دسمبری دُکھڑے کا علاج

پار سال ہم نے دسمبر اور اس کے انواع و اقسام کے دُکھڑوں پر کماحقہ روشنی وغیرہ ڈالی تھی۔ اب ہم ان دُکھڑوں کے شافی و کافی علاج کے ساتھ حاضر ہیں مبادا یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم اردو کالم نگاروں کی طرح، صرف مسائل کا پرچار کرتے ہیں اور ان کا حل ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ خیر، ایسا سمجھ بھی لیا جائے تو ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں۔ آپ کا جو دل چاہے سمجھتے رہیں۔۔۔
دسمبر میں وہ خواتین و حضرات بھی دردیلی شاعری کا پرچار شروع کردیتے ہیں جنہیں ۔۔۔ لپّے آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری۔۔ بھی، کبھی یاد نہیں ہوسکی تھی۔ اس کا آسان علاج  ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے سے ہی انور مسعود، دلاور فگار، ضمیر جعفری ، خالد مسعود اور اگر ہمّت ہو تو استاد امام دین گجراتی کی شاعری کا کثرت سے مطالعہ کریں۔ شادی شدہ خواتین و حضرات اس کے ساتھ ساتھ کثرت جماع پر زور رکھیں۔ یہ بھی مفید ہوتا ہے۔
جن خواتین کو اپنے نہ ملنے والے سجّن پیاروں کی یاد بے چین کرتی ہے اور وہ ان کی یاد میں دسمبر شروع ہوتے ہی آٹھ آٹھ آنسو بہانا شروع کردیتی ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جولائی کی کسی اتواری ملتانی دوپہر کا تصّور ذہن میں لائیں۔ صبح سات بجے سے بجلی بند ہو۔ آپ کا محبوب رات کو کمپلسری ویک اینڈ بھی سیلیبریٹ کرچکا ہو۔۔ اور اس وقت تہہ بند، شلوار یا برمودا شارٹس پہن کے صحن میں بیٹھا ہو۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابھی تک "غسل" بھی نہ کیا ہو۔۔ دانت صاف کرنے کی عادت اس کو عادتِ بد لگتی ہو۔۔ پانچ فٹ دور سے اس کے منہ کی سگرٹانہ مہک مخاطب کو عطر بیز کرتی ہو۔۔۔کُلّی کرکے اس نے اس گرمی میں بھی، صبح دو پراٹھوں کے ساتھ چار انڈوں کا آملیٹ کھایا ہو اور اب ایک ہاتھ اپنی بنیان میں ڈال کے پیٹ کھجا رہا ہو اور دوسرے ہاتھ میں "گولڈ لیف" سلگا کے اس کے کش لگا رہا ہو۔۔ عاشقی کی کامیابی کے جوش میں پہلے تین سالوں میں جو تین ماڈل مارکیٹ کردئیے گئے تھے، وہ گرمی کی وجہ سے مسلسل اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہوں اور آپ کے یہ کہنے پر کہ۔۔۔ ذرا زوماریہ نوں چُوٹا ای دے دیو۔۔ پر وہ گھُور کے آپ کی طرف دیکھے اور کہے۔۔۔ میں تیرے پیو دا نوکر آں؟۔۔۔
اس سارے سنیریو کو ایک دفعہ تصوّر میں لانے پر اس وقت جو دہُوش میلی بنیان اور الٹی شلوار پہنے، آپ کے ساتھ لیٹا ہوا خرّاٹے مار رہا ہے، آپ کو اس پر بے اختیار پیار آسکتا ہے۔۔ لیکن اس پیار کو دل میں ہی رکھیں اور اسے عملی طور پر ظاہر کرنے سے گریز کریں۔ سردی کافی ہے اور گیس کی لوڈ شیڈنگ چل رہی ہے اور ٹھنڈے پانی سے نہانا کافی مشکل ہوتا ہے۔۔۔
ان مرد احباب کے لیے جنہیں غمِ جاناں ہے اور وہ اس کو شاعری کے زور پر غم دوراں بنانے پر تُلے ہیں، مشورہ ہے کہ وہ ان محترمہ کا تصوّر کریں جن کے بغیر ان کو لگتاہے کہ ان کی زندگی ادھُوری ہے۔۔ شادی کے بعد ان کو پتہ لگتا کہ خاتون کو چٹپٹی چیزیں کھانے کا شوق ہے، بنا بریں اوائل عمری سے ہی گیس ٹربل ان کی سہیلی ہے۔ اس صورت میں آپ کی آدھی تنخواہ تو ائیر فریشنر پر ہی خرچ ہوجاتی۔ اس کے علاوہ جتنا وقت وہ ہار سنگھار اور میک اپ پر خرچ کرتی ہیں، اتنی دیر آپ بھی میک اپ کریں تو ونیزہ احمد تو لگ ہی سکتے ہیں۔ غُبارِ عاشقی کی وجہ سے ہونے والی مسلسل زچگیوں کے باعث خاتون دو تین سال میں ہی پیچھے سے مُسرّت شاہین اور سامنے سے عابدہ پروین لگنے لگی ہیں۔ مرے پر سو دُرّے۔۔ آپ کے بیڈروم میں شیرخواروں کے بول کی مہک ایسی رچ بس گئی ہے کہ آپ کی سونگھنے کی حِس ہی مردہ ہوچکی ہے۔۔ اور خاتون کو ان سب چیزوں کا احساس دلانے پر وہ آپ کو شادی سے پہلے آپ کی احمقانہ گفتگو کے ایسے ایسے طعنے دینا شروع کردیتی ہیں کہ آپ کا اعتبار ہی دنیا، شادی، عورت سے اٹھ جاتا ہے اور آپ برہمچاری ہو کر اس دنیا سے بن باس لینے کا سوچنے لگتے ہیں۔
یہ سب تصوّر میں لانے کے بعد آپ کو اپنی گہری سانولی زوجہ، جو اس وقت مُنّے کو سُلا کر عمیرہ احمد کے ناول کی تازہ قسط پڑھ رہی ہیں، پر شدید ہارمونک پیار آئے گا۔۔۔ اور چاہے دسمبر یا ہو یا گیس کی لوڈ شیڈنگ۔۔ آپ نے باز تو آنا نہیں۔۔۔

