا میں سنائپر کو بھیجا گیا۔ تاکہ وہاں سے کپتان کے سر کا نشانہ لے سکے۔ جس وقت سنائپر فائر کرتا اسی وقت مجہول نوجوان سے بھی فائرنگ کروائی جاتی تاکہ کسی روحانی دنیا والے کو خبر نہ ہو سکے کہ کیا گیم ڈالی گئی ہے۔

شیطانیت کے پجاری اب تک یہ سمجھتے رہے کہ کپتان کو صرف روحانی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے اور کپتان کو روحانیت کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں۔ یہاں وہ مار کھا گئے۔ کپتان کے روحانی درجات اتنے بلند ہیں کہ روحانی مدارس میں کپتان پر لکھی کتاب نصاب میں شامل ہے۔ جس کا عنوان "کپتان پاک کی روحانی عظمتیں" ہے۔ کوئی بھی طالبعلم اس کو پڑھے بغیر امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

جیسے ہی ایول ورلڈ میں سنائپر گوجرانوالہ کے باہر پہنچا اس وقت کپتان کنٹینر کی چھت پر کھڑا تھا۔ سنائپر نے رائفل سیدھی اوپر کی طرف کی۔ ہماری دنیا اسے اپنے سر کے اوپر الٹی نظر آرہی تھی۔ کپتان کا سر سامنے سے گھنے بالوں اور پیچھے ایک کیوٹ سے گنج سے سجا تھا۔ سنائپر نے نشانہ لیا۔ بلٹ لوڈ کی اور ٹریگر دبا دیا۔ جیسے ہی گولی ایول ورلڈ گوجرانوالہ سے ہمارے گوجرانوالہ میں داخل ہوئی۔ کپتان کی روحانیت نے اسے خطرے کا سگنل دیا۔ کپتان نے ایک سیکنڈ کے دس اربویں حصے میں الٹی فلائنگ کِک لگاکر گولی کو ہزاروں ٹکڑوں میں بدل دیا۔ یہ ٹکڑے واپس ایول ورلڈ میں گئے اور سنائپر کو چشمِ زدن میں گوشت کے لوتھڑوں میں بدل دیا۔ یہی خون ایول ورلڈ الٹی ہونے کی وجہ سے کنٹینر پر آگرا اور سینیٹر فیصل جاوید لہو میں لت پت ہوگئے۔ سنائپر کی ران کی ہڈی کا ایک ٹکڑا بھی ان کے گال پر لگا جس سے گہرا زخم آیا۔

وہاں  موجود کروڑوں لوگ، کیمرے، موبائل بھی اتنی تیز حرکت کو کیپچر نہ کرسکے۔ یہ سب انسانی اور ڈیجیٹل آنکھ کی رفتار سے کہیں زیادہ تھا۔ یہ روحانیت کی رفتار تھی۔ سب کو یہ لگا کہ کپتان کو گولی لگی ہے اور وہ گر گیا ہے۔ الٹی قلابازی لگانے کی وجہ سے کپتان کنٹینر کے فرش پر آگرا تھا۔ اپنا راز محفوظ رکھنے کے لیے کپتان نے کنٹینر کی تیز دھار دھات سے پنڈلیوں پر زخم لگا لیے۔ آگے جو ہوا اس سے ہم سب واقف ہیں۔

اس طرح حق و باطل کی جنگ کا ایک اور معرکہ کپتان کے نام ہوا۔ روحانی طاقتوں کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ کپتان ہی امت مسلمہ کا رہنما ہے اور وہی اس جنگ میں ہماری قیادت کرے گا۔

گوگی اور جوگی

 میدان سے سطح مرتفع ہونے والی عمر سے گوگی جس کے عشق میں مبتلا تھی اب وہ دیوتا اس کی دسترس میں تھا۔ شاعر نے کہا تھا "قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا" مگر گوگی کے پھیروں نے بالآخر عرفان کے دل میں وہ بھانبھڑ مچا دیا تھا جو گوگی کا تن بدن  اوائل شباب سے جھلسا رہا تھا۔

گوگی کارسے اتری۔ اک ادائے بے نیازی سے عرفان کی طرف دیکھا جو مبہوت گوگی کی سلیولیس بلیک چکن شرٹ سے جھانکتے گلابی بدن کو تَک رہا تھا۔ وائٹ سکن ٹائٹ ٹراؤزر اس کی سڈول پنڈلیوں سے لپٹا اپنی قسمت پر ناز کررہا تھا۔ گوگی نے کالی عینک اتاری اور عرفان کے چہرے کے سامنے ہاتھ لہرا کے بولی، "مانا جی۔۔۔ کدھر گم ہیں؟" ۔

عرفان ایک دم چونکا۔ کھسیانا ہو کر منہ بھینچا اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا، ۔۔۔ میں نصرت کو سن رہا تھا پتہ ہی نہیں چلا کہ تم آئی ہو۔ گوگی معنی خیز انداز میں آنکھیں گھما کر عرفان کے سامنے پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔

عرفان کے لئے عورتیں اور ان کی توجہ زیادہ اہم نہیں تھی۔ اس نے ساری زندگی قسم قسم کی عورتوں سے تعلق بنائے۔ ان سے ہر طرح کے فائدے اٹھائے۔ ابھی تک یہ تعلق قائم تھے۔ لیکن گوگی کے سامنے اس کی بولتی بند ہوجاتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ اب وہ زندگی کے اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ کوئی عورت اسے لبھا نہیں سکتی۔ گوگی نے اسے لبھانے کی کبھی کوشش نہیں کی لیکن اب عرفان کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح گوگی کے سامنے اپنا دل کھول دے تاکہ اس کے بعد باقی چیزیں کھولنے کی نوبت آئے۔

گوگی نے میز پر پڑی گولڈ فلیک کی ڈبّی اٹھائی۔ اس میں سے مُڑے ہوئے سِرے والا سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبایا اور اشارے سے عرفان کو جلانے کا کہا۔ عرفان دم بخود ہو کر یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے ماچس اٹھا کر تیلی جلائی اور گوگی کو سگریٹ لگوایا۔ گوگی نے لمبا کَش لے کر تھوڑی دیر سانس روکا۔ پھر ناک سے دھواں نکالتے ہوئے عرفان کی طرح دیکھا تو وہ شدّت جذبات سے عنابی ہو رہا تھا۔ عرفان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گوگی اس کے دل کے تارے ایسے چھیڑے گی۔ ساتھ کھایا پیا تو بھول سکتا ہے لیکن جس کے ساتھ چرس پی ہو وہ آپ کی زندگی کا اٹوٹ انگ بن جاتا ہے۔ گوگی اب اس کا پیار ہی نہیں بلکہ سول میٹ بن گئی تھی۔

فضا آہستہ آہستہ خالص چرس کی خوشبو سے معطر ہو رہی تھی۔

ایک اور کَش لے کر گوگی نے سگریٹ عرفان کی طرح بڑھایا اور کہا، "مانے! میرا جوٹھا پی لوگے؟"۔ عرفان نے آہستگی سے سگریٹ اس کے ہاتھ سے لیا۔ درمیانی انگلیوں میں دبا کر مٹھی بنائی۔کنجر کش لیا۔ سگریٹ انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے دور پھینکا۔ کرسی سے اٹھ کر گوگی کے پاس گیا۔ اسے بانہوں میں اٹھایا اور لان سے ملحق انیکسی میں لے گیا۔

