انقلاب زندہ باد

گنبد جیسے پیٹ، چربی میں غائب گردن، پھولی ہوئی گالوں اور ڈکراتی ہوئی آواز سے انقلاب آنے لگتے تو ساری دنیا میں ایسے انقلاب آتے جیسے برسات کے موسم میں پتنگے آتےہیں۔ عوام سے مطالبہ یہ ہے کہ تم انقلاب لے آؤ، پھر میں واپس آکر تمہاری قیادت کروں گا۔ ہشکے بئی ہشکے۔۔۔ ایڈا تو چی گویرے دا برادر نسبتی۔۔۔ کھیر پکائی جتن سے، چرخا دیا جلا، آیا کتا کھاگیا تو بیٹھی ڈھول بجا۔۔۔ جاگیرداروں کو پھانسیاں دینی ہیں لبرٹی چوک میں۔ اور جاگیردار وہ ہوں گے جو پانچ پانچ مرلے کی جاگیروں کے مالک ہوں گے اور بھتًہ دینے سےانکاری ہوں گے۔ جن کے ساتھ جنموں کا ساتھ ہے وہ تو بے چارے چھوٹے موٹے کسان ہیں۔ جن کی صرف دو دوچار چار لاکھ ایکڑ زمینیں ہیں۔ ان بے چاروں کی تو پہلے ہی دال روٹی نہیں چلتی تو ان کو کیوں تنگ کریں ؟

ماوزے تنگ، لینن، کاسترو، چی گویرا اور اگر نیک پاک لوگ معاف کرسکیں تو ملا عمر جیسے لوگ انقلابی ہوتےہیں۔ جن کو اپنے نظریے پر ایمان کی حد تک یقین ہوتا ہے اوروہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں اور سب سے آگے رہ کے قائد ہونے کا حق ادا کرتےہیں۔ انگریزکوئی کھوتے دے پتًر نہیں ہیں کہ انہوں نے لیڈنگ فرام دی فرنٹ کا محاورہ بنایا ہوا ہے۔ جبکہ سننے میں یہ آتاہے کہ تازہ انقلابی ”فرنٹ“ سے لیڈ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

یہ سارے بھی اوورسیز انقلابی ہوتے تو لینن برازیل میں بیٹھ کے انقلاب کی قیادت کرتے، چی گویرا جزیرہ ہوائی سے انقلاب کی کمان کرتے، کاسترو موزمبیق سے ٹیلیفونی انقلاب کا بھاشن دیتے، ماوزے تنگ اہرام مصر کو انقلابی کمان کا ہیڈکوارٹر بنا کر گراں خواب چینیوں کو انقلاب کی میٹھی لوریاں سناتے۔ ان سارے انقلابیوں کی ایسی کی تیسی، پاگل خانے۔۔۔ اپنا بھی بیڑا غرق کیااور اپنی قوم کا بھی۔ اور ان کی قوموں کی بھی ایسی کی تیسی کہ اپنے جان سے پیارے انقلابی لیڈروں کو آگے لگائے رکھا اور ان کی جان کی ذرا پروا نہیں کی۔ لیڈر کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے، ناکتخدا کی عصمت کی طرح۔۔۔ اس کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھے تو اس کو خطرہ ہوجاتا ہے۔۔۔ ہیں جی۔۔۔

ضروری نوٹ: یہ”بیستی“ نہیں، ”بیستی جیسا اقدام“ہے۔

 

اشرف سٹیل مارٹ

اس دنیا میں سب سے بڑی ہیکڑی علم کی ہیکڑی ہے۔ صاحبِ علم فرد اور صاحبِ علم گروہ بے علم لوگوں کو صرف حیوان ہی نہیں سمجھتا، بلکہ ہر وقت انہیں اپنے علم کے ”بھؤو “ سے ڈراتا بھی رہتا ہے۔ وہ اپنے علم کے تکبّر کا باز اپنی مضبوط کلائی پربٹھا کے دن بھر بھرے بازار میں گھومتا ہے اور ہر ایک کو دھڑکا کے اور ڈرا کے رکھتا ہے۔ اس ظالم سفّاک اور بے درد کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس کے پھل دار علمی احاطے سے ایک بیر بھی توڑنا چاہے تو یہ اس پر اپنی نخوت کے کتّے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ اپنے بردوں کو اچھّا غلام بننے کا علم تو عطا کرسکتا ہے۔ لیکن انہیں باعزّت زندگی گزارنے کے رموز سے آگاہ نہیں ہونے دیتا۔ زمانہ گزرتا رہتا ہے اور اپنے اپنے دور کا ہر ذی علم برہمن، اپنے دور کے شودر کے کان پگھلتے ہوئے سیسے سے بھرتا چلا جارہا ہے۔