مردودکی یاد میں

ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کسی کی یاد میں کبھی کچھ لکھنے کی نوبت آئے گی لیکن آج ہم بصد خوشی و مسرّت یہ سطور قلم بند کرنے کی سعاد ت حاصل کررہے ہیں۔ان کا ذکر کرنے سے پہلے تین دفعہ لاحول اور تین ہی دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر پاس بیٹھے ہوئے پر دم کردیں لیکن خیال رکھیں کہ کوئی انجان خاتون نہ ہوں ورنہ آپ کا دم بھی نکل سکتا ہے۔۔۔
آمدم برسر مطلب۔۔۔ان کا نام ایسا تھا کہ اسکی وجہ سے اکثر وہ کبھی کھابے کھاتے اور کبھی قتل ہونے سے بال بال بچتے رہے لیکن عرف عام میں انہیں سجن دشمن سب "مردود" کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں لیکن سب سے بڑی وجہ ان کا موقع محل اور جھونپڑی دیکھے بغیر بولنا تھا۔ مرے پر سو درّے، جب وہ بولتے تھے تو زیادہ تر باقیوں کی بولتی بند کردیتے تھے۔ لہذا انہیں اتفاق رائے سے مردود کا نام دیا گیا۔ دوست احباب البتہ زیادہ جوش و خروش سے ان کی غیر موجودگی میں یہ نام دہراتے تھے اور اپنے من کو ٹھنڈک پہنچاتے تھے۔
زمانہ طالب علمی میں اساتذہ اور ہم جماعتوں میں وہ یکساں طور پر غیر مقبول تھے۔ اساتذہ ان کے سوالات اور ہم جماعت ان کی حاضر جوابی (جنہیں چند حاسدین جگت بازی کا بھی نام دیتے ہیں) سے تنگ رہتے تھے۔ اساتذہ تو اپنا ساڑ کسی نہ کسی طرح نکال لیتے تھے مثلا اردو گرائمر پڑھاتے ہوئے، استاد  اچانک ان سے پوچھتے کہ  بوٹسوانہ کے  وزیر بہبود آبادی کا نام بتاؤ۔۔ مردود بھی ایسے کائیاں تھے کہ کریبونگا امبنگوا جیسا کوئی نام بول دیتے، استاد محترم کے لیے مشکل ہوجاتی کہ اگر غلط کہیں تو ٹھیک بتانا پڑے گا اور درست  مانیں تو مردود بچ جائیں گے۔ لیکن استاد بھی آخر استاد ہوتے ہیں۔۔ فورا ان سے فعل ماضی مطلق شکیہ  کی گردان سنانے کا حکم جاری کردیتے۔۔ تس پر مردود گویا ہوتے ۔۔ سرجی ! پھینٹی لانی اے تے لاؤ ، بہانے تے نہ لاؤ۔۔ اس پر محترم استاد اپنے دل کی بھڑاس شہتوت کی لچکدار چھڑی ان کے ہاتھوں اور تشریف پر برسا کے پوری کرتے۔۔
ہم جماعت، نہ زبانی اور نہ ڈنڈیں پٹّیں ، ان سے الجھنے کی ہمّت رکھتے تھے لہذا اس ساڑ کو اکثر و بیشتر ان کی غیرموجودگی  میں ان کے قصیدے پڑھ کے نکالاجا تا تھا۔ آپ کو خدا تعالی نے ڈھٹائی کی صفت سے نکونک مُتّصف کیا تھا، بنا بریں ایسی باتیں اگر ان کے کان میں پڑ بھی جاتیں تو بے شرمی سے ہنس کر، سنانے والے کو دو تین جگتیں ٹکا دیا کرتے۔ رفتہ رفتہ سب کو اندازہ ہوگیا کہ آپ ہمیشہ اپنی مرضی اور منشاء سے  کھیلتے ہیں، لائی لگ نہیں ہیں۔
اعلی تعلیم کے لیے لوگ باہر جاتے ہیں آپ اس سلسلے میں دو تین دفعہ اندر جاتے ہوئے بال بال بچے۔ کالج میں آپ کے جوہر مزید کھلے۔ ایک تو یہاں شہتوت کی چھڑی سے گدّڑ کُٹ لگانے والے اساتذہ نہیں تھے اور دوسرا ان کو اپنے مزاج کے چند اور مردود بھی مل گئے۔ جو آخری سانس (مردود کی آخری سانس) تک ان کے ساتھ رہے۔ آپ نے کالج میں اپنی منافقت کے باوصف جماعتیوں میں شمولیت اختیار کی حالانکہ آپ کی گفتگو اگر کوئی ناظم بھائی سن لیتے تو موقع پر  ہی ان کو شہادت سے سرفراز کردیتے۔ آپ کا  "باگا" بہت تھا۔ "زندہ ہے جمعیت زندہ ہے" کے نعرے لگاتے ہوئے دو تین دفعہ ایم ایس ایف کے ہاتھوں مرتے مرتے بچے۔ ان کے حاسدین ان کے اس طرح بچنے پر ہمیشہ سڑ کے یہی کہتے تھے کہ ۔۔۔ بُرائی اینی چھیتی نئیں مُکدی۔۔۔
آپ نے  یہ محاورہ بھی غلط ثابت کیا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے  نہیں۔۔۔ آپ گرجتے بھی تھے اور برستے اس سے زیادہ تھے۔ ایک دفعہ تو تنگ آکے ایم ایس ایف  والے وفد بنا کر مرکز میں تشریف لے گئے اور اکابرین سے درخواست کی کہ اگر اس کو لڑائی میں شامل کرنا ہوتا ہے تو ۔۔ اسیں اگّے توں لڑائی لڑائی نئیں کھیڈنا۔۔۔
چہرے پر چھائی نحوست ، مردودیت اور لفنٹر پن کے باوجود آپ ہمیشہ خواتین کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ اس کی وجوہات پر جب روشنی ڈالنے کے لیے کہا جاتا تو آپ ہمیشہ ایک ذلیل سی ہنسی کے ذریعے اس کا جواب دیتے۔ اس دلچسپی  کے سائیڈ افیکٹس  یہ تھے کہ ان خواتین کے خالو، پھوپھے، ماموں، چچا ، بھائی وغیرہ ہمیشہ ان پر بندوقیں کس کے پھرتے رہے ۔۔۔ بقول شاعر۔۔۔
کانٹے کی طرح ہوں میں "اقرباء" کی نظر میں
رہتے ہیں مری گھات میں چھ سات مسلسل
جو ں جوں وقت گزرتا رہا اس فہرست میں بھتیجے، بھانجے وغیرہ بھی شامل ہوتے گئے۔۔ اگر آپ  دنیائے فانی سے اتنی جلد دفع نہ ہوتے تو یقینا نوبت بیٹوں تک جا پہنچتی۔۔
آسماں تیری لحد پہ زہر افشانی کرے
آپ کی وفات مُسّرت آیات، اچانک  ہوئی۔ ایک دن صبح اٹھے اور فیصلہ کیا کہ آج کے بعد بدل جائیں گے۔ منافقت چھوڑ دیں گے، مردودیت سے کنارہ کرلیں گے، اچھے بچّے بن جائیں گے۔۔ اس فیصلے کی خوشی کی تاب نہ لاتے ہوئے، اسی شام داعئ حق کو لبیک کہہ گئے۔۔
حق، پاء لمّیاں لوے، عجب مردود مرد تھا