انیکسی میں جا کر عرفان نے گوگی کو منجی پر آہستگی سے رکھا تو گوگی کسمسا کر عرفان سے الگ ہوگئی۔ انگشت شہادت دائیں سے بائیں گھما کر بولی، "مانے، ابھی نہیں۔ جب میں کہوں گی تب۔" عرفان توجیسے گوگی کا معمول بن گیا تھا۔ وہ گوگی قدموں میں بیٹھ کر اس کی پنڈلیوں سے لپٹ گیا۔

"تم جیسا کہو گی، ویسا کروں گا۔" عرفان اسکی ٹانگوں سے لپٹا ہوا منمنایا۔

ساری زندگی کا خواب، گوگی ایسے برباد نہیں کر سکتی تھی۔ وہ عرفان سے بالکل ویسے ہی ملنا چاہتی تھی جیسے آج تک وہ خواب میں دیکھتی آئی تھی۔ شام کے جھٹپٹے میں چرس آلود سانسوں کے ساتھ چھوٹی سی انیکسی کی ڈھیلی منجی ہرگز وہ جگہ نہیں تھی جو اس نے تصور میں بسائی تھی۔

اگلے چند دن گوگی نے خواب کو حقیقت بنانے کی تیاریوں میں گزارے۔

اسلام آباد کے مضافات میں دھیمی بہتی ہوئی ندی کا ٹھنڈا پانی، اطراف سر سبز پہاڑ، جنگلی پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو، تنہائی اور سکون۔ گوگی جب سے عرفان اکرم سے ملی تھی اس نے مناسب جگہ ڈھونڈنی شروع کردی تھی۔ یہ سپاٹ اسے ہفتوں کی ریکی کے بعد ملا۔ وہ وقت آگیا تھا جب اس کا خواب پورا ہوتا۔ گوگی نے عرفان کو پورا سکرپٹ اچھی طرح سمجھا دیا تھا۔

بیری کے درخت پر ٹنگے سانیو کے ٹیپ ریکارڈر سے انورادھا پوڈوال کی آواز وادی میں گونج رہی تھی۔۔۔ کسی دن بنوں گی میں راجہ کی رانی۔۔۔۔ گوگی نے ندی کے پانی میں ڈبکی لگائی۔ لہرا کر کھڑی ہوئی،گیلےبال جھٹکے اور تھوڑا سا شرمائی۔ پانی اس کی کمر سے نیچے تھا۔ بھیگے ملبوس میں ترشے ہوئے بدن کا طلسم ۔ مانو تو جیسے وقت رک گیا ہو۔

عرفان چھوٹی پہاڑی سے ماؤنٹین بائیک چلاتا ہوا نیچے آرہا تھا۔ ندی کے پاس پہنچ کر وہ رکا۔ بائیک سے اترا۔عینک اتار کر گریبان میں اڑسی۔ جینز کی پچھلی جیب سے مڑا تڑا سگریٹ نکال کر سلگایا۔ آںکھیں موندیں۔کش لگایا۔ گوگی کو انتہائے شوق سے دیکھا اور ندی کی طرف لپکا۔ ابھی پانی میں پیر رکھا ہی تھا کہ ہڑبڑا کر پیچھے ہٹ گیا۔ گوگی نے حیرانی سے پوچھا، کیا ہوا؟ عرفان اکرم نے پے در پے پکّے کے کش کھینچے۔ ہاتھ ایک دوسرے سے  رگڑ کر بغلوں میں دئیے۔ منہ بھینچ کر مردنی سے بولا،

"سرکار۔۔۔ ایناں ٹھنڈا پانی؟۔۔"

صدام، اسلام اور کپتان

 

‏لڑکپن کے اختتام کا قصہ ہے۔ برسات کی حبس زدہ شام پی ٹی وی کے خصوصی بلیٹن میں بتایا گیا کہ عراق نے کویت پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا ہے۔ ہمیں سمجھ تو نہیں آئی لیکن ایسا محسوس ضرور ہوا کہ یہ کچھ بہت غلط ہو گیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں وہ برسات کافی ہنگامہ خیز تھی۔ بے نظیر کی پہلی حکومت ختم ہوئی۔ انتخابات میں اس وقت کی پی ٹی آئی جتوائی گئی۔ لیکن بڑا عہدہ خالقوں کی منشا کے مطابق پر نہ ہوا۔ لاہور کے صنعت کار کا جوان بیٹا وزیر اعظم بن گیا۔ جنرلز کی پہلی پسند سندھ کا آزمودہ کار جاگیردار پیچھے رہ گیا۔

دوبارہ کویت پر قبضہ کی طرف آتے ہیں۔ امریکہ نے آپریشن ڈیزرٹ سٹارم کا اعلان کیا۔ پاکستان میں آرمی چیف سے ٹھیلے والے تک صدام حسین کو صلاح الدین ایوبی مان چکے تھے۔ جمہوریت کا تمغہ پانے والے جنرل اسلم بیگ جو دو تین سال قبل عین وقت پر جہاز بدلنے کی وجہ سے شہید نہ ہو سکے تھے اب غازی بن کے صدام حسین کو اسلام کا مجاہد قرار دینے لگے۔ ہم جماعت، کزنز، محلے دار ہر جگہ صدام حسین کے پروانے بھنبھناتے تھے۔ ان دنوں شام کو ہماری محفل ظہیر لائبریری میں جمتی تھی۔ وہاں احباب صدام حسین کے ایسے فضائل بیان کرتے جو اسی لائبریری سے نسیم حجازی کے ناول پڑھ کے انہیں ازبر تھے۔

ہر جگہ صدام حسین کے پوسٹر لگے ہوتے تھے۔ رکشوں کے پیچھے، فلمی ہورڈنگز والے تانگے شاید آج کسی کو یاد نہ ہوں لیکن اس وقت یہ عام تھے۔ نئی فلم کی تشہیر کے لئے تانگے کی پچھلی طرف بڑا ہورڈنگ اور دونوں اطراف نسبتا چھوٹے ہورڈنگ لگے ہوتے تھے۔ ان تانگوں پر بھی صدام حسین کے پوسٹر لگے دیکھے۔ کسی میں وہ گھوڑے پر بیٹھے عربی لباس میں تلوار لہراتے نظر آتے تھے۔ کسی میں رائفل تھامے اور کسی میں ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھامے اسلامیانِ پاکستان یا پنجاب کے دل گرماتے نظر آتے تھے۔ 1992 میں پیدا ہونے والی اکثریتی نرینہ اولاد کے نام ان کی امیوں نے صدام رکھے۔ یہ صدام آج ادھیڑ عمری کی دہلیز پر ہیں اور ان میں سے بیشتر حالیہ صدام کے پرستار ہیں۔

ہمیں بچپن سے اخبار پڑھنے کی لَت تھی۔ اخبار ٹینڈر نوٹسز تک پڑھ لیاجاتا تھا۔ اردو کالم نویسوں کی اکثریت اس وقت صدام حسین کی قتیل تھی۔ یہ سب پڑھ کے بھی کبھی دل صدام حسین کی طرف مائل نہ ہوا۔ دوست احباب ہمیں اس وقت یہود و ہنود سے ملاتے کہ تم منکر انسان ہو۔ ایک مجاہدِ اسلام کو نہ صرف مانتے نہیں بلکہ اس کی توہین بھی کرتے ہو۔ وہ وقت کچھ بہتر تھا کہ توہین وغیرہ کی بات پر برا بھلا ہی کہا جاتا تھا۔ سر تن سے جدا نہیں ہوتا تھا۔ ان دنوں صدام حسین کا "اُم الحرب" والا ڈائلاگ بھی بہت ہٹ تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید تو بارہ پندرہ سال یہ اصطلاح استعمال کرتے رہے۔ اس وقت اوریا مقبول جان منصہ شہود پر نہیں آئے تھے ورنہ وہ اس میں سے امام مہدی اور قیامت وغیرہ ضرور برآمد کرتے۔

