ایمان اور خاتمہ


جھنگ بازار کے آبائی مکان سے ہجرت کرکے طارق روڈ (فیصل آباد میں بھی طارق روڈ ہے!) پر شفٹ ہوئے تو فدوی بہت کم عمر تھا۔ سکول جانا شروع ہی کیا تھا۔ ابو جی صبح تڑکے اٹھنے کے عادی ہیں۔ ہمیں بھی اسی وقت اٹھنا پڑتا۔ فجر کی نماز مسجد میں ان کے ساتھ جا کے پڑھتے۔ پھر صبح کی سیر کے لئے زرعی یونیورسٹی جاتے۔ سردی ہو یا گرمی اس معمول میں خلل نہیں آتا تھا۔  جمعہ کی نماز کے لئے خاص اہتمام ہوتا۔ ڈی ٹائپ کالونی میں مولوی یوسف کی مسجد میں بھی جانا یاد ہے۔ مسجد میں  تقریر شروع ہونے سے پہلے پہنچتے تھے۔ اس عمر میں زیادہ باتیں سمجھ تو نہیں آتی تھیں لیکن حاضرین کے جوش و خروش سے اندازہ ہوتا تھا کہ ضرور کوئی بہت اچھی باتیں ہورہی ہیں۔
پرائمری سے ہائی سکول میں پہنچے تو جمعہ کی نماز کے لئے جامع مسجد جناح کالونی میں جانا معمول ہوگیا۔ مولانا اشرف ہمدانی وہاں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے۔ دور و نزدیک سے لوگ ان کی تقریر سننے آتے۔ ان کا تعلق شاید ملتان سے تھا۔ بہت عمدہ تلاوت کرتے تھے۔ گرج دار آواز، فصیح اردو  جس میں کبھی کبھار رواں سرائیکی تڑکے والی پنجابی بھی شامل ہوجاتی تھی۔ پونے ایک جماعت کھڑی ہوتی جبکہ عین ساڑھے گیارہ مولانا منبر سنبھال لیتے تھے۔ خطیب حضرات کے موضوعات سارا سال بدلتے رہتے ہیں لیکن کچھ موضوعات مستقل ہوتے ہیں۔ مولانا اشرف ہمدانی کے بھی دو موضوعات مستقل تھے۔ ختم نبوت اور ناموس صحابہ۔ جس جمعہ کو ان کا خطبہ ان میں سے کسی پر مشتمل ہوتا اس دن نمازیوں کا جوش و خروش دیکھنے لائق ہوتا۔ پوری مسجد نعرۂ تکبیر سے گونجتی رہتی۔ مولانا کی زبان سے ہی پہلی دفعہ ہم نے سنا کہ شیعہ حضرات اس تمام کائنات کے بدترین کافر ہیں۔ اس سے پہلے ہم انہیں عام سا کافر ہی سمجھتے تھے۔ محرّم کے دنوں میں مولانا کا جذبہ فزوں تر ہوتا۔ شیعہ حضرات کے صحابہ سے متعلق مبینہ عقائد بیان کرکے خود بھی روتے، حاضرین کو بھی رلاتے ۔
احمدی/قادیانی احباب سے متعلق ان کا مؤقف یہی ہوتاکہ ان کو کلیدی آسامیوں سے ہٹایا جائے۔ سچی بات ہے اس وقت ہمیں کلیدی آسامی ٹریفک کانسٹیبل کی ہی لگتی تھی  جو کسی بھی وقت کسی کو بھی روک سکتا تھا اور اس کا چالان کرسکتا تھا۔ ہم کافی حیران ہوتے تھے کہ یہ احباب آخر ٹریفک کانسٹیبل ہی کیوں بھرتی ہوتے ہیں اور مولانا کی ٹویوٹا کرولا مارک ٹُو کا چالان کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمیں کبھی نہیں مل سکا۔ مولانا ایک ہستی کا نام لے کے خصوصی ذکر کیا کرتے جو شاید ڈی ایس پی تھے اور ان کا نام حمید اللہ قریشی تھا۔ ان کے خلاف امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے، ظلم کرنے اور رشوت خوری کے الزامات لگاتے تھے اور حکام بالا سے ان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ دسویں جماعت تک ہم ان کا یہ مطالبہ سنتے رہے۔ شاید حکام بالا بھی ٹریفک کانسٹیبلز سے ڈرتے تھے کہ کہیں ان کا چالان نہ کردیں اس لئے کبھی ان کی برطرفی کی خبر نہیں آئی۔
سچی بات ہے کہ ہم شیعہ احباب کو شدید قسم کا کافر سمجھتے تھے لیکن ان میں سے اپنے دو دوستوں اور ان کے اماں ابا اور بہن بھائیوں کو مستثنی سمجھتے۔ ہمارا خیال تھا کہ ایک دن وہ ہمارے نسیم حجازیانہ مردِ مومن والے کردار سے متاثر ہو کر اصلی اور سچے، سعودی مُہر والے مسلمان بن جائیں گے ویسے بھی ہم سوچتے تھے کہ شانی کی امی اتنی اچھی ہیں تو وہ کیسے کافر ہوسکتی ہیں؟ اس معاملے پر پھر ہم زیادہ غور نہیں کرتے تھے کہ اس سے ہمارے بنیادی عقائد کے مقابل بہت سے سوال کھڑے ہوجاتے تھے اور ہم نے مولانا اشرف ہمدانی کی رقّت آمیز دعاؤں میں یہ دعا خاص طور پر نوٹ کی ہوئی تھی کہ یااللہ! خاتمہ ایمان پر کرنا۔ تو ہم ان سوالوں پر غور کرکے اپنا عقیدہ خراب نہیں کرنا چاہتے تھے کہ مبادا خاتمہ ایمان پر نہ ہو۔