بابا حاجی

ہمارا گھر گلی میں داخل ہوکے بائیں ہاتھ پر تیسرا تھا۔ بائیں ہاتھ پر آٹھواں گھر، بابا حاجی کا تھا۔ ان کے اصل نام کا تو ہمیں کبھی علم نہ ہوسکا لیکن سب لوگ انہیں بابا حاجی کے نام سے ہی جانتے تھے۔ باریش، گُٹھا ہوا سر، تہہ بند اور کُرتا۔ کندھے پر سفید رنگ کا صافہ جو گرمی میں سر پر بندھا ہوتا تھا۔ شیخ برادری سے ان  کا تعلق تھا۔ زوجہ وفات پاچکی تھیں اور وہ اپنے بڑے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتے تھے۔ شیخ اور سیاستدان کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ مرتے دم تک اپنے کام سے لگے رہتے ہیں۔ یہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ کپڑے کی دکان پر جاتے تھے ۔ شام کو جلد واپس آجاتے تھے۔ ان کا مستقل ٹھکانہ ، ان کے گھر کے باہر والا تھڑا تھا ۔  شام کو اکثر وہیں پائے جاتے ، جہاں ان کے ساتھ ان کے ہم عمر بزرگ شہری  بھی محفل جمایا کرتے تھے۔
بابا حاجی ،  ہمارے بزرگوں کی اس روایت پر سختی سے کاربند تھے جس کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ چڑچڑا پن بڑھانا ضروری ہوتا ہے۔  ہم شام کو گلی میں کرکٹ ایمانی جو ش و جذبے کے ساتھ کھیلا کرتے ۔ زبیر کے گھر کے سامنے ہماری "پچ " تھی۔ بالر کا  رن اپ وہاں سے شروع ہوتا تھا جہاں بابا حاجی و ہمنوا شام کو بیٹھتے تھے۔ ہر گیند پھینکنے سے پہلے وہ بالر کو یہ تنبیہ ضرور کیا کرتے تھے کہ   ۔۔ جے گیند مینوں لگّی تے میں چھڈنا نئیں تہانوں"۔۔۔ شو مئی قسمت کہ برسوں ہم کرکٹ کھیلتے رہے ایک بھی دفعہ گیند ان کو نہیں لگی۔  لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تنبیہات میں غصہ اور برہمیت بڑھتی ہی رہی۔
ہم بھی لڑکپن سے خطرناک عمر تک بڑھتے رہے اور بابا حاجی کا چڑچڑ اپن بھی ۔  مسلسل ٹوکا ٹاکی سے تنگ آکر ہم نے اپنے گینگ آف عوامی کالونی سے مل کر ایک گھناؤنا منصوبہ بنایا ۔ جس کا مقصد بابا حاجی کو اس حد تک زچ کرنا تھا کہ وہ ہمیں تنگ کرنے سے با ز آجائیں۔ اس وقت ہمیں اگر یہ پتہ ہوتا کہ ساری زندگی کی عادتیں اس عمر میں جا کے نہیں بدلتیں تو یقینا ہم یہ حرکت نہ کرتے۔ پر ہر بات  مناسب وقت پر ہی پتہ چلے تو اچھا ہے ورنہ زندگی بے رنگ ہوجاتی ہے۔
ہم نے گلی کی بچہ پارٹی کو اکٹھا کیا اورانہیں اپنے ساتھ کبھی کبھار کرکٹ کھیلنے کا لالچ دے کر اپنے منصوبے کا حصہ بنایا۔  ایک دن شام کو جب بابا حاجی تھڑے پر تنہا بیٹھے تھے۔ سب سے پہلے باجی رانی کے صاحبزادے نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے کہا۔۔ بابا حاجی، سلاما لیکم۔۔ بابا حاجی نے خوش ہوکے جواب دیا۔۔ واالیکم سلام۔۔۔ دو منٹ بعد شیخ یونس کے تھتھّے صاحبزادے عدنان کی باری آئی۔۔ بابا ہادی۔۔ تھلامالیتم۔۔  انہوں نے غور سے اسے دیکھا اور جوابا  وعلیکم کہا۔۔ تیسرے بچے پر ان کا پارا تھوڑا چڑھ گیا۔۔ چوتھے پر انہوں نے چلا کے سلام کا جواب دیا۔ پانچویں کو گالی اور چھٹے کے پیچھے مارنے کو بھاگے۔۔۔
گلی میں ہونے والے خلاف معمول شور نے خواتین خانہ کی توجہ بھی مبذول کرالی اور  گھروں کے دروازے آباد ہوگئے۔ بابا حاجی  کو اپنے گھر کے سامنے کھڑے بآواز بلند گالیاں بکتے دیکھ اور سن کر خواتین ہکّا بکّا رہ گئیں کہ اس سے پہلے بابا حاجی کے منہ سے ایسے الفاظ کسی  نے نہیں سنے تھے۔ اب یہ روز کا معمول بن گیا۔ بچوں کے ہاتھ ایک کھیل آگیا۔۔ وہ دور سے ہی بابا حاجی کو دیکھ کر نعرہ لگاتے۔۔ بابا حاجی، سلاما لیکم۔۔ اور  وہ انہیں ایسی ایسی گالی دیتے کہ ان کی والدائیں گھروں کے اندر شرم سے دُہری ہوجاتیں۔  خواتین نے زنانہ چینل کی وساطت سے اپنی گذارشات ان کی بہو تک بھی پہنچائیں لیکن وہ بے چاری بھی کیا کرتیں۔ بگڑا ہوا بابا، سدھارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔
یہ تماشہ  سالہا سال جاری رہا۔ گلی سے بات نکل کے پورے محلے میں پھیل گئی۔ راہ چلتے لوگ انہیں ۔۔ بابا حاجی، سلاما لیکم ۔۔  کہہ کے ان کی گالیوں کا مزا لینے لگے۔ تماش بینی ہمارے خمیر میں شامل ہے چاہے اس میں ہمیں ہی گالیاں کیوں نہ پڑ رہی ہوں۔ بابا حاجی کو کبھی پتہ نہیں چل سکا کہ ان کے ساتھ یہ کھیل کھیلنے والے کون تھے ۔  سب یہی سمجھتے رہے کہ  بابا حاجی عمر کے تقاضے کی وجہ سے سٹھیا  گئے ہیں۔
اس وقت تو نہیں لیکن کافی عرصہ بعد ہم پر یہ کُھلا کہ پرہیزگاری اور تقوی کے زُعم میں گنہگاروں کو دیوار سے نہیں لگانا چاہیے۔ اگر وہ پلٹ کر حملہ آور ہوجائیں تو آپ کے اندر کا بابا حاجی جسے آپ ساری عمر مختلف طریقوں سے چھپا کے رکھتے ہیں وہ عُریاں ہو کر سب کے سامنے آجاتا ہے۔ 