یہ ایک شہری متوسط طبقے کے ٹین ایجر کے خیالات تھے جو اپنے ماحول، تعلیم اور اجتماعی لاشعور کے باوجود یہ سمجھ گیا تھا کہ صدام حسین اپنی قوم کو مروائے گا۔ یہ بات تاریخ نے ثابت کی۔

دورِ شباب کپتان کے فضائل پڑھتے گزرا۔ کپتان، درویش اور سپہ سالار کی طولانی حکایات جنابِ خلیفہ نے اس تسلسل سے لکھیں کہ اس کو داستانِ کپتانِ لعین کا سرنامہ دیا جا سکتا ہے۔ فدوی بھی انسان ہے۔ جو لڑکپن میں پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوا  وہ ادھیڑ عمری کے آغاز پر ہوگیا۔ 2008 تک ہم سمجھتے تھے کہ کپتان اچھا آدمی ہے۔ فوج کے سیاسی کردار کے خلاف ہے۔ ایماندار ہے۔ صاف گو ہے۔ لیکن چلے گا نہیں۔  2011 کا لاہور جلسہ وہ دور تھا جس میں فدوی بہک گیا۔ لیکن یہ عرصہ بہت مختصر ثابت ہوا۔ اس پر آج تک پچھتاوا ہے۔

جیسے ہی کپتان کو حاضر سروس چھتری میسر آئی اس کے رنگ ڈھنگ، زبان، کردار سب کھل کر سامنے آگئے۔ اس دن سے کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کپتان کا مضحکہ نہ اڑایا ہو۔ اس کا ایاک نعبد سے شروع ہونے والا سفر اب کپتان العالمین تک پہنچ چکا ہے۔ جو اس کا ساتھ چھوڑے وہ مشرک۔ قبر میں پہلا سوال کپتان بارے ہوگا کہ وہ تمہارے پاس آیا تھا تم نے اس کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ کپتانی زبان سے آفیشل اکاؤنٹس تک کلمہ بھی صرف "لا الہ الا اللہ" تک محدود ہو چکا۔ اگلا حصہ شاید فنڈنگ اور ننھیال کی مجبوری کی وجہ سے لکھا اور پڑھا نہ جاتا ہو۔ یہاں حلف لیتے وقت "خاتم النبین" غلط پڑھ کے کیمرے کی طرف دیکھ کے طنزیہ ہنسی بھی یاد آتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کپتان نے کلمے کا دوسرا حصہ اپنے لئے محفوظ رکھا ہو کہ اگلا الیکشن جیت کے مکمل کردیں گے۔ جو عبادت گذار نشے، جوئے، ناجائز تعلقات، ناجائز اولاد، چندہ خوری پر ایمان لاچکے وہ اس کلمے پر بھی ایمان لے آئیں گے۔

حماقت، اس سے پھوٹتی بدمعاشی اور فاشزم کو نہ ماننا بہتر انسانی اوصاف میں سے ہے۔ ہم لڑکپن میں منکر تھے۔ اب بھی منکر ہیں۔منکر ہی مریں گے۔

نِی میں جانڑاں گوگی دے نال

نِی میں جانڑاں جوگی دے نال۔۔۔۔نصرت کی آواز سوزوکی ایف ایکس میں گونج رہی تھی۔ عرفان اکرم نے پکّے سغٹ کا آخری کَش لیا تو فلٹر کا ذائقہ آنے لگا تھا۔ اس نے آخ تھو کرکے تھوک اور سغٹ باہر پھینکا۔ سغٹ تو سڑک پر گرا اور تھوک سیونٹی والے کے  منہ پر۔ سیونٹی والے نے عرفان کے شجرے میں چرند پرند شامل کرتے ہوئے موٹر سائیکل عرفان کی ایف ایکس کے پیچھے لگا دی۔ عرفان کو کھُڑک گیا کہ سیونٹی والا موٹا دہوش اس کو پھینٹی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس نے ایف ایکس کو ریس دینے کی کوشش کی تو وہ پٹاکا مار کے بند ہوگئی۔ اتنی دیر میں سیونٹی والا سر پہ آگیا تھا۔ عرفان نے چھلانگ لگائی اور گرین بیلٹ سے ہوتا ہوا قریبی جنگل میں گھس گیا۔ سیونٹی والا دھوش بے چارہ اس کو غائب ہوتے دیکھتا رہا اور اپنا غصہ نت نئی اصطلاحات میں ڈھال کے چند سیکنڈ بعد کک مار کے چلا گیا۔ عرفان بھنگ کی جھاڑیوں میں چھپا ہوا دیکھ رہا تھا۔ سیونٹی والے کے جاتے ہی وہ فاتحانہ انداز میں باہر نکلا۔ ایف ایکس کو گالی دی اور قریب سے گزرتے رکشے کو ہاتھ دے کر اسے بھارہ کہو جانے کا کہا۔

عرفان جوانی میں کبڈّی کا ماہر کھلاڑی تھا۔ اس کی دھوم پورے پنجاب میں تھی۔ وہ کبھی کسی کی پکڑ میں نہیں آتا تھا۔ بڑے بڑے چودھری اس کے پرستار تھے۔ اس کو کبھی کسی چیز کی تنگی نہیں ہوئی تھی۔ راشن پانی چودھریوں کی طرف سے آجاتا تھا۔ آنے جانے کے لئے ایف ایکس تھی۔ رہنے کے لئے بھارہ کہو میں اچھے وقتوں میں جھیکا گلی کے راجہ فقیر محمد کا منت ترلا کرکے بیس کنال زمین مَل لی تھی۔ چکوال کے چودھری رشید حمید سے فرمائش کرکے چار کمرے بھی بنوا لئے۔ اب عرفان اکرم اپنی بھارہ کہوی جنت میں اکیلا موجیں مارتا تھا۔ چرس کا شوق اسے جوانی سے ہو گیا تھا۔ کبڈّی کے میچ سے پہلے وہ دو پکّے سغٹ چھِک لیتا تھا۔ اس کے بعد کوئی اس کی ہوا کو بھی نہیں چھو سکتا تھا۔ ادھیڑ عمری شروع ہوئی۔ کبڈّی کھیلنے کی طاقت نہیں رہی تھی لیکن عرفان یار باش بندہ تھا۔ اس کے اتنے تعلق بنے ہوئے تھے کہ زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔ کھانا پینا پنجاب کے چودھریوں سے ہوجاتا تھا۔ چرس اسے تیراہ وادی کے یار مت آفریدی سے مل جاتی تھی۔ عورتوں کی اسے کبھی تھوڑ نہیں ہوئی۔ بچپن سے ہی منہ متھے لگتا تھا۔ جوانی میں کبڈّی نے اسے فٹ رکھا۔ خواتین میں مقبول تھا۔جن چودھریوں کی حویلیوں میں وہ جا کے ٹھہرا کرتا تھا۔ انہی میں سے بہت سی خواتین چوری چھپے عرفان سے یارانے چلاتی تھیں۔ ان سے بھی عرفان کو معقول پیسے مل جاتے تھے۔ عید تہوار پر بھی اسے اپنی پرستاروں سے ون سونّے سوٹ، جوتے اور عطر وغیرہ کے تحائف مل جاتے تھے۔ یہ سب ہوتے ہوئے بھی عرفان کو اپنی زندگی میں کمی سی محسوس ہوتی تھی۔ جب بھی وہ نصرت کی "نِی میں جانڑاں جوگی دے نال" سنتا تو اسے لگتا اندر سے کوئی آواز اسے پکار رہی ہے۔ وہ اسے چرس کا اثر سمجھ کے نظر انداز کردیتا۔

