ورزش کے فائدے

غلط سمجھے آپ! یہ کوئی دسویں کا اردو ”ب“ کا پرچہ نہیں، جس میں ”ورزش کے فائدے“ نامی جواب مضمون لکھا جارہا ہو۔ یہ واقعی ورزش کے فائدے بیان ہورہے ہیں۔ سنجیدگی کے ساتھ سنیئے!
آپ ڈپریشن میں‌ مبتلا ہیں، ہر وقت ٹینشن میں رہتے ہیں، آپ کا ہاضمہ بھی کام نہیں کرتا، وزن بڑھتا جارہا ہے، آپ کی کمر کو لوگ کمرہ کہنے لگے ہیں۔ تو ایک آزمودہ علاج پیش خدمت ہے۔ کوئی دوا کھانے کی ضرورت نہیں، کوئی ٹوٹکے بھی نہیں کہ فلانے بیج لے کر فلانے شربت میں گھوٹ کر نوش کریں۔ ڈائٹنگ کی بھی ضرورت نہیں، کرنا آپ کو صرف یہ ہے کہ ہفتے میں کم از کم چار دن 45 منٹ تک ورزش کریں۔ ورزش کا انتخاب بھی آپ کی اپنی صوابدید ہے۔ دوڑ سے لے کر پیدل چلنے تک، عام ورزش سے لے کر ویٹ ٹریننگ تک جو بھی آپ پسند کریں۔ شرط صرف مستقل مزاجی ہے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایک سے دو ہفتوں میں آپ ذہنی اور جسمانی طور پر مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔ آپ خود کو زیادہ خوش اور تندرست محسوس کریں گے۔ خاص طور پر ڈپریشن کے لئے یہ ایک اکسیری نسخہ ہے۔ جب بھی آپ خود کو ڈپریس محسوس کریں، فورا اٹھیں اور ہلکی پھلکی ورزش شروع کردیں۔ چاہے آفس کے لوگ آپ کو خبطی سمجھیں یا گھر والے پاگل۔ ان کی پرواہ نہ کریں۔
یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ ورزش سے کونسا عضو کونسے کیمیکل بناتا ہے جس سے بندہ خوش اور تندرست محسوس کرتا ہے، یہ باتیں آپ پورے ڈاکٹر اور زیر تعمیر ڈاکٹر سے پوچھ کر کنفرم کرسکتے ہیں، لیکن اتنا میں ضرور جانتا ہوں کہ جو بندہ یا بندی ورزش کو عادت بنالے تو مرنے تک صحت مند رہےگا/گی انشاءاللہ اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ موت کا کوئی علاج نہیں، لیکن مرنے سے پہلے قسطوں میں مت مریں۔
اور ورزش کریں!!
بسوں اور ٹرینوں میں منجن ، چورن وغیرہ بیچنے والوں سے تشبیہہ دینے پر سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔ جج صاحب بحال ہوچکے ہیں اور میرا بلاگ بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں لہذا ازخود نوٹس سے بچنےکے لئے سنجیدگی سے تبصرے کئے جائیں۔ پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی...  دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔۔۔۔

ایک اندوہناک سانحہ!!

سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں؟ آہ۔۔۔
ایسا زخم ملے گا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔۔۔ زندگی سے نفرت سی ہو گئی ہے ۔۔۔۔ بھوک مر گئی ہے۔۔۔۔ ساری ساری رات نیند نہیں‌آتی۔۔۔ کام میں دل نہیں لگتا۔۔۔ پہننا، اوڑھنا، کھانا پینا سب چھوٹ گیا ہے۔۔۔۔ دل میں آتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صحرا میں نکل جاؤں (نکلنے کی ویسے کوئی ضرورت تو نہیں کہ پہلے ہی صحرا میں ہوں۔۔۔۔ لیکن پھر بھی برائے وزن بیت) کپڑے پھاڑ دوں (صرف شرٹ ۔۔) ۔۔۔ دنیا میں‌ جتنے بھی ٹینس کورٹ ہیں ان کو آگ لگادوں۔۔۔ ٹینس کے ریکٹ سے اپنا اور جو سامنے آئے اس کا سر پھوڑ دوں ۔۔۔۔ ساری دنیا کی ٹینس بالز ، ٹینس بال کرکٹ کھیلنے والوں میں‌تقسیم کردوں ۔۔۔۔۔ تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ ہوا کیا ہے؟؟؟ ہونا کیا ہے جی۔۔۔ آپ نے بھی پڑھا ہوگا اخبار میں ایک دو دن پہلے۔۔۔ اس کی منگنی ہوگئی ہے!!!!

ایسے بنتے ہیں طالبان۔۔۔



دونوں تصاویر لاہور کی ہیں۔
معیار زندگی میں اتنا بھیانک فرق اور تضاد بالآخر طالبان کو ہی جنم دیتا ہے!!!