کرکٹ، انقلاب اور چودہ اگست

کرکٹ سے دلچسپی شاید ہمارے خون میں شامل ہے ۔  گھر میں اور خاندان میں دو چیزیں ہر وقت موضوع بحث رہتی تھیں، کرکٹ اور سیاست۔ سیاست سے ظاہر ہے ایک بچے کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے البتہ کھیل کی باتیں اس کے لیے کھلونے کی حیثیت رکھتی تھیں۔ جب کبھی ابو اور ان کے بھائی اکٹھے ہوتے اور وہ اکثر ہوتے   تو کرکٹ پر دھواں دھار قسم کے تبصرے ہوتے تھے۔ ہمارے چچا وسیم راجہ کے بہت بڑے پرستار تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اپنے دور میں وہ شاہد آفریدی جیسا کراوڈ پُلر تھا۔ ابو ، مشتاق محمد ، ظہیر عباس ، عمران اور میانداد کے پرستار تھے۔ خاص طور پر میانداد کی بیٹنگ اور عمران کی بولنگ۔
ہم نے کرکٹ کھیلنے کا آغاز اپنے گھر کے صحن سے کیا۔ باورچی خانے کا دروازہ بند کرکے اس سے سٹمپس کا کام لیا جاتا حالانکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ اس وقت ہمارے خیا ل میں کرکٹ کا مطلب صرف ہمارا باری لینا ہوتا تھا۔ ہماری بڑی بہن ، بالنگ پر  بہ جبر مامور ہوتی تھیں اور لاڈلا ہونے کی وجہ سے ان کو کہا جاتا تھا کہ جب تک ہم تھک نہ جائیں ہمیں بالنگ کراتی رہیں۔  ہماری ایک ماموں زاد بہن ،  جو عمر میں ہم سے کافی بڑی اور ہم سے کافی انسیت رکھتی تھیں۔ وہ بے چاری جب بھی ہمارے گھر آتیں تو ہم ان کے اس لگاو کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ان کو لگاتار بالنگ کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ وہ ہمیں "ویرا" کہا کرتی تھیں  (اب بھی ویرا ہی کہتی ہیں)۔۔ تو عاجز آکے کہتیں کہ۔۔۔ ویرے، بس کر، میں تھک گئی آں۔۔ پر انسان کی فطرت ہے کہ جب اسے پتہ چل جائے کہ کوئی اس سے پیار کرتا ہے تو وہ اس کو بلیک میل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔  اب بھی کبھی ان سے ملاقات ہوتی ہے تو میں ان کو یاد کراتا ہوں کہ باجی، یاد ہے جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے ۔۔ توو ہ ہماری کمر پر ایک زوردار دھموکا رسید کرکے کہتی ہیں ۔۔ توں بڑا کمینہ سیں۔۔۔ انکی شادی گوجرانوالہ میں ہوئی تھی تو ایک دبنگ نیس انکی طبیعت کا حصہ بن گئی ہے، خیر۔۔۔
صحن کے بعد ہماری کرکٹ کی  اگلی منزل گلی میں کھیلنا تھا۔ گلی میں کھیلنے سے ہمیں پتہ چلا کہ یہاں صحن والے قوانین نہیں چل سکتے۔ ٹھیک ہے کہ گیند اور بلا ہمارا ہے لیکن جب تک ہم دوسرے کھلاڑیوں کو باری نہیں دیں گے کوئی ہمارے ساتھ کھیلنے پر راضی نہیں ہوگا۔  یہ پہلاسمجھوتہ تھا جو ہم نے کیا۔ ایک بات خیر ہم نے بھی منوالی کہ پہلی باری ہمیشہ ہماری ہوگی ۔ اس کے علاوہ پہلا بال، ٹرائی ہوگا اور اس پر صرف کیچ آوٹ ہوگا۔ نیز اگر دیوار سے لگ کر گیند کیچ کی گئی ہے تو وہ ایک ہاتھ سے کیچ پکڑنا ہوگا ورنہ  بلے باز ناٹ آوٹ تصور ہوگا۔
جب ہم ہائی سکول پہنچے تو ہماری کرکٹ بھی گلی سے ترقی کرکے سکول گراونڈ تک پہنچ گئی۔ آدھی چھٹی کے وقت پانچ پانچ اوورز کا میچ کھیلا جاتا اور جمعرات کو چونکہ آدھی چھٹی ساری ہوتی تھی تو اس دن دس اوورز کا میچ۔  ان میچز میں امپائر ہمیشہ بیٹنگ ٹیم کا ہوتا تھا۔ اور وائڈ بال اور نوبال کے جھگڑے معمول تھے۔ یہاں ہم ایک اعتراف کرنا چاہیں گے کہ "روند" مارنا ہماری فطرت میں شامل  تھا اور جہاں بھی ہمیں کوئی گنجائش نظر آتی ہم روند ضرور مارتے تھے۔  وہ تو ایک دن ہمیں ہمارا سوا سیر اسامہ آفتاب کی شکل میں ملا تو ہم تھوڑے محتاط ہوئے۔ ہماری بالنگ پر بلے باز نے ہٹ لگائی اور لانگ آف پر کیچ ہوگیا۔ اسامہ بھائی جو امپائرنگ کررہے تھے، فٹ  بولے، "ناٹ آوٹ۔" ہم چلاّئے۔۔ کیوں؟ تو جواب ملا ۔۔ یہ بمپر ہے۔۔۔ ہم نے سر پیٹ لیا کہ بمپر لانگ آف تک کیسے جاسکتا ہے؟ لیکن وہ بھی ایک ہی کائیاں تھے۔۔ بولے۔ ۔۔ امپائر کا فیصلہ چیلنج نہیں ہوسکتا۔ ۔۔ اس فیصلہ پر اتنا فضیحتا ہوا کہ آدھی چھٹی کا وقت ختم ہوگیا اور جو ہم نے ایک دوسرے کو دھکے اور گالیاں دیں وہ علیحدہ۔