گوگی اور پنبیری کی انڈرسٹینڈنگ کے بعد انہوں نے اسلام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نذیر ملنگی نے ان کو یقین دلایا کہ وہ عرفان اکرم کو کسی بھی طرح چک 69 والے پیر صاحب کے پاس لے جائے گا۔ اس کے بعد والی گیم پنبیری اور سرور نے سیٹ کرنی ہے۔ ملنگی نے حجرہ شاہ مقیم میں اپنے سورس سے رابطہ کرکے کبڈّی میچ ارینج کرنے کا کہا جس میں چیف گیسٹ عرفان اکرم ہو۔

ستمبر کے دن تھے۔ بھارہ کہو کی راتیں ٹھنڈی ہو رہی تھیں۔ رات ایک دو بجے تک عرفان چرس سے شغل کرتا۔ یار بیلی آئے رہتے۔ ان میں ایک دو جوان بہت خوبصورت بھی تھے۔ عرفان خوبصورتی کو پسند کرتا تھا اور اس میں جنسی تفریق کا قائل نہیں تھا۔ ان میں سے اکثر ایک یا دونوں ہی رات بھارہ کہو میں گزارتے۔ ستمبر کی ایک گرم دوپہر عرفان کو حجرہ شاہ مقیم سے مستقیم شاہ کی کال آئی۔ اس نے کبڈّی میچ کی دعوت دی اور ساتھ دس دیسی مرغیاں اور دو من چاول بھجوانے کا ذکر بھی کیا۔ عرفان جانا نہیں چاہتا تھا لیکن اسے حجرہ شاہ مقیم کی پروین یاد آئی۔ اسکے بڑے بڑے نین اور دوپٹے کا بار بار سرک جانا عرفان کا نشہ دوبالا کر گیا۔ اس نے فورا حامی بھرلی۔

حجرہ شاہ مقیم کا چکر عرفان کے لئے خوش قسمت ثابت ہوا۔ پروین آج بھی اسی جادو کی مالک تھی۔ مستقیم شاہ نے رات کے کھانے کے بعد پروین کو چائے بنانے کا کہا اور باتوں باتوں میں چک 69 والے پیر صاحب کا ذکر چھیڑ دیا۔ اس نے بتایا کہ پیر صاحب سو فیصد گارنٹی کے ساتھ الیکشن میں کامیابی کا تعویذ دیتے ہیں۔ اگر عرفان چاہے تو وہ پیر صاحب سے اس کی ملاقات کا بندوبست کرسکتا ہے کیونکہ وہ ہر کس وناکس سے نہیں ملتے۔

اگلے دن پلان کے مطابق عرفان پیر صاحب کے آستانے پر پہنچا تو انتظار گاہ میں پنبیری اور سرور بھی موجود تھے۔ پیر صاحب نے عرفان کو دیکھتے ہی کہا کہ سارا پنڈ مر جائے پر تو الیکشن نہیں جیت سکتا۔ مستقیم شاہ نے مسمسی صورت بنا کر کہا کہ حضور کوئی تو طریقہ ہوگا۔ کچھ کریں۔ یہ ہمارا یار ہے۔ اس کا جیتنا ضروری ہے۔ پیر صاحب کچھ دیر مراقبہ میں گئے۔ وہاں ان کی آنکھ لگ گئی۔ دو گھنٹے بعد آنکھ کھلی تو عرفان اور مستقیم شاہ بھی قالین پر سوئے ہوئے تھے۔ پیر صاحب نے گرج کر انہیں اٹھنے کو کہا۔ دونوں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ پیر صاحب نے عصا اٹھایا۔ اس سے کمر پر خارش کی اور فرمایا، "تمہیں ایسی عورت سے شادی کرنی پڑے گی جو مردانہ شلواریں قمیصیں سینے والی کسی عورت کی سہیلی ہو۔ اس کا خاوند سرکاری ملازم ہو اور اس کے کم از کم دو بچے ہوں۔"

عرفان اکرم کے چہرے پر بیزاری تھی۔ اس نے جھلاّ کر کہا کہ میں ایسی عورت کہاں ڈھونڈتا پھروں گا۔ مستقیم شاہ ایک دم اچھلا اور بولا میں ایسی عورت کو جانتا ہوں۔ ابھی جب ہم آئے تو انتظار گاہ میں سرور اور پنبیری بیٹھے تھے۔ سرور سی آئی ڈی میں ملازم ہے۔ اس کے دو بچے ہیں اور اس کی ایک سہیلی ہے جس کی لاہور میں بوتیک ہے اور وہ صرف مردانہ کپڑے سیتی ہے۔ اس کا نام گوگی ہے۔ پیر صاحب نے فورا خادم خاص کو کہا کہ پنبیری اور سرور کو بھیجو۔ دونوں اندر آئے۔ دو زانو ہو کر پیر صاحب کے سامنے جھکے۔ پیر صاحب نے سرور کے سر اور پنبیری کے کندھوں پر ہاتھ پھیرا۔ پھر فرمایا، "سرور میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ پنبیری کو طلاق دو۔ یہ عرفان سے شادی کرے گی۔ اسلام آباد کے مئیر کا الیکشن ہو جائے تو اس کے بعد یہ پنبیری تم کو واپس کر دے گا۔" پھر مسکرا کے بولے، "میں امید کرتا ہوں کہ عرفان پنبیری کو زیادہ گھمائے گا نہیں۔"

سرور حواس باختہ ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے پیر صاحب کے قدموں میں گرگیا اور بولا، ہم پر یہ ظلم نہ کریں۔ میں پنبیری کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پیر صاحب نے پیار سے سرور کے منہ پر چپت لگائی اور کہا، یہ عارضی بندوبست ہے۔ پنبیری تمہاری ہے،تمہاری رہے گی اور اس قربانی کے بدلے تمہیں عرفان اکرم مالا مال کردے گا۔

سرور نے پنبیری کو طلاق دی۔ عرفان نے اگلے ہفتے اس سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد پنبیری بھارہ کہو شفٹ ہوگئی۔ عرفان اپنے معمولات میں مگن رہنے لگا۔ پنبیری گھر میں مہمان کی طرح رہتی تھی۔ کبھی سرور بچوں کے ساتھ ملنے آجاتا اور کبھی اکیلا۔

گوگی بھی نکاح میں شریک تھی۔ عرفان کو دیکھ کے اس کے مَن میں ایسا سکون اترتا تھا جو شلوار قمیص کا نیا ڈیزائن بنانے سے بھی کہیں زیادہ تھا۔ آہستہ آہستہ گوگی بھارہ کہو میں آنے جانے لگی۔ کبھی کبھار رات کو بھی وہیں ٹھہر جاتی۔