فلموں ، رسالوں، ڈائجسٹوں، اخباروں، کتابوں سے ہماری دلچسپی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی ہماری یادداشت ہے۔ پہلے پہل جب ہم نے انجمن سپاہ صحابہ کا نام سنا تو ہمارے ذہن میں سلطان راہی والی انجمن ہی آئیں۔ اس عمر میں ہمیں ان دونوں اقسام کی انجمنوں کے خصائل کا علم نہیں تھا۔ وہ تو بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ دونوں ہی دین و ایمان کے لئے مہلک ہیں۔ عنفوان شباب میں جب ہم صائمہ (سیّد نور والی) کی محبّت میں مبتلا ہوئے تو ہمیں انجمن کی قدر اور مقدار کا پتہ چلا اور یہ بھی علم ہوا کہ عنایت اللہ کے تاریخی ناولز موسوم بہ "داستان ایمان فروشوں کی" میں ہیرو کو آخر خوبصورت اور پُر شباب خواتین کے ذریعے ہی کیوں زیر کیا جاتا تھا۔ معصوم زمانے تھے، پُرشباب کو ہم پُر باش قسم کی چیز سمجھتے تھے اگرچہ اس سے تفہیم میں کافی اشکال پیدا ہوجاتے تھے۔
جناح کالونی کی ہوزری مارکیٹ میں ابوجی کی دکان تھی۔ پہلے بازار میں نلکی بٹن کی دکان ہوا کرتی تھی، سردیوں کی ایک دھند آلود شام کو پتہ چلا کہ اس کے مالک کو کسی نے گولی مار  دی ہے۔ یہ قتل ہماری ہوش کی زندگی میں  'کافر کافر شیعہ کافر 'کے بیانیے کا پہلا ٹھوس ثبوت تھا۔ اس کے بعد تو چل سو چل۔۔۔ گوگی شاہ، جن کا جناح کالونی میں ہی پرنٹنگ پریس تھا، ایک شام اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک نقاب پوش نے ان کے سر میں گولی اتار کے اپنے لئے جنت میں تین سو کنال کا فارم ہاؤس پکا کرلیا۔ برادرز ہوزری کے مالک کے شاید چھ بیٹے ایک ساتھ قتل ہوئے۔ چنیوٹ بازار میں جعفری پان شاپ ہوا کرتی تھی جس کے میٹھے پان کا ذائقہ آج بھی ہماری زبان پر ہے۔ اس کے پروپرائٹر کو بھی ایسے ہی رونق بھری شام میں سب کے سامنے قتل کیا گیا۔
سچ پوچھیے، تو اس وقت ہمیں ان اموات کا رتی بھر بھی افسوس نہیں تھا، کائنات کے بدترین کافر مررہے ہوں تو افسوس ظاہر کرکے ایمان ضائع ہونے کا خطرہ کون مول لے؟ بس ایسے ہی کبھی کبھار دل میں خیال آتا تھا کہ اگر شانی کو بھی کسی نے گولی مار دی تو ؟ اس خیال کو ہم لاحول ولا پڑھ کے شیطان کے کھاتے میں ڈال کے نچنت ہو رہتے تھے۔ بہرحال کافی عرصہ بعد یہ خیال بھی مجسم صورت میں سامنے آگیا۔ نیّر بخاری کے والد کو ایّوب ریسرچ کے احاطے میں صبح کی سیر کرتے ہوئے قتل کردیا گیا۔ ہمیں تو جنازے پر جانے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ ذہن میں مولانا اشرف ہمدانی کی آواز گونجتی تھی، "شیعہ کائنات کے بدترین کافر ہیں"۔ ایک سچے پکے مسلم ہوتے ہوئے ہم کسی بدترین کافر کے جنازے میں کیسے جاسکتے تھے؟
سنتے آئے ہیں کہ بارہ سال بعد رُوڑی کی قسمت بھی بدل جاتی ہے لیکن ہماری قسمت شاید رُوڑی سے بھی اعلٰی ہے۔ عمر کا آخری حصہ شروع ہونے کو ہے اور ہم خود کو وہیں پاتے ہیں جہاں ہوش سنبھالنے کے وقت تھے۔ کوئٹہ ہم زندگی میں کبھی نہیں گئے، کہانیاں بہت سنی ہیں۔ ہمارے کچھ دور پار اور کچھ نزدیک کے رشتے دار وہاں رہتے تھے۔ وہاں کی سردی، ڈرائی فروٹ، پھل، صفائی ستھرائی، سمگل شدہ سستی اشیاء۔۔۔ یہ سب قصّے بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں۔ اب وہاں سے کائنات کے بدترین کافروں کی موت کی خبر آتی ہے۔ 
شیعے ابھی بھی  مر رہے ہیں۔ مولانا اشرف ہمدانی زندہ ہیں۔