ٹینس بال سے ٹیپ بال اور پھر ہارڈ بال تک۔۔ہماری کرکٹ کا سفر جاری رہا۔ ایک رجسٹرڈ کلب کی طرف سے بھی کھیلے۔ بوہڑاں والی گراونڈ ، پنجاب میڈیکل کالج کی گراونڈ، جواد کلب اور ایک دو دفعہ اقبال سٹیڈیم میں بھی کھیلنے کا اتفاق ہوا۔  ہر میچ سے پہلے دونوں ٹیمیں کچھ اصول طے کرلیتی تھیں اور ان پر عمل ہوتا تھا۔ مثلا تیس اوورز کا میچ۔۔ اب یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک ٹیم نے تیس اوورز میں تین سو کرلیا ہے تو دوسری ٹیم مطالبہ کردے کہ چونکہ سکور زیادہ ہیں اس لیے ہمیں چالیس اوور بیٹنگ ملنی چاہیے۔ نہ ہی کبھی کسی ٹیم نے اپنے بہترین بلے باز کے آوٹ ہونے پر یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے وکٹ کیپر کی باری بھی یہی بیٹسمین لے گا۔ اگر کوئی ایسا مطالبہ کرتا تو یقینا ہم سب اسے مل کر پاگل خانے چھوڑ آتے۔ ہاں کھیل کے دوران قوانین کی من مانی تشریح سے اگر کوئی "روند" مارا جاسکتا تھا تو اس میں کسی نے کمی نہیں کی ۔ مثلا ان میچز میں امپائرز ہمیشہ بیٹنگ ٹیم کے وہ کھلاڑی ہوتے تھے جن کی ابھی باری نہ آئی ہو یا جو آوٹ ہوچکے ہوں، غیر تحریری قانون یہ تھا کہ ایل بی ڈبلیو کسی صورت نہیں دینا۔ہمارا ایک سیمر ، بدر،  جو نیٹس میں تو گیند ایسے سوئنگ کرتا تھا جیسے ٹیری آلڈرمین ہو، لیکن جب بھی میچ میں کھلایاجا تا تو کوئی اوور دس گیندوں سے کم کا نہیں ہوتا تھا۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ نیٹس میں یہ عمران بھولے جیسے جینئس کو ہلنے نہیں دیتا اور میچ میں اس سے گیند دوسرے اینڈ تک نہیں پہنچتی۔۔ ۔۔ بہرحال یہ حقیقت اور مجاز کا فرق ہمیں بعد میں پتہ چلا۔۔۔ تو یہ بدر میاں انتہائی "سخت" امپائر تھے، انکی بالنگ تو کبھی میچ نہیں جتواسکی، انکی امپائرنگ نے البتہ کافی میچ جتوائے اور کافی لڑائیاں کروائیں۔۔ ایل بی ڈبلیو کی اپیل پر ان کا ایک خاص انداز ہوتا تھا جس میں وہ بالر کودائیں ہاتھ کے اشارے سے بتاتے تھے کہ لیگ سٹمپ مس ہے۔۔ آف سٹمپ کے باہر پیڈز پر لگنے والی گیند کو بھی وہ۔۔۔ "لیگ سٹمپ مس  ہے"۔۔ کہا کرتے تھے۔
ہم نے جیسی معمولی سی کرکٹ کھیلی اس سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ جب ہم کسی کھیل کو کھیلتے ہیں تو پہلے سے مقرر کردہ اصول و ضوابط کے مطابق ہی اسے کھیلا جاسکتا ہے۔ ان ضوابط کو اپنی مرضی کے مطابق ہم بدل یا موڑ نہیں سکتے۔ اس صورت میں کھیل ختم ہوجائے گا یا فساد ہوگا۔ اپنی روند مارنے والی فطرت کے باوصف ہم نے کافی صاف ستھری کرکٹ کھیلی کیونکہ ہمیں علم تھا کہ اگر کھیلنا ہے تو اس کے لیے دل بڑا کرنا پڑے گا۔ناکہ ہر وائڈ اور نوبال پر سِیڑی سیاپا اور ہر آؤٹ پر واک آؤٹ۔
جب انقلاب کا وقت تھا اس وقت آپ نے اس سیاسی کھیل میں شامل ہونا مناسب سمجھا جو بڑے بھائیوں کے جوڑ توڑ، پیسہ اور سٹیٹس کو کے اردگرد گھومتا ہے۔ بھائیوں نے آپ کو ایک پورا گروپ پلیٹ میں رکھ کے پیش کیا۔ پیسے کے لیے ترین اینڈعلیم خاں اینڈ کو جیسے لوگ۔۔ نظریاتی  مال بیچنے کے لیے شیریں مزاری جیسے نابغے اور مغلظات کے لیے شیخ رشید جیسے متقی، الیکشن جیتنے والے امیدواروں کی ایسی کھیپ جن کا نظریہ سے اتنا ہی واسطہ ہے جتنا آپ کا کتاب سے ہے۔ اس وقت آپ ان سب باتوں سے انکار کردیتے اور نوجوانوں کو ساتھ لے کے اسلام آباد پر چڑھ دوڑتے کہ اس نظام کے تحت انتخاب کو میں نہیں مانتا۔ مجھے انقلاب چاہیے۔ آپ نے وہ اصول و ضوابط مانے جس کے تحت پاکستان میں یہ گندا کھیل کھیلا جاتاہے اور اپنے ہاتھ اس میں ہر ممکن حد تک گندے کیے۔ اب ہوا یہ کہ جو آپ سے زیادہ بڑے کھلاڑی تھے انہوں نے آپ کو زیر کرلیا۔ اب آپ یہ مورال ہائی گراونڈ نہیں لے سکتے کہ میں اس گلے سڑے نظام کو نہیں مانتا اور مجھے انقلا ب چاہیے۔ نہیں حضور والا، اگر انقلاب چاہیے تو اپنے اردگرد جمع سرمایہ داروں اور دلالوں کو پارٹی سے نکالیے، اسمبلیوں سے استعفے دیجیے اور سارا تمبا پھوک کے میدا ن  میں آئیے۔ کرکٹ کے کھیل میں فٹبال کے اصول نہیں چلتے حضور۔۔ ابن زیاد کی طرف سے لڑتے ہوئے، حسین سے محبت کا دعوی جچتا نہیں۔
حُر بننے کے لیے ابن زیاد کا لشکر چھوڑنا پڑتا ہے۔