گوگی اور عرفان کا اکثر آمنا سامنا ہونے لگا۔ پنبیری گھر پر نہ بھی ہوتی تو گوگی عرفان کے ساتھ لان میں بیٹھ کر گپ شپ کرتی رہتی۔ عرفان گرگ باراں دیدہ تھا۔ اسے گوگی میں وہ بے خودی نظر آئی جو پروین، زبیدہ، مسرت، شگفتہ، شائستہ وغیرہم میں نظر آتی تھی۔

نومبر کی ایک اداس شام تھی۔ عرفان لان میں بیٹھا واک مین پر "نِی میں جانڑاں جوگی دے نال" سن رہا تھا۔ اچانک گیٹ سے گوگی کی کار داخل ہوئی۔ اس کے مَن میں کوئی گرہ سی کھل گئی۔ اسے پتہ چل گیا کہ وہ جوگی، یہی گوگی ہے۔

نِی میں جانڑاں گوگی دے نال


کسی دن بنوں گی میں راجہ کی رانی

 کسی دن بنوں گی میں راجہ کی رانی ۔۔۔ ذرا پھر سے کہنا۔۔۔۔

گرمیوں کی سہ پہر گلزار پان شاپ کے ڈیک سے یہ آواز آئی تو گوگی کے دل میں پھر وہی طوفان ابھرا جو پہلی دفعہ خواب میں یہ گانا دیکھ کر ابھرا تھا۔ گوگی کو اچھی طرح یاد تھا کہ میٹرک کے بورڈ کے پرچے تھے اور مطالعۂ پاکستان کے پرچے والی رات پہلی دفعہ اس کو یہ خواب آیا تھا۔ پیر سوہاوہ کی پہاڑیوں کا منظر تھا۔ پسِ منظر میں راجہ کی رانی والا گانا بج رہا تھا۔ ملکوتی حسن کا شہکار ایک شہزادہ دُلکی سائیکل چلاتا ہوا ندی کی طرف جا رہا تھا۔ اس کے گھنے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ تیز دھوپ کی وجہ سے اس نے کالے شیشوں والی عینک بھی لگا رکھی تھی جو اس کے حُسن کو چار چاند لگا رہی تھی۔ ندی کے قریب پہنچ کر وہ قلانچ بھر کے سائیکل سے اترا۔ سائیکل سٹینڈ پر لگائی۔ گدّی کے نیچے والا لاک لگا کر وائر لاک بھی لگایا۔شرٹ اتاری اور ندّی میں اتر گیا۔ گوگی بھی ندّی میں نہا رہی تھی۔ شہزادے نے اس کو بانہوں میں بھرا اور انگریزی فلم والی ایکٹنگ شروع ہی کرنے لگا تھا کہ عین اس وقت گوگی کی آنکھ کھل گئی ۔

گوگی پچھلے کئی سال سے مسلسل یہ خواب دیکھتی آرہی تھی۔ خواب عین اسی جگہ ٹوٹتا تھا جہاں پہلی دفعہ ٹوٹا تھا۔ گوگی کی دلی خواہش تھی کہ کاش کسی رات یہ خواب اپنے منطقی انجام تک پہنچے لیکن ۔۔۔ اےبسا آرزو کہ خاک شُد۔ اوکاڑہ  ویمن ڈگری کالج سے بی اے میں فیل ہو کے گوگی نے اعلی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا اور سلائی کے کاروبار میں قسمت آزمانے کا سوچا۔ زیادہ تر دوشیزائیں زنانہ ملبوسات کی سلائی ہی کرتی ہیں لیکن گوگی نے انقلابی فیصلہ کیا اور مردانہ شلواریں قمیصیں سینی شروع کر دیں۔

گوگی ٹیلرنگ اینڈ سٹائلنگ بوتیک ، لاری اڈّہ ، اوکاڑہ کی شہرت آہستہ آہستہ پورے پنجاب میں پھیل گئی۔ گوگی کے سلے شلوار قمیص، کرتے، پاجامے اپنی مثال آپ تھے۔ گوگی کا لگا ہوا ٹانکا منہ سے بولتا تھا۔ جو ایک دفعہ گوگی ٹیلرنگ شاپ پر آیا وہ دوبارہ کسی اور درزی کے پاس نہیں گیا۔ گوگی کو بڑے شہروں سے آفرز آنے لگیں کہ اپنی ٹیلرنگ شاپ کی فرنچائز کھولیں، سارا خرچہ ہم کریں گے بس نام آپ کا چلے گا۔ گوگی زندگی میں بہت آگے جانا چاہتی تھی۔ اس نے  لاہور منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ گوگی کی زندگی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔

زندہ دلانِ لاہور نے گوگی کا کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔ اس کے ہُنر اور فن کی دُھوم یہاں پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ باقی کسر گوگی نے مزنگ میں "شہزادی بوتیک "کھول کے پوری کر دی۔شہزادی بوتیک پر عید کے جوڑوں کی بکنگ محرم میں شروع ہوجاتی تھی اور یکم صفر کو آخری جوڑا بک کیا جاتا تھا۔ لوگ گوگی کی بکنگ بولی میں بیچتے تھے۔ ایک خوش لباس  افسر نے بکنگ نہ ملنے پر بولی میں بکنگ خریدی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے لئے انہوں نے ستاسی لاکھ روپے ادا کئے۔ یہ گوگی کے جادو کی ایک چھوٹی سی مثال تھی۔

لاہور میں گوگی کے کئی نئے تعلق بنے لیکن نسرین پنبیری کے ساتھ اس کی ایسی دوستی ہوئی کہ جیسے یک جان دو قالب ہوں۔ پنبیری کا  تعلق بھی اوکاڑہ سے تھا۔ شادی کے بعد وہ کچھ عرصہ حجرہ شاہ مقیم میں رہی اور پھر لاہور منتقل ہوگئی۔ گہری سہیلیوں کی طرح ان کی کوئی بات ایک دوسرے سے چھپی ہوئی نہ تھی۔اس سارے عرصے میں گوگی کو شہزادے والا خواب بدستور تنگ کرتا رہا۔ اس نے ایک دن پنبیری سے اس خواب کا ذکر کیا تو وہ چونک اٹھی۔ اس نے گوگی سے کرید کے شہزادے کا حلیہ پوچھا۔ گوگی نے تفصیل سے شہزادے کا حلیہ بتایا تو پنبیری دم بخود ہو کر رہ گئی۔

پنبیری نے فورا اپنا فون اٹھایا اور گیلری کھول کر اس میں سے ایک تصویر گوگی کو دکھائی۔ یہ اس شہزادے کی فوٹو تھی جس کا خواب گوگی میٹرک کے مطالعۂ پاکستان والے پرچے کی رات سے دیکھتی آرہی تھی۔ پنبیری کے پاس سنانے کے لئے ایک کہانی بھی تھی۔

پنبیری نے بتایا کہ جب وہ حجرہ شاہ مقیم میں تھی تو اس کو خواب میں ہر دوسرے دن ایک بزرگ کی زیارت ہوتی تھی۔ وہ اسے حکم دیتے تھے کہ  پہاڑوں میں جاؤ اور اپنی قسمت آزماؤ۔ پنبیری کو اس خواب کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اس نے چک 69 کے ایک پیر صاحب بارے سنا کہ وہ خوابوں کی تعبیر بتانے میں ماہر ہیں۔ پنبیری اگلی اتوار کو ہی پیر صاحب کے پاس پہنچی۔ پیر صاحب کسی سے تنہائی میں نہیں ملتے تھے لیکن پنبیری کو دیکھتے ہی پیر صاحب پر وجد طاری ہوگیا۔ انہوں نے سب لوگوں کو حجرے سے نکل جانے کا حکم دیا۔ پنبیری کو اپنے پاس بلا کر بٹھایا۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے، "تمہی ہو جس کے بارے ہمیں زیبرا سائیں سرکار کئی سال سے خواب میں بتاتے آرہے ہیں۔ بتاؤ بچّہ کیا مسئلہ ہے؟"۔