=====================================================================

علم کی ہیکڑی بڑی ظالم ہیکڑی ہے۔ یہ علم کے پردے میں بے علم اور معصوم روحوں پر بڑےخوفناک حملے کرتی ہے۔ علم اور جان کاری کا حصول اپنے قریبی لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور ان کے شبے میں اضافہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ایک جان کار ایک ان جان سے صرف اس لیے ارفع، اعلا اور سپیرئیر ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے۔ اس نے واقفیت، معلومات، خبر، گُن اور ابلاغ کے بہت سے کالے اپنی دانش کے پٹارے میں ایک ساتھ جمع کررکھےہوتے ہیں۔ وہ جس بستی، جس آبادی اور جس نگری میں بھی جاتا ہے، اپنے پٹارے کھولے بغیر وہاں کے لوگوں کو سیس نوانے اور دو زانو ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ ڈاکٹر، وکیل، ملاّ، پریچر، سیاست دان، معلّم، مقرر، کالم نگار، مندوب، اپنے نالج اور اپنی جان کاری کے پگھلے ہوئے سیسے کو نہ جاننے والے لوگوں کے کانوں میں ڈال کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گنگ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماؤف کردیتا ہے۔ علم والا یہ نہیں چاہتا کہ اس کے علم کا کوڑیالا کسی اور کے پاس جائے اور اس کی پٹاری خالی کرجائے۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کے علم کا کالا ہر بے علم کو ڈس کر واپس اس کے پاس پہنچے، تاکہ وہ اگلے  آپریشن کی تیاری کرسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ علم والا بے علم کوسوائے شرمندگی، بے چارگی، کم تری اور لجاجت کے اور کچھ نہیں دے سکتا۔ اور کسی شرمندہ، بے چارے، کم تر اور ہیٹے شخص کو درماندگی کے سوا اور دیا بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن لوگوں کے درد کا درماں کرنے کےلیے انہیں علم کی بجائے اس یقین، اعتماد اور اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے جو اُمّی پیغمبر پریشان اور خوارو زبوں لوگوں کے کندھے پر ہاتھ دھر کر عطا کرتے رہے ہیں۔

======================================================================

علم کی ہیکڑی بھی عجیب ہیکڑی ہے۔ شہسوار کے پاس گھوڑا بھگانے کا علم ہوتا ہے تو وہ اسے چابک بنا کر استعمال کرتا ہے۔ مہاوت اپنا علم آنکس کی زبان میں ادا کرتا ہے۔ دانش ور، عالم، مفکر، گیانی، دوان اپنے علم کی تکّل جھپ کھلا کر لوگوں کے باطن میں اترتا ہے اور ان کی بے پردگی کا نظارہ کرکے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ علم والا آپ کو کچھ دیتا نہیں، آپ کی ذلتّوں کا معائنہ کرکے آپ کو سندِ خفّت عطاکرجاتا ہے۔ آپ اس کے علم سے حصہ نہیں بٹا سکتے جو اصلی ہے، جو اس کا ہے، جو نافع ہے۔ البتہ وہ علم جو پرانی گرگابی کی طرح ڈھیلا اور لکرچلا ہوجاتا ہے، اسے ضرور پس ماندہ گروہوں کو عطا کردیا جاتا ہے۔ جیسے پرانے لیر ے بڑی محبت سے خاندانی نوکر کو دے دیئے جاتے ہیں۔ ہاں بس ایک اُمّی ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ بلا امتیاز سبھوں کو دے دیتے ہیں اور اس کی کوئی قیمت طلب نہیں کرتے۔ وہ اپنا سارا وجود، پورے کا پورا وجود لوگوں کو عطا کردیتے ہیں اور ان کے باغ وجود سے علم نافع کی نہریں ابد تک رواں دواں رہتی ہیں۔ لیکن ہمارے علم کی نخوت بڑی ڈاہڈی نخوت ہے۔ یہ رعونت تو انسان کو انسان نہیں سمجھتی، البتہ اس کے ڈے ضرور مناتی رہتی ہے۔

اشفاق احمد کی کہانی “اشرف سٹیل مارٹ” سے اقتباسات