بُندا

کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا!
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے جو ترے زلفوں سے باسی پھول
میرے کھوجانے پہ ہوتا تیرا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر ایک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہء مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہرگز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربتِ رنگین کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا!
(مجید امجد)

وصی شاہ کی نظم ”کاش میں ترے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا“ بہت الگ اور انوکھی لگتی تھی لیکن جب مجید امجد کو پڑھا تو پتہ چلا کہ شاہ جی کی انسپریشن کدھر سے آئی تھی۔۔۔
موازنہ مقصود نہیں لیکن پھر بھی فرق صاف ظاہر ہے۔۔۔

میں بہت دکھی ہوں!

اس کی آنکھوں میں پانی اتر آیا۔ اس نے قیمتی ریشمی رومال سے آنکھوں کو پونچھا اور بھرائی ہوئی آواز میں مجھ سے مخاطب ہوا۔ ” میں بہت دکھی ہوں، زندگی میں ایسے ایسے غم دیکھے ہیں کہ بیان کرتے ہوئے میرا کلیجہ منہ کو آتاہے۔ سکول میں تھا تو کبھی فرسٹ نہیں آیا، نوجوانی میں جس لڑکی سے بھی اظہار محبت کیا اس نے اپنے بھائیوں‌ سے مجھے پٹوا دیا ۔ کزن کے ساتھ شادی کی خواہش کی تو گھر والوں نے انکار کردیا۔“ وہ سانس لینے کو رکا، سونے کے سگریٹ کیس سے مارلبرو کا سگریٹ نکال کر سلگایا اور پھر یوں گویا ہوا۔ ” شادی ہوئی تو برات والے دن طوفان آگیا، اتنی بارش ہوئی کہ بارات کشتیوں میں‌لے جانی پڑی، ولیمے کے کھانے میں نمک زیادہ پڑگیا۔ سارے خاندان اور دوستوں میں شرمندگی اٹھانی پڑی۔ جہیز میں مرسیڈیز کی بجائے کرولا ملی۔ ہنی مون بھی سوات میں ہی منانا پڑا۔“ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور پھر مخاطب ہوا۔ ” میرے دوست کیا کیا بتاوں تمہیں۔۔۔ زندگی کیسی کیسی مشکلات میں گزری ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے ادھ جلے سگریٹ کو پھینکا اور ایک دفعہ پھر اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسو ریشمی رومال سے صاف کئے۔
اس کے خاموش ہونے پر میں اٹھا اور اپنے دوست کو گلے سے لگا کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