مجبوری ہے!

دل تو بہت چاہتا ہے
پر لکھوں‌ گانہیں ۔۔۔
کہ نواز شریف ”اللہ کے فضل و کرم سے“ منہ میں‌گھنگھنیاں ڈال کے کیوں‌بیٹھے ہوئے ہیں؟ چینی سے لوڈشیڈنگ تک اور بلیک واٹر سے زی تک، سبھی کچھ تخم لنگاں کا شربت سمجھ کر نوش کئے جارہے ہیں۔ ہیں جی! روز نئی واسکٹ زیب تن کرکے کسی نہ کسی سفیر کے ساتھ ملاقات پھڑکانے کے علاوہ بھی سیاست میں بہت کام ہوتا ہے!
پیپلز پارٹی یک سالہ جشن صدارت پر بھنگڑے اور جھومر ڈال ڈال کر بے حال ہوئی جارہی ہے اور اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ عوام کا کیا حال ہے!
صدر مملکت اپنی مشہور زمانہ بتیسی اور تھکی ہوئی لائن ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ کے زور پر ہی پاکستان کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ یہ جمہوری انتقام لیا بھی عوام سے ہی جارہا ہے ۔۔۔ ہور چوپو!
جناب وزیر اعظم جون جولائی میں بھی ڈیزائنر سوٹ زیب تن کرکے ”تاریخ“ رقم کرنے کے دعوے کررہے ہیں۔ شاید یہ رقم کمانے کی تاریخ ہو!
الطاف بھائی نے اپنی پٹاری سے اب قادیانی سانپ نکالا ہے اور چینلز پر اس کا تماشہ دکھا رہے ہیں! جبکہ ان کی بین کی آواز پر سانپ کی بجائے صاحبان جبہ و دستار مست ہوئے جارہے ہیں۔ ہمیں‌ہر جمعے قیامت اور قبر کے عذاب سے ڈرانے والوں کو خود مرنا یاد نہیں؟
یادش بخیر، ریٹارٹڈ کمانڈو، بادشاہ سلامت کے حضور “سب سے پہلے پاکستان کے لئے رحم کی درخواست کرتے ہوئے بالکل “بھاگ لگے رہن، دوارے وسدے رہن“ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں! اگر آپ بھول چکے ہوں‌ تو یاد کرائے دیتا ہوں کہ یہ وہی عظیم شخصیت ہیں جو فرعون کے سگے برادر نسبتی کے لہجے میں ٹی وی پر تین تین گھنٹے ”مجے ڈر نئیں لگتا اے“ کی گردان کیا کرتے تھے!
اور پھر ”شباز ساب“ ہیں! جو دن رات کھجل ہوتے پھرتے ہیں، ون مین شو کا اتنا شوق بھی اچھا نہیں‌ہوتا! اپنی پروجیکشن کے چکر میں سارے سسٹم کا بیڑہ غرق بھی ہوجائے تو کوئی بات نہیں، اگلا الیکشن تو جیت جائیں‌گے ناں! وزیر اعلی کا کام سستے آٹے کی لائنیں سیدھی کروانا ہے یا ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہے جو میرٹ اور انصاف کو یقینی بنائے!
اور پھر اپنے مشہور زمانہ ”جسٹس کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ“ ہیں۔ بحالی کے بعد مزے سے ٹھنڈے کورٹ روم میں بیٹھ کے عزت کا کلچہ کھا رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کیس، پٹرول، چینی، این آر او، آٹا، بجلی، ۔۔۔۔۔۔۔ چپ کر جا۔۔۔ توہین عدالت میں اندر ہونا ہے۔۔۔
لکھنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا ہوں لیکن
مجبور ہوں‌کہ
میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں!!!