اصلی والی ترکیب - (ہفتہء بلاگستان - 4)

میں تمام احباب سے ان کی مایوسی پر پیشگی معافی چاہتا ہوں!
یہ ایک واقعی کھانے کی ترکیب ہے جس کی ایجاد کا سہرا ضرورت اور مجبوری کے سر جاتاہے۔ خاور صاحب نے بھی ایک ”چھڑا سٹائل“ فٹافٹ کھانے کی ترکیب لکھی ہے جو مجھے بہت پسند آئی ہے لہذا آج شام وہ ڈش بنے ہی بنے!
بہرحال کھانے کی جو ترکیب میں آپ کو بتانے جارہاہوں یہ بالکل میرے بھیجے کی پیداوار ہے۔ لہذا پکانے سے پہلے یقین کرلیں کہ آپ واقعی یہ کام کرنا چاہتے ہیں!
اس کے اجزاء میں ایک پیاز، ایک ٹماٹر، چند سبز مرچیں، تھوڑی سی بند گوبھی، دو درمیانے سائز کے آلو، تھوڑے سے مٹر، دو گاجریں، ایک شملہ مرچ، چھ انڈے، نمک، کالی مرچ، کوکنگ آئل اور سویا ساس شامل ہیں۔
ساری سبزیاں باریک باریک کاٹ لیں۔ آلو ایسے کاٹیں‌جیسے چپس بنانے کے لئے کاٹے جاتے ہیں۔ سبزیاں ایک پتیلی میں ڈال کر ساتھ ہی کوکنگ آئل ملادیں اور پتیلی پر ڈھکن دے کر ہلکی آنچ پر پکنے دیں۔ سبزیاں گلنے پر نمک، کالی مرچ اور سویا ساس حسب ذائقہ ملادیں۔ ساتھ ہی انڈے بھی ملادیں۔ انڈے ملانے کے بعد زیادہ چمچ نہ چلائیں۔ جب سفیدی اور زردی دونوں پک جائیں تو آپ کی ڈش تیار ہے۔
اس ڈش کو آپ چاول، روٹی یا میکرونی کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔
اگر مزیدار ہو تو یہ میرا کمال ہے اور نہ ہو تو آپ کا قصور!
دوستوں نے مختلف بلاگز پر میری تراکیب کے بارے میں جو حسن ظن ظاہر کیا، میں اس پر ان کا مشکور ہوں۔ بلکہ چند دوستوں نے تو اسی انداز میں چند تراکیب لکھ بھی ڈالیں ہیں، اس پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا!!!

بلاگ شلاگ - (ہفتہء بلاگستان - 3)

اردو بلاگنگ سے میرا تعارف ایک اتفاق تھا۔ یہ اتفاق حسین و رنگین تھا یا غمگین و سنگین، اس کا اندازہ آپ خود لگائیں!
گوگل پر کچھ تلاشتے ہوئے نظر ڈفرستان کے نام پر پڑی تو میں چونکا کہ ہیںںںں۔۔۔ یہ کیا؟ وہاں پہنچا تو پہلے تو سمجھنے میں‌ کچھ وقت لگا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ تحریر مزیدار لگی۔ عنوان پر کلک کیا تو تبصروں پر نظر پڑی، ان کو پڑھتے ہوئے آخر تک پہنچا تو ایک دھچکا نما خوشی ہوئی کہ میں بھی اس تحریر پر اپنا لچ تل سکتا ہوں۔ اپنا کچھ لکھا ہوا، شائع ہوا دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے، پہلی دفعہ علم ہوا!
باقی بلاگروں کا علم بھی وہیں سے ہوا۔ بس پھر چل سو چل۔ ڈفر نے ہی شاید کسی تبصرے کے جواب میں مجھے بلاگ بنانے کی ”اشکل“ دی تھی۔ یہاں پر آکر پاک نیٹ والے عبدالقدوس اس کہانی میں داخل ہوتے ہیں۔ ورڈپریس ڈاٹ پی کے، کے بلاگ پر ”اپنا بلاگ حاصل کریں“ لکھا دیکھا اور بس پھر اللہ دے اور بندہ لے۔
شروع میں میرا خیال تھا کہ شاید یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکے کہ میں‌نے زندہ رہنے کے سوا مستقل مزاجی سےکوئی کام نہیں‌کیا۔ بقول منیر نیازی ”جس شہر میں بھی رہنا، اکتائے ہوئے رہنا“ لیکن اس شہر میں‌ دل ابھی تک لگا ہوا ہے! اس کی وجہ شہر کے رنگ برنگے مکین ہیں، جو آپ کو تپا تو سکتے ہیں لیکن آپ ان سے اکتا نہیں سکتے!
میری بچپن سے منڈلی جمانے کی عادت تھی۔ ملک چھوڑا تو منڈلیاں بھی وہیں‌ رہ گئیں۔ ملک سے باہر، غم روزگار سے ہی فرصت نہیں ملتی، کہ بندہ، غم جاناں کا کچھ بندوبست کرسکے۔ میری یہ کمی بلاگستان نے پوری کردی۔ یہاں آپ جیسی منڈلی چاہیں، جما سکتے ہیں۔ آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت کی منڈلی سے استاد مام دین گجراتی کے مشاعرے تک جہاں آپ کا دل چاہے ٹھہر جائیں اور جب آپ کا دل چاہے نو دو گیارہ ہوجائیں۔
میرا بلاگنگ میں آنا کسی عظیم مقصد، نصب العین اور ایسے ہی دوسرے بھاری بھرکم الفاظ جو مجھے اس وقت یاد نہیں آرہے، کی وجہ سے نہیں ہوا۔ اس کی وجہ صرف اپنے ”ساڑ“ نکالنا تھا، جو اگر بندے کے اندر رہیں تو اسے اندر سے ”ساڑ“ دیتے ہیں، اور اندر سے سڑا ہوا بندہ، نہایت خطرناک ہوتاہے! تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے معاشرے کو ایک خطرناک بندے سے پاک کردیا ہے اور یہ بھی کوئی ایسا برا مقصد نہیں!
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ کسی اور بلاگر کو مشہور کرے نہ کرے
مجھے ضرور کردے
مجھے مشہور ہونے کا بہت شوق ہے!

