کپتان، جوشؔ اور فرائڈ

جبلّت سے ہم شرمندہ ہوتے ہیں۔ روح پر گرانی  لاد لیتے ہیں۔ خود کو ہم کوستے ہیں اور اس پر تقلید کے  خوگر مذہب کے سوداگر جو زیست کو عذاب بنانے پر تلے ہیں۔ مردِ آزاد فرائڈ البتہ حقیقت پا گیا تھا۔
اکل و شرب پیکر خاکی کی ضرورت ہے۔ زندہ ہم اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن مگر اعتدال۔۔  مگر نفاست۔۔۔ مگر تہذیب۔  طبیعت میں عجیب سی بے چینی جاگزیں تھی۔ پسلی کی آنکھ والا لحم، ہلکی آنچ پر بھنا ہوا۔۔ نیلی پٹّی والا مشروب۔ ماکولاتِ بہشت  سے لذّت کام و دہن کے باوجود اضطراب وجود میں لہریں لے رہا تھا۔ اس عالم میں اس عالمِ بےبدل، بابائے پُونڈاں حضرت جوش کی یاد آئی۔ یادوں کی برات جیسے تمنائیں بیاہنے پہنچ گئی ہو۔یک لخت جیسے گرہ کھل گئی ہو۔ اضطراب کا ماخذ دریافت ہوا۔ من شانت ہوا۔
فرائڈ یاد آتا ہے۔ ہر کارِ جہاں پُونڈی پر منحصر ہے۔۔۔ کیسی حکمت بیان کی۔ ہم مگر علم کو خانوں میں بانٹتے ہیں۔ انسانی تہذیب کی اجتماعیت کو رد کرتے ہیں۔ کیوں نہ پھرتاریخ کے چوراہے پر لڑکے بالے ہمارا ٹھٹھا اڑائیں۔ کپتان طعام سے فراغت کے  بعد سیاہ بیر پر مشغول تھا۔ نفیس فریم کا چشمہ ناک کی پھننگ پر ٹکائے۔۔ نِمّا نِمّا ہاسا بُلیوں پر سجائے۔۔۔کیسا یقین اور کیسا سکون اس کے چہرے پر تھا۔ مانو جیسے کپل وستو کا سدھارتھ نروان پا گیا ہو۔  من بے اختیار ہوا ۔۔۔  یویو ہنی سنگھ یاد  آیا۔
لَک ٹوئنٹی ایٹ کُڑی دا
فورٹی سیون ویٹ کُڑی دا
کتاب سے کپتان کو مگر شغف نہیں۔ جی کڑا کرکے لیکن دریافت کیا۔ جوشؔ کو جانتے ہو؟ سیاہ بیر سے نظر اٹھا کے کپتان نے فقیر کو دیکھا۔ چہرے پر جیسے رنگین یادوں کا میلہ سجا ہو۔ لان میں انار کے درخت پر بہار تھی۔ اناروں  پر نظر کپتان کی ٹِکی رہی۔ کچھ لحظے توقف کے بعد بولا۔ یادوں کی برات میں نے پڑھی نہیں؛ مجھ پر بیت گئی ہے۔اس عالم میں کپتان کو پہلی دفعہ دیکھا۔ جھُرجھُری آگئی۔ نظر اس کے چہرے پر ٹکنی دشوار۔ ایسا نُور۔۔ ایسا اطمینان۔۔ بایدو شاید۔ یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے۔۔۔فقیر کے سینے پر سے جیسے سل ہٹ گئی۔ جسم و ذہن پھول کی پتّی ہوا۔
  ؎ اڑتا ہی پھروں ان ہواؤں میں کہیں
زنجیریں ہیں یہ زنجیریں۔ احساسِ گناہ میں ہماری روحیں جکڑتے ہیں۔ جبلّت پر پہرے بٹھاتے ہیں۔ اکل و شرب ضرورت ہے تو پُونڈی بھی ضرورت ہے حضورِ والا۔ آزاد روح اور آزاد فکر۔اس کے سوا اس قوم کی راہِ نجات کوئی نہیں۔پست فکر یہ معاشرے کو کرچکے ۔ تخلیق کا گلا گھونٹتے ہیں۔ فکر کو زنجیر پہناتے ہیں۔ ادبار سے نجات کا وقت آ پہنچا ہے۔ جوشؔ یاد آتا ہے۔
جبلّت سے ہم شرمندہ ہوتے ہیں۔ روح پر گرانی  لاد لیتے ہیں۔ خود کو ہم کوستے ہیں اور اس پر تقلید کے  خوگر مذہب کے سوداگر جو زیست کو عذاب بنانے پر تلے ہیں۔ مردِ آزاد فرائڈ البتہ حقیقت پا گیا تھا۔