ریٹائرڈ بزرگ کی ڈائری

رات جوڑوں میں درد کچھ سِوا تھا۔مرے پر سو دُرّے ،  نیند  کی دو گولیاں کھانے کے بعد آنکھیں مزید کھل گئیں۔ خدا خدا کرکے نیند آنے ہی لگی تھی کہ بیگم صاحبہ کے خرّاٹوں والی مشین چالو ہوگئی۔  خد اجھوٹ نہ بلوائے ایسے خوفناک خرّاٹے مارتی ہیں کہ کسی ہارر فلم کے بیک گراونڈ میوزک کا گمان ہوتا ہے ۔ جانے کس سائل کی بددعا لگی تھی جو ہمیں ایسی بیگم ملیں۔  ریٹائرمنٹ کے بعد تو اب کسی پر حکم چلانے کی حسرت ہی رہ گئی ہے۔پہلے گھر میں گزارے ہوئے وقت کی کسر ہم دفتر میں ماتحتوں اور سائلین پر نکال لیا کرتے تھے۔ اب تو ہمیں اپنا آپ کسی پنکچر سائیکل کی طرح لگتا ہے۔  ایسے دردناک خیالات کے جھرمٹ میں نجانے کس وقت نیند آگئی۔ خواب بھی شدید ڈراؤنے تھے۔ جس میں بیگم کے چھ ہاتھ اور دس ٹانگیں تھیں اور وہ ہمیں اپنی گرفت میں لے کر ایسے بھینچتیں کہ ہماری پسلیاں کڑ کڑ کرکے ٹوٹ جاتیں۔ پھر ہمیں ایلفی پینے پر مجبور کرتیں ۔ جس سے پسلیاں فورا جڑ جاتیں۔ یہ عمل بار بار دہرایا جاتا۔ اس خواب میں بیگم نے تشدد کی کچھ ناقابل بیان تکنیکس بھی استعمال کیں۔ جو ہم بوجہ شرم اور خوف بیان نہیں کرسکتے۔  اگلے منگل سائیکاٹرسٹ کے ساتھ اپائنٹ منٹ ہے۔  اس سے نئی پریسکرپشن لکھوانی پڑے گی۔
صبح  بیگم کی غُرّاتی ہوئی آواز سے ہماری آنکھ کھلی۔  ناشتے پر بلارہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں ۔۔ آؤ، کھا مرلو۔ مرتا کیا نہ کرتا۔۔ لشٹم پشٹم اٹھ کر ضروریات سے فارغ ہوا۔ اس میں بھی اب کافی دیر لگ جاتی ہے۔ یہ قبض بھی جان نہیں چھوڑتی۔بواسیر نے الگ جان عذاب کی ہوئی ہے۔  ٹھنڈی بدمزہ پھیکی چائے اور اکڑے ہوئے توس۔ یہ ناشتہ ہمیں تقریبا روز زہر مار کرنا پڑتا ہے۔ چائے ٹھنڈی ہونے کی شکایت پر  بیگم نے کڑے تیوروں سے جواب دیا کہ اگر گرم چاہیے تو  واش روم میں ساتھ ہی لے جایا کرو۔جتنی دیر تم وہاں لگاتے ہو اتنی دیر میں سات کلومیٹر واک ہوجاتی ہے۔ ہم نے کان لپیٹ کر یہ سنا  اور اخبار لے کر برآمدے میں چلے آئے۔ دو تین گھنٹے تک ہم نے ٹینڈر نوٹس تک پڑھ ڈالے۔ اس ساری مشق سے ہمیں جو علم حاصل ہوا اس کو بانٹنے کے لیے سمارٹ فون کو آن کیا اور  دھڑا دھڑ فیس بک سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے شروع کردئیے۔  دیٹ  فیلز سو گُڈ۔ آخر کار ہم بھی ملک و قوم کی ترقی کے لیے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں۔ اس جاہل قوم کو سمجھانے اور سیدھی راہ پر لانے کے لیے ہم نے بہت سے اقوال زرّیں، اسلامی معلومات اور انقلابی نظریات والے فیس بک پیجز کو لائیک کیا ہوا ہے۔وہاں سے چُنیدہ تصاویر ہم اپنی وال پر شئیر کرتے ہیں اور موقع ملے تو ٹویٹ بھی کردیتے ہیں۔
اس مصروفیت میں تقریبا سارا دن گزر جاتا ہے۔ بیگم کے لیے تو ہم ایک اضافی سامان ہیں۔ جسے وہ سٹور میں ڈال کے بھول جاتی ہیں۔ خیر۔۔۔ ایسا سلوک تو وہ ہم سے جوانی میں بھی روا رکھتی تھیں اور اب تو ہم ان کے کسی کام آنے کے قابل بھی نہیں رہے۔  بوقت جوانی بھی کام کے دباؤ اور تھکن کی وجہ سے ادویات ہی استعمال کرنی پڑتی تھیں۔ لیکن اب تو جدید ادویات بھی کوئی اثر نہیں کرتیں۔  شاید بیگم ہمارے ساتھ جو کُتّے کھانی کرتی ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ لیکن ہم بوجہ شرمندگی اور خوف ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کرتے کہ  بیگم کی زبان بالکل  اسی طرح بے قابو ہے  جس طرح ہم سوشل میڈیا پر بے قابو ہیں۔ وہ ہمیں ایسے ایسے شرمناک طعنے  اور مہنے دیتی ہیں کہ مرد ہوکے بھی ہمیں ٹھنڈے پسینے آنے لگتے ہیں ۔  
مردانگی کی یہ ساری کمی ہم آن لائن پوری کرلیتے ہیں۔ کسی کو کچھ بھی کہہ دیں اور جیسے مرضی کہیں کوئی ہمیں پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ بالکل افسری والی فیلنگ آتی ہے اور ہمیں وہ سہانا زمانہ یاد آجاتا ہے جب ہم اپنے ماتحتوں اور سائلین کو نت نئی مُغلّظات سے نوازا  کرتے تھے۔ وہی مشق اب سوشل میڈیا پر کام آرہی ہے۔  ہمارے سٹیٹس کو دھڑا دھڑ لائیکس ملتے ہیں اور نوجوان نسل اس پر تعریف و توصیف والے کمنٹس کرتی ہے تو بالکل آرگیزم والی فیلنگ آتی ہے۔ جو کام جدید ریسرچ اور مہنگی ترین ادویات نہ کرسکیں وہ سوشل میڈیا نے کردکھایا ہے۔ اب ہمیں لطف حاصل کرنے کے لیے کسی دوسرے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس معاملے میں خود کفیل ہوچکے ہیں۔ تین چار سٹیٹس اور بیس پچیس ٹویٹس سے ہمارا گھر پورا ہوجاتا ہے۔ الحمدللہ
سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہی ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی میں کچھ رنگ ہیں۔ یہ نہ ہوتے تو شاید ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے پاس فوت ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہ بچتا۔