نظام تعلیم - دے دھنا دھن (ہفتہء بلاگستان -2)

تعلیمی نظام کی بات ہوتے ہی، دانشوروں کے منہ سے جھاگ بہنے لگتے ہیں، جذبات کی شدت سے ان کے قلم اور زبان سے شعلے نکلنے لگتے ہیں اور وہ اپنی دانشوری کی پٹاری سے قسم قسم کے سانپ برآمد کرکے تماشا شروع کردیتے ہیں۔ جونہی بحث ختم ہوتی ہے اور لذت کام و دہن المعروف کھابوں کا آغاز ہوتا ہے، یہ دانشور سب کچھ بھول بھال کر سموسوں اور شامی کبابوں کا تیاپانچہ کرنے لگتے ہیں! خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ قسم کی بات تھی جو دانشوروں سے میرے قدیمی حسد کا نتیجہ ہے۔ آمدم برسر مطلب۔۔۔
پاکستان کے نظام تعلیم میں چند بنیادی خرابیاں ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان خرابیوں اور ان کے حل پر بات کی جائے گی۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس ملک میں‌ عام آدمی کو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں تعلیم، چاہے ناقص ہی کیوں نہ ہو، میسر ہے۔ پچھلے باسٹھ سالوں سے یہ اتیاچار اس ملک کی اشرافیہ پر کیاجارہا ہے۔ یہ کمی کمین لوگ چار جماعتیں پڑھ کر اپنے انہی ان داتاؤں کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگتےہیں‌۔ جو کہ نہایت شرم اور رنج کا مقام ہے۔
سرکاری سکولوں میں ابھی تک اساتذہ کے نام پر ایسے دھبے موجود ہیں جو تعلیم کو مشن سمجھ کر پھیلا رہے ہیں۔ حالانکہ تعلیم ایک کاروبار ہے اور اسے اسی طرح چلایا جانا چاہئے۔
اسی نیچ طبقے کے لوگ کچھ الٹا سیدھا پڑھ کر قانون کی حکمرانی، آئین اور دستور کی بالادستی، عوام کا حق حکمرانی (؟) قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں بھی کرتے ہیں جو ہمارے جاگیردار، صنعتکار، خاکی و سادی افسر شاہی جیسی آسمانی اور دھلی دھلائی مخلوق کی طبع نازک پر بہت گراں گزرتی ہیں اور ان کے بلند فشار خون کا سبب بھی بنتی ہیں!
ان مسائل کے حل کے کے لئے سب سے پہلے تو بلا کسی ہچکچاہٹ کے تعلیم حاصل کرنےکا حق صرف اشرافیہ کی اولاد کے لئے مخصوص کرنا چاہئے۔ عوام کے تعلیم حاصل کرنے کو سنگین غداری کے زمرے میں لانا چاہئے اور اس پر سخت ترین سزا ہونی چاہئے!
ایچی سن، لارنس، کیڈٹ کالجز اور ایسے ہی دوسرے تعلیمی اداروں کو پورے سال کاتعلیمی بجٹ دینا چاہئے۔ تاکہ ہماری اگلی حکمران نسل پوری تسلی اور اطمینان سے تعلیم حاصل کرسکے۔ یہ گندے مندے سرکاری سکول بند کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے مندرجہ بالا اداروں کے تمام طالبعلموں کو نئے ماڈل کی گاڑیاں، ڈیزائنرز آؤٹ فٹس، رے بان کے چشمے، فرانس کے پرفیومز وغیرہ وغیرہ سرکاری خرچے پر فراہم کرنے چاہئیں۔ تمام سرکاری کالجز اور جامعات کو بھی بند کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم سے اسی آسمانی مخلوق کو سال کے چھ مہینے یورپ، ”تھائی لینڈ“، امریکہ وغیرہ تعطیلات پر بھیجنا چاہئے۔ تاکہ ان کا ”وژن“ وسیع ہوسکے۔
نچلے متوسط طبقے کے منتخب بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ کلرکی شلرکی کا کام بھی چلتا رہے۔ ماتحتوں کے بغیر بھلا افسری کا کیا خاک مزا آئے گا! اس کے لئے پورے ملک میں‌ دس بارہ تعلیمی ادارے کافی ہیں۔
جو عوام اس تعلیمی انقلاب کے نتیجے میں سکولوں اور کالجوں سے فارغ ہو، اس کو نازی کیمپس کی طرز پر کیمپوں میں‌ رکھا جائے اور ان سے بیگار کیمپ کی طرز پر سڑکیں، پل اور ڈیفنس ہاوزنگ اتھارٹیز کی آبادیاں بنانے کا کام لیا جائے۔ ان کو کھانے کو اتنی ہی خوراک دی جائے کہ تیس پینتیس سال سے زیادہ نہ جی سکیں۔ اس سے ایک تو آبادی کا بوجھ کم ہوگا اور دوسرا ملک میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا!
امید ہے کہ ان اصلاحات سے وہ مقاصد ایک ہی جست میں حاصل ہوسکیں گے جو ہماری اشرافیہ سلو پوائزننگ کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش پچھلے باسٹھ سالوں سے‌ کررہی ہے!