پنبیری نے اپنے خواب بارے بتایا۔ پوچھنے پر خواب والے بزرگ کا حلیہ بتایا تو پیر صاحب تھر تھر کانپنے لگے۔ حلیہ بالکل زیبرا سائیں سرکار سے ملتا تھا۔ پنبیری نے پیر صاحب سے پوچھا کہ اس خواب کا مطلب بتائیں۔ پیر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے پنبیری کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور مراقبے میں چلے گئے۔ دس منٹ بعد جھٹکا لے کر آنکھیں کھولیں تو ان کا چہرہ پسینے سے تَر تھا۔ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ پیر صاحب نے بتایا کہ اس دفعہ جب خواب آئے تو بزرگ سے نشانی مانگنا۔ پنبیری نے پیر صاحب کو نذرانہ دینا چاہا تو پیر صاحب نے انکار کردیا۔ بولے کہ تمہارے انتظار میں ہی ہمیں چک 69 میں بھیجا گیا تھا۔ آج یہاں ہماری ڈیوٹی ختم ہوئی۔ کل  ہم ایوبیہ چلے جائیں گے۔

اگلی جمعرات پنبیری کو دوبارہ خواب میں بزرگ کی زیارت ہوئی۔ پنبیری نے ان سے نشانی مانگی تو بزرگ نے اپنے منہ سے چادر ہٹادی۔ ان کی شکل بالکل گوگی کے خواب والے شہزادے کی طرح تھی۔ اس کے بعد پنبیری جستجو میں لگ گئی کہ آخر اس شکل کا بندہ کہاں مل سکتا ہے۔ پنبیری کا خاوند سرور سی آئی ڈی میں کام کرتا تھا۔ پنبیری نے اپنے خواب اور چک 69 والے پیر صاحب کا سارا قصہ اسے کہہ سنایا۔ سرور ایک ذہین اور دلیر آدمی تھا۔ اسے علم تھا کہ بغیر نام پتے، تصویر کے کسی کو تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے برابر ہے۔ سرور کے ڈپارٹمنٹ میں کاہنہ کاچھا کا نذیر ملنگی بھی کام کرتا تھا۔ ملنگی ہپناٹزم کا ماہر تھا۔ ملزموں سے تفتیش میں ملنگی کا فن بہت کام آتا تھا۔ اس نے اگلے دن دفتر میں ملنگی سے سرسری سا ذکر چھیڑا تو اس نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ وہ یہ مسئلہ حل کرسکتا ہے۔

اگلے جمعہ سرور نے ملنگی کو رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد ملنگی نے پنبیری اور ملنگی دونوں کو ہپناٹائز کیا۔ پنبیری کو حکم دیا کہ وہی خواب دیکھے اور سرور کے دماغ کا لنک اس خواب سے کر دیا۔ خواب کے آخر میں جب بزرگ نے اپنے چہرے سے چادر ہٹائی تو سرور چیخ مار کے اٹھ بیٹھا۔ "میں اسے جانتا ہوں۔۔۔"۔ سرور چلاّیا۔ یہ بھارہ کہو کی پہاڑی پر رہتا ہے۔ اس کا نام عرفان اکرم ہے اور مئیر کا الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔  سرور نے اپنا فون کھولا اور تصویر پنبیری کو دکھائی۔ پنبیری نے اثبات میں سر ہلایا۔ یہ اسی بزرگ کی تصویر تھی جو پنبیری کے خواب میں آیا تھا۔

پنبیری کی کہانی ختم ہوئی تو رات ڈھل چکی تھی۔ گوگی کے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ گوگی کے انگ انگ میں شہزادے کی طلب سما چکی تھی۔ اس نے پنبیری کے ہاتھ تھامے اور رندھی آواز میں بولی، "پنبیری بس ایک دفعہ میں اس خواب کو حقیقی زندگی میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ کیا تم میری مدد کروگی؟"۔

پنبیری نے گوگی کو گلے سے لگایا اور بولی،"میری جان گوگی۔۔۔ تمہارے لئے جان بھی حاضر ہے چاہے مجھے اس کے لئے سرور کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔۔۔ لیکن ایک وعدہ تمہیں بھی کرنا ہوگا۔ جتنی بھی کمائی ہوگی  میری ہوگی۔۔۔ عرفان تمہارا ہوگا۔۔۔ بولو منظور؟"۔۔۔۔

گوگی نے پنبیری کو زور سے بھینچا اور بے خودی میں دھراتی چلی گئی۔۔۔ منظور ہے۔۔۔ منظور ہے۔۔۔ منظور ہے۔۔۔۔۔

داستان افغان فروشوں کی

جاڑے کی گلابی سہ پہر ماضی کی یادیں یوں یلغار کرتی ہیں جیسے صاحبقراں امیرِ تیمور کے لشکر غنیم کو تہہ تیغ کرنے بڑھے آتے ہوں۔ وائے افسوس۔۔۔ کیسے گُہر تھے جو خاک میں مل گئے۔ کیسی ذہانتیں تھیں جو ستائش کی تمنا سے ماورا غیاب و خاموشی میں وطن پر قربان ہوگئیں۔

نصف صدی ادھر، جاڑے کے یہی دن۔ فقیر مشروب کی تلاش میں سرگرداں۔ جارج گھسیٹے خاں مگر، جِیسز کرائسٹ ان کے کیسکٹ کو نور سے بھر دے، پکڑائی نہ دیتے تھے۔ اسی گُربہ حالی میں پہلی دفعہ ان سے ملاقات ہوئی۔ زیرو پوائنٹ کے سناٹے میں فقیر درویشی بُوٹی کی چُنائی میں مشغول تھا کہ اچانک بائیسکل کی جرس نے متوجہ کیا۔ باریک ہونٹ، کشادہ پیشانی، شام کے جھٹپٹے میں نور سے دمکتا چہرہ، دبادب بائیسکل کے پیڈل مارتا یونانی دیوتا۔ فقیر کہ ان دنوں آتش جواں تھا خود بھی رحیم یار خانی حُسن کا نمونہ تھا۔ پھتّے نائی کی دکان پر بال بناتے ہوئے اپنے ہی حُسن سے شرما کر فقیر اکثر ماشاءاللہ کہہ کر پھونک مار دیا کرتا۔ گھنے بالوں کے گچھے کہ اب یہ گپ لگتی ہے، فقیر کے شانوں پر جھولا کرتے۔ قصّہ مختصر۔۔۔۔ پہلی نگہ میں طالبعلم اس جوانِ رعنا کا قتیل ہوگیا۔ رفیع یاد آئے۔۔۔