ہدایت نامہ برائے روزہ داران

"رامادان" کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف لوگ باگ اس کے استقبال کے لیے الٹی قلابازیاں لگانے کی مشقیں کرنے میں مشغول ہیں۔ تو ہم نے اپنے خدمت خلق کے قدیمی جذبے کے تحت اس "ماہ مبارک کے مہینے "میں احباب کے لیے چند سفارشات تیار کی ہیں۔  گر قبول افتد زہے عزو شرف۔
بیمار، مسافر پر روزہ فرض نہیں ہوتا تو کوشش کریں کہ کسی نہ کسی طرح بیمار ہوجائیں نہ ہوسکیں تو کسی بھی متقی و پرہیزگار ڈاکٹر سے بیماری کا سرٹیفیکٹ لے لیں۔ جس میں واضح لکھا ہو کہ حامل ہذا رقعہ روزے رکھنے کے لیے نااہل ہے تاہم سحر و افطار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔  اگر آپ کا دل یہ سب کرنے کو نہ چاہے تو جگر جیسے کسی بھی "علامے" سے فتوی خرید۔۔ میرا مطلب ۔۔ لے لیں کہ جو سفر آپ گھر سے دفتر یا دکان یا درسگاہ تک کرتے ہیں وہ شرعی طور پر آپ کو مسافر ڈیکلئیر کرتا ہے۔ ہیں جی!۔
نئی نویلی دعائیں،  ورود و  وظائف  ڈھونڈنے کے لیے "لُور لُور" پھریں۔ خاص طور پر وہ دعائیں ڈھونڈیں جن سے ماضی کے علاوہ مستقبل کے گناہ بھی معاف ہوسکیں۔ یہ دعائیں جب آپ کے قابو میں آجائیں تو پھر روزے رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بس مطلوبہ مقدار میں دعا پڑھ کے خوب ڈٹ کے تین چار بار کھانا کھائیں،علاوہ ازیں  افطاریاں بھی پھڑکائیں۔  ہم خرما و ہم ثواب۔۔ ہیں جی!۔
اگر آپ کا ضمیر انتہائی ڈھیٹ اور واہیات قسم کا ہے اور ایسے حیلے سوچنے پر آپ کو نہایت فحش الفاظ سے نوازتا ہے تو فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔ اس کا بھی علاج موجود ہے ۔ فجر کی آخری اذان کی آواز آنے تک کھاتے  اور پیتے رہیں۔ پھر جلدی سے وضو کرکے گھر میں ہی نماز پڑھ کے سوجائیں۔ روزے کی حالت میں سونا بھی ثواب عظیم ہوتا ہے۔ اور مسلمان کا تو مقصد ہی ثواب کمانا ہے۔ دھڑا دھڑ اور بے حساب ثواب۔  اگر آپ کا دفتر نو بجے شرو ع ہوتا ہے تو  گیارہ بجے تک دفتر پہنچ جائیں۔ چہرے پر مظلومیت نما نحوست طاری رکھیں تاکہ دفتر والوں اور سائلین کو علم ہوتا رہے کہ آپ روزے سے ہیں۔ اس  کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی آپ کو تنگ کرنے کی جرات نہیں کرے گا ۔ الاّ یہ کہ وہ خود روزے سے ہو۔
 بارہ بجنے میں دس منٹ ہوں تو ظہر کی نماز کے لیے اس مسجد میں چلے جائیں جہاں  فل ٹھنڈ ماحول ہو اور اس کا جنریٹر تربیلا کے جنریٹرز کا مقابلہ کرتا ہو۔ مسجد کے مسلک پر زیادہ دھیان نہ دیں کہ حالت اضطرار میں سب جائز ہوتا ہے۔ ایسی مساجد زیادہ تر آمین بالجہر والوں کی ہوتی ہیں اس لیے اگر آپ  آمین آہستہ بھی کہتے ہیں تو اپنے علاموں کے فتووں سے صرف نظر کرتے ہوئے بس برکتیں لوٹنے پر توجہ مرکوز رکھیں۔  ظہر کی نماز کے بعد ایک دو گھنٹے مسجد کے متبرک ماحول میں سوجائیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مسجد میں سونا بھی باعث ثواب ہے۔  تین بجے تک دفتر واپس آئیں اور آتے ہی جانے کی تیاری شروع کردیں۔  گھر واپس آتے ہوئے کسی فائیوسٹار مسجد میں نماز عصر ادا کریں۔ اگر گھر جا کے لوڈشیڈنگ  سے پالا پڑنے کا امکان ہو تو افطاری تک وہیں رہیں اور عین افطاری کے وقت گھر پہنچیں۔
یہاں  آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم نکتے کی طرف مبذول کرانا ضروری ہے۔ سحری کے وقت  کھانا اس وقت بند کریں جب میلاد شریف والی مسجد سے اذا ن کی آواز آئے اور افطاری ، آمین بالجہر والوں کی اذان مغرب سے کریں۔ اس سے آپ کا روزہ تقریبا پندرہ منٹ چھوٹا ہوجائے گا۔ ۔۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی ۔۔ وغیرہ۔۔۔ ۔ 
آمدم برسر مطلب۔ افطاری  بھی بہت ثواب کاکام ہے۔ جتنی زیادہ کھائیں گے اتنا زیادہ ثواب۔ یہ عبادت دل لگا کر کریں۔ دوران افطاری مغرب کی نماز جماعت سے پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا ۔ خیر ہے۔ پہلے کونسا آپ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ افطاری سے فراغت کے بعد ظاہر ہے غنودگی طاری ہوگی کیونکہ آپ نے سارا دن روزہ رکھا اور اپنا کام بھی ایمانداری سے کیا ۔ اسلیے عشاء کی اذان تک نیند کی ایک جُھٹّی لگا لیں۔   بیدار ہوکے رات کا کھانا کھائیں۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہ کے اور شدید محنت کرکے  جو توانائی زائل ہوئی تھی ، وہ مسلسل اور متواتر کھانے سے ہی بحال ہوسکے گی۔ اس سے غفلت نہ برتیں۔  عشاء کی نماز اور تراویح کے لیے ایسی مسجد ڈھونڈیں جہاں تراویح کی تعداد آٹھ اور دورانیہ بیس منٹ ہو۔ ویسے بھی تراویح نفل عبادت ہے، پڑھ لیں تو ثواب اور نہ پڑھیں تو گناہ نہیں اور گناہ نہ کرنا بھی ثواب ہی ہوتا ہے۔۔ لہذا ثواب ہی ثواب۔۔۔