ایک دلدوز واقعہ - ہفتہء بلاگستان

یہ قصہ ہے چھٹی جماعت کا۔ جب ہم بزعم خود پرائمری کے بچپن سے نکل کر مڈل کی جوانی میں تازہ تازہ وارد ہوئے تھے۔ چھٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں اول آنے کے جرم میں ہمیں اپنی جماعت کا مانیٹر بھی بنادیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ ”بندر کے ہاتھ استرے“ والی بات تھی۔ اگر آپ میں سے کوئی سکول میں مانیٹر رہا ہو تو اسے علم ہوگا کہ اقتدار کتنی نشہ آور چیز ہے!
یہ مئی کے اواخر کا واقعہ ہے۔ تیسرا اور چوتھا پیریڈ عباس صاحب کا ہوتا تھا جو ہمیں سائنس اور معاشرتی علوم سکھانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس دن وہ چھٹی پر تھے، ان کی جگہ جو استاد پیریڈ لینے کے لئے آئے تھے وہ پانچ منٹ کے بعد ہی کلاس کو مانیٹر کے حوالے کرکے ”ضروری“ کام سے چلے گئے۔ اب میں تھا اور میری رعایا۔ اسی اثناء میں ساتویں کلاس کا ایک لڑکا ہماری جماعت میں داخل ہوا اور مجھ سے پوچھا، ”عباس صاحب کہاں‌ہیں؟“ ۔ زبان پھسلنے کی بیماری مجھے بچپن سے ہی ہے۔ میرا جواب تھا ”عباس صاحب آج ”پھُٹ“ گئے ہیں“۔ بس جی اس کمینے نے اگلے دن یہی ”بےضرر“ سی بات ان کو نمک مرچ اور نمبو لگا کے بتادی۔ اگلے دن تیسرے پیریڈ کے شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنی مخصوص روبوٹ جیسی آواز میں کہا۔ ”موونییٹرررر کہاںںں ہےےے؟“۔ میں ان کی کرسی کے دائیں جانب جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس میں بھی ایک مصلحت تھی۔ وہ یہ کہ انکے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا اور شہادت کی انگلی کسی نامعلوم وجہ سے بہت موٹی تھیں۔ لہذا جب وہ سیدھے ہاتھ سے کان مروڑتے تھے تو اتنا درد نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جناب، انہوں نے اس دن کان نہیں‌مروڑے بلکہ مجھے پورا ڈیڑھ گھنٹہ تقریبا پچاس ڈگری سینٹی گریڈ میں اصیل ککڑ بنائے رکھا۔ چوتھا پیریڈ ختم ہونے پر جب میں ککڑ سے انسان کی جون میں‌واپس آیا تو کھڑا ہونے کی کوشش میں گرگیا اور اگلے دو پیریڈ بے ہوشی کے مزے لوٹے۔
اگلے تین سال وہی شکایتی ٹٹو مجھے ”عباس صاحب ”پھُٹ“ گئے “ کہہ کر چھیڑتا رہا۔ وہ تو جب میں نویں میں پہنچا اور ہتھ چھٹ ہوا اور ایک فرزبی کے میچ میں اس کی پھینٹی لگائی تو پھر اس نے میری ”عزت“ کرنی شروع کی!