یہ ملاقات اک بہانہ ہے ۔۔۔ پیار کا سلسلہ پرانا ہے

فاتح بائیسکل سے قلانچ بھر کے اترے اور فقیر سے یوں مخاطب ہوئے، ۔۔۔۔ ابے او ب٭٭٭٭٭ والے چچا۔۔۔ کیا ڈھونڈ رہے ہو؟" طالبعلم کا دل خوں، جگر چاک ہوا۔ عمر کا فرق اگر تھا بھی تو عشرے سے کم اور اس وقت تو بدنامِ زمانہ "مرزا پور" کے لکھاری پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ فقیر رئیلی میں ہَرٹ ہوا۔ آہستگی سے فاتح کے قریب جا کر شانوں سے زلفیں سمیٹیں، پونی بنائی اور کہا، "ہمارے سپلائر گیڑا کرا گئے۔ درویشی بُوٹی کی تلاش میں ہیں۔ آج شب ورنہ شبِ فراق سے طویل ہو جائے گی۔" فاتح یکلخت ٹھٹکے۔ کہا، اتنی سی بات تھی، پہلے بتایا ہوتا۔ فاتح نے کوٹ کی اندرونی جیب سے مون وہسکی کا پوّا نکالا۔ طویل گھونٹ لیا۔ بوتل فقیر کی طرف بڑھا دی۔ طالبعلم کے کاٹو تو بدن میں لہو ندارد۔ یقین ہمارے ڈھلمل، ایمان شکستہ۔

وہ رات اپن دو بجے تک پیا۔

ایسے درویشِ بے ریا کو کیا ضرورت پیش آئی کہ پیسے گن گن کر رکھتا رہا؟ خدا کی قسم یہ جھوٹ ہے۔ فقیر کو سارے قصے کا علم ہے۔ ایک دن آئے گا کہ پوری کہانی بیان کر دی جائے گی۔ اس شام سے جُڑا تعلق ساری زندگی پر محیط ہوا۔ گرمی کی کوئی سہ پہر ایسی نہ تھی کہ فقیر گنڈیریاں لے کر فاتح کے دفتر حاضر نہ ہوا ہو۔ ڈالروں کے توڑے کہ پورا دفتر ان سے بھرا ہوتا۔ شام تک سارا مالِ غنیمت تقسیم کر دیا جاتا۔ خالی توڑے چھان بورے والے کو بیچ کر مرونڈے کے چھ سات ٹکڑے ملتے۔ گنڈیریاں چُوپ کر مرونڈا تناول کیا جاتا۔ اس معمول سے طالبعلم کو شوگر اور فاتح کو مثانے کی تکلیف ہوئی۔ دوستی مگر ہر درد کی دوا ہے۔ شیری مان نے حق فرمایا ۔۔۔

یار اَن مُلّے٭ ۔۔۔ ہوا دے بُلّے٭۔۔۔۔

(یہاں مُلّے سے مراد مولوی نہیں اور نہ ہی ہوا دے بُلّے سے اشارہ گیسٹرک ٹربل کی طرف ہے۔ پلیز نوٹ)

این جی اوز اب اس ملک پر قابض۔ جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں۔ کوئی ان سے پوچھنے کی جرات نہیں رکھتا۔ ڈالر ان کو دساور سے ملتے ہیں۔ اساطیری شہرت کے حاملین پر یہ بدعنوانی کی زبانِ طعن دراز کرتے ہیں۔ اگست کی ایک شام جنرل ضیاءالحق نے کہا تھا، اگر محمد حنیف کے آموں والے ناول سے بچ نکلا تو ان اسلام دشمن اور وطن فروش این جی اوز کا وجود مٹا دوں گا۔ خدا کو مگر آزمائش مقصود تھی۔ باقی کہانی ہے۔

جاڑے کی گلابی سہ پہر ماضی کی یادیں یوں یلغار کرتی ہیں جیسے صاحبقراں امیرِ تیمور کے لشکر غنیم کو تہہ تیغ کرنے بڑھے آتے ہوں۔ وائے افسوس۔۔۔ کیسے گُہر تھے جو خاک میں مل گئے۔ کیسی ذہانتیں تھیں جو ستائش کی تمنا سے ماورا غیاب و خاموشی میں وطن پر قربان ہوگئیں۔ 

گرمیٔ کلام

 

بنک میں آج معمول سے کم رش تھا۔رات امتیاز صاحب دیر سے سوئے۔ موسم بدل رہا تھا۔ صبح  اٹھے تو ہلکا سا زکام تھا۔ امتیاز صاحب معمول کے پکے تھے۔ چھٹی کی بجائے دفتر جانے کا فیصلہ کیا۔ گیارہ بجے کے قریب ہلکا سا بخار بھی ہوگیا۔ چائے کے ساتھ پیناڈول بھی لی لیکن جسم میں درد اور چھینکوں نے ایسا زور مارا کہ انہوں نے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔

امتیا ز رؤف درمیانی عمر کےنک سک سےدرست معقول آدمی تھے۔اچھے وقتوں کے ایم بی اے تھے۔ بنک میں ملازم ہوگئے۔ آج ترقی کرتے برانچ مینجر کے عہدے پر پہنچ چکے تھے۔

ان کی شادی کو طویل عرصہ گزر چکا تھا۔بیوی مضافات کے ڈگری کالج میں   ہوم اکنامکس کی لیکچرار تھیں۔نورین شہزادی انکا نام تھا۔ امتیاز پیار سے نین کہتے تھے۔ نین کی ہفتے میں دو دن کلاس ہوتی تھی۔ باقی وقت وہ سماجی بھلائی اور ادبی سرگرمیوں میں گزارتی تھیں۔

امتیاز گھر پہنچےتو بارہ بجنے والے  تھے۔ نین عام طور پر اسوقت گھر پر نہیں ہوتی تھیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بیڈروم سے ٹی وی کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔ امتیاز حیران ہوئےکہ نین آج گھر پر ہیں۔کچن میں جاکے چائے کا پانی رکھا۔ اچانک بیڈروم سے لذّت بھری سسکاری سی سنائی دی۔امتیاز سُن ہوگئے۔ سارے امکانات یکلخت انکے ذہن سے برق کےکوندے کی طرح گزر گئے۔ اب بیڈروم سے ٹی وی کی آوازبھی اونچی ہو چکی تھی اور سسکاریاں بھی ہلکی چیخوں میں بدل چکی تھیں۔امتیازاس آواز کو لاکھوں میں پہچان سکتےتھے۔

یہ نین کی آوازتھی۔

ٹی وی پر کوئی تقریرچل رہی تھی۔کرکٹ کا ذکربھی ہو رہا تھا۔امتیاز نے آہستگی سے بیڈروم کا دروازہ کھولا۔ نین بیڈ پر دراز تھیں۔ تکیہ ٹانگوں میں دبائے، آنکھیں بند کئے، سسکاریاں لے رہی تھیں۔ امتیاز صاحب نے ان کا بدن بستر پر یوں بکھرا سہاگ رات کے بعد آج ہی دیکھا۔ٹی وی پر کپتان کی تقریر چل رہی تھی۔نین دنیا و مافیہا سے بےخبر بیڈ پر پڑی تھیں۔ جیسے ہی کپتان اس حصے پر پہنچے جس میں وہ کہتے ہیں، بڑا وہ ہوتا ہے، جس کی سوچ بڑی ہوتی ہے، نین نے چیخ ماری، جسم ایک دم اکڑ کرڈھیلا پڑگیا اوروہ بسترسے نیچےجاگریں۔بیڈ کاکونہ نین کےسر پر لگا اور خون کی پتلی سی لکیران کے سفید بالوں کی جڑوں کو رنگین کرتی ہوئی گال تک پہنچ گئی۔

امتیاز یہ سب دم بخودہو کے دیکھ رہے تھے۔زمین پر گر کے نین کے حواس بحال ہوئے۔ امتیاز کی طرف دیکھ کے مسکرائیں اور لذت بھری تھکاوٹ سے بولیں، "آپ کب آئے؟"

 

دنیا کے فیصلے

برنارڈ شاہ فلسفی،شاعر، ڈرامہ نگار، سائنسدان، طبیب اور ادیب تھے۔ یہ اَنگلینڈ کے رہنے والے تھے۔ کہتے ہیں کہ اَنگلینڈ میں ایک بادشاہ تو تاج و تخت والا ہے اور دوسرا برنارڈ شاہ۔ ان کے نام کے ساتھ 'شاہ'  عوام نے اپنی طرف سے لگایا۔ شاہ جی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اَنسان کا جسم کمزور ہو تو اس کا دماغ بھی کمزور ہوتا ہے۔ ایسی قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی جو چینی اور گھی جیسی چیزیں استعمال کرتی ہو۔  پیدل چلنے کی عادت نہ رکھتی ہو اور مال و دولت سے مَحبّت کرتی ہو۔

ہم سب کو یہ مان لینا چاہیئے کہ کپتان سے زیادہ عرصہ کوئی مغرب میں نہیں رہا۔ یہ وہاں کی ہائی سوسائٹی میں موو کرتے رہے۔ یہ رات گئے تک ان محفلوں میں رہتے جہاں طبیعیات، فلسفہ، علم الابدان، مابعد الطبیعیات، مختلف ادویات کے انسانی ذہن پر اثرات اور رقص و نغمہ پر بات ہوتی ۔  یہ مغرب کے بڑے اذہان کے ساتھ انٹر ایکٹ کرتے۔ یہ ان کا مائنڈ پِک کرتے۔ ان کو شروع سے ہی یقین تھا کہ ایک دن انہیں اُمّہ کی قیادت سونپی جائے گی۔ یہ لڑکپن سے  ایک خواب تواتر سے دیکھ رہے تھے جس میں ایک نقاب پوش خاتون  انہیں سبز رنگ کا پرچم تھما کر ان کو ایک رنگ برنگا سکارف پہناتی ہیں جس کی چمک سے ان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اس خواب کی تعبیر جاننے کے لئے یہ ہر جگہ گئے لیکن کالا شاہ کاکو شریف کے مضافات میں حضرت جامن سائیں سرکار کے علاوہ کوئی اس رمز کو نہ سمجھ سکا۔ بابا جی نے فرمایا، پُتّر۔۔۔ تیاری پھڑ لے۔۔۔ دنیا دے فیصلے ہُن تُوں ای کرنے نیں۔۔۔

سالہا سال کی جانگسل جدوجہد کے بعد آخر کار کپتان نے اُمّہ کی قیادت سنبھال لی۔ یہ ایگزیکٹلی جانتے تھے کہ قوم کیسے بنتی ہے۔ اس کا کیا پروسیجر ہے۔ آپ پاکستانیوں کو دیکھ لیں۔ یہ کاہل ہیں۔ یہ سست ہیں۔ یہ موٹے بھی ہیں۔ یہ دنیا اور مال و دولت سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی روحانیت میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ چائے میں چار چار چمچ چینی کے ڈال لیتے ہیں۔ یہ دال بھی پکائیں تو تڑکے میں آدھا کلو گھی ڈال لیتے ہیں۔ یہ نان چھولے کھانے جائیں تو گوگےسے اصرار کرتے ہیں، "پاء تھوڑی جئی تَری تے پَا۔"  یہ شوگر کے مریض ہیں۔ یہ بلڈ پریشر کے مریض بھی ہیں۔ یہ کمرے میں داخل ہوں تو پہلے ان کا پیٹ داخل ہوتا ہے۔ یہ اس کے دس سیکنڈ کے بعد اندر آتے ہیں۔  یہ گلی کی نکڑ پر دہی لینے بھی موٹر سائیکل پر جاتے ہیں۔ یہ کمرے سے واش روم تک چل کے جائیں تو ان کو کھَلّیاں پڑ جاتی ہیں۔ یہ ہر وقت موبائل پر چیٹیں کرتے ہیں۔ یہ پب جی  گیمیں بھی کھیلتے ہیں۔

کپتان نے چینی مہنگی کردی۔ گھی مہنگا کردیا۔ پٹرول مہنگا کردیا۔ جو بھی کاروبار کرتا ہے۔ دولت سے محبت کرتا ہے۔ اسے کرپٹ قرار دے دیا۔ اب آپ دیکھیں۔ لوگ چینی کھانا چھوڑ دیں گے۔ یہ گوگے سے تَری مانگنا بند کردیں گے۔ یہ موٹر سیکلیں بیچ کر ہر جگہ پیدل جائیں گے۔ ان کی شوگریں ٹھیک ہوجائیں گی۔ ان کے بلڈ پریشر نارمل ہوجائیں گے۔ دولت سے نفرت ان کے خون میں شامل ہوجائے گی۔ یہ روحانیت کی طرف مائل ہوجائیں گے۔ اس سے ان کے جسم صحت مند اور طاقتور ہوجائیں گے۔ یہ ایک دن میں چالیس چالیس کلومیٹر چلنا شروع کردیں گے۔ بسیں، ویگنیں، ٹرینیں بند ہوجائیں گی۔ پٹرول کی کھپت ختم ہوگی تو یہ پیسہ عوام کی تعلیم پر لگے گا۔ ماحول بہتر ہوجائے گا۔ سبّی ، ملتان، جیکب آباد میں برفیں پڑیں گی۔ موسم ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ لوگ خوبصورت، صحت مند اور توانا ہوں گے تو ان کے دماغ بھی چلنے لگیں گے۔ یہ ذہین بھی ہوجائیں گے۔ یہ نت نئی ایجادیں کرنے لگیں گے۔ یہ پوری دنیا کے لیڈر بن جائیں گے۔ دنیا کی تقدیر کے فیصلے پاکستان میں ہونے لگیں گے۔ دماغ طاقتور ہوگا تو لوگ ٹیلی پیتھی بھی سیکھ لیں گے۔ جنگیں ختم ہوجائیں گے۔ جو بھی اُمّہ کے خلاف سازش کا سوچے گا، ٹیلی پیتھی کے ذریعے ہمیں اس کا پہلے ہی پتہ چل جائے گا۔ ہم اس سازشی کو کلمہ پڑھنے پر مجبور کر دیں گے۔ آخر کار ایک  دن ایسا آئے گا کہ پوری دنیا مسلمان ہوگی اور ہر طرف امن و سلامتی اور خوشحالی ہوگی۔

یہ ایک دن کا کام نہیں ہے۔ یہ لانگ پروسیس ہے۔ ابھی پہلا فیز چل رہا ہے جسے دشمن مہنگائی کا نام دے رہے  ہیں۔ اس وقت اگر کپتان کی حمایت نہ کی گئی تو یہ سارا پروسیس یہیں ختم ہوجائے گا۔  یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر چینی سات سو پچاسی روپے کلو، گھی  اٹھارہ سو ستاون روپے پاؤ اور پٹرول 690 روپے لیٹر تک پہنچانے میں کپتان کی مدد کریں۔ اس وقت کپتان کو اکیلا چھوڑنے والا روزِ قیامت خدا کو کیا منہ دکھائے گا؟