ہیں جی!۔ 

قربانیاں وغیرہ

خالی پیلی حب الوطنی ہیروئن کے نشے سے کم نہیں ہوتی۔ ملّی ترانوں سے  جاگنے والی حُبّ وطن ، بجلی کا بل دیکھ کے فورا سو بھی جایا کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اپنے ملک سے محبت نہیں ہونی چاہیے یا یہ کوئی قابل دست اندازیءپولیس جرم ہے بلکہ اس محبت کی جڑیں ، حکمران طبقات کی حرامزدگیوں کے دفاع کی بجائے اس ملک کے وسائل میں حصہ داری سے پھوٹنی چاہییں۔ 
سوشل میڈیا سے مین سٹریم میڈیا تک ہر جگہ آج کل آپریشن کے چرچے اور ان میں فوجی جوانوں کی قربانیوں کا ذکر خیر جاری ہے۔  عوام سے  کہاجارہا ہے کہ فوج کے ساتھ اس نازک موقع پر کھڑے ہوجائیں اور اپنے دشمنوں کو فیصلہ کن شکست دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔  یہاں چند سوالات  پیدا ہوتے ہیں۔  ہمیں بچپن سے آج تک یہی پڑھایا اور سکھایا گیا کہ ہمارا دشمن  ہندوستان ہے۔ اس نے ہمارے ساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں۔  کشمیر پر قبضہ کرلیا ہے۔ دریاوں کا پانی روک لیا ہے۔ قیامت تک قائم رہنے کے لیے بننے والے ملک کو توڑ دیا ہے۔ وطن عزیز میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ وغیر ہ وغیرہ۔ ہم نے اسی جوش ایمانی میں ہندوستان سے کافی جنگیں بھی لڑیں۔ جن کا نتیجہ، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا ، بارہ آنہ۔۔ نکلا۔  اب ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ اصل دشمن دراصل ہمارے اندر ہی چھپا ہوا ہے ۔ اور اس کا مقابلہ کرنا ہماری بقاء کے لیے ضروری ہے۔ جی   بہتر ۔ ایسا ہی ہے۔ ہم نے مان لیا۔ یہ اصل دشمن کہاں سے آیا؟  کس نے انہیں ملک میں گھسنے دیا؟ کس نے انہیں اس حد تک طاقت حاصل کرنے دی کہ آج وہ ایک ایٹمی طاقت کی فوج کے ساتھ ایک باقاعدہ جنگ میں ملوث ہے؟ یہو د و ہنود کی سازش والے زید حامدی نظریات کو ایک طرف رکھ کے سوچا جائے تو کیا یہ انہی کی ذمہ داری نہیں تھی جو آج قربانیوں اور شہادتوں کے ذکر سے پورے میڈیا کو بھر رہے ہیں؟  کیا یہ لشکر اور اسلام کے پرائیویٹ مجاہدوں کی فوج ، بلدیہ گکھڑ نے بنائی تھی؟ کیا ان کی تربیت  کھرڑیانوالہ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء نے کی تھی؟ کیا ان کی مالی مدد انجمن تاجران کچہری بازار،  فیصل آبا د نے کی تھی؟  یہ سوال پوچھنے پر جو جواب بلکہ طعنہ فورا سے پیشتر ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے۔ نہیں جناب، یہی وقت ان باتوں کا ہے۔ فوج کے جوان اور افسر شہید کروانے والوں کے ذمہ داروں سے سوال کا یہی وقت ہے۔   آج اگر ان کی پالی ہوئی بلائیں ان کے قابو سے باہر ہوگئی ہیں اور اس ملک کی جان کے درپے ہیں تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ دوبارہ یہ سب کچھ نہیں کیا جائے گا؟ 
قرائن سے بھی واضح ہے کہ کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ اپنے پسندیدہ لشکر آج بھی پالے جارہے ہیں۔ اور انکو تزویراتی اثاثوں کا درجہ دے کر ان کے نخرے اٹھائے جارہے ہیں۔ کل کو اگر یہ بھی قابو سے باہر ہوگئے تو پورا پاکستان ، پناہ گزین ہوکے کہاں جائے گا؟   جو لوگ اب اس ریاست کے دشمن بن کے ریاست سے لڑ رہے ہیں۔ کبھی ان کو پاکستان کی پہلی دفاعی لائن کہا جاتا تھا۔ ان کے تقوی اور پرہیزگاری کے قصیدے  ایسے ایسے لوگ پڑھتے تھے کہ ۔۔ دامن نچوڑ دیں تو "فرشتے" وضو کریں۔۔۔ آج یہ وحشی اور درندے ہیں۔ حضور، یہ اس وقت بھی وحشی اور درندے ہی تھے ، فرق یہ تھا کہ اس وقت یہ آپ کے اپنے وحشی اور درندے تھے ۔ اب یہ آپ کو کاٹنے لگے تو قربانیاں دینے کے لیے عوام کو آواز؟ یہ سب کرنے سے پہلے "عوام" سے پوچھنے کون آیا تھا؟
جتنے مرضی آپریشن کرلیں، جتنے مرضی بندے مار کے اپنا ہی ملک فتح  کرتے رہیں جب تک "سوچ" نہیں بدلے گی ۔۔ کچھ نہیں بدلے گا۔۔ اور اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ صرف طاقت کے بل پر سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے تو اسے اپنے ارد گرد کے حالات پر نظر ڈال لینی چاہیے۔ عراق، شام، لیبیا، مصر۔۔۔  

بہت گُلّو بٹّیاں ہوگئیں، اب انسان بن جائیں۔

حاجی ثناءاللہ کی ڈائری

معمول کے مطابق تہجد کے وقت آنکھ کھلی۔ زوجہ کو جگا کر وظیفہ زوجیت ادا کیا۔ زوجہ تھکن کا بہانہ بنا کر پھر سوگئی۔ احمق عورت۔ اسی لیے جہنم عورتوں سے بھری ہوگی۔ نہ نماز نہ روزہ۔ غسل جنابت سے فراغت پا کر باداموں والے دودھ کے دو گلاس نوش کیے۔ تہجد اداکی۔ فجر تک کمر سیدھی کی۔ فجر ادا کرکے  تھوڑی دیر کے لیے پھر آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو بچے سکول جاچکے تھے۔ہلکا پھلکا  سا ناشتہ جو دو  پراٹھوں، انڈوں کے خاگینے اور دیسی گھی کے حلوے  پر مشتمل تھا، کیا۔  دکان پر جانے سے پہلے والدہ محترمہ کو سلام کرنے گیا۔ وہ شکایت کرنے لگیں کہ برآمدے میں گرمی لگتی ہے، پنکھا بھی نہیں ہے۔ بزرگ اور بچے میں کوئی فرق نہیں رہتا ، ہر وقت شکایت اور فرمائش۔ میں نے والدہ کی بات پر اللہ کے احکام کے مطابق اُف تک نہیں کیا اور خاموشی سے دکان کے لیے روانہ ہوگیا۔
صبح کے اوقات میں سڑکوں پر کافی رش تھا اور کچھ تاخیر بھی ہوگئی تھی۔ رستے میں دو جگہ اشارہ  بھی توڑنا پڑا۔ ایک سائیکل والے کو ہلکی سی ٹکر بھی لگ گئی۔ اللہ کا لاکھ احسان کہ وہ گاڑی کے نیچے نہیں آیا۔  اللہ کریم کی مدد ہمیشہ شامل حال رہتی ہے۔ اگر وہ مر مرا جاتا تو بیٹھے بٹھائے لمبا خرچہ گلے پڑجاتا۔ الحمدللہ۔
دکان پر پہنچا تو فیقا دکان لگاچکا تھا۔ سارے دن میں اس نے بس یہی کام کرنا ہوتا ہے۔ صبح دکان کھول کے لگانا اور شام کو بند کرنا۔ یا گاہک کےساتھ ڈیلنگ کرنا۔ لیکن ان نیچ لوگوں کے نخرے ایسے ہیں کہ جیسے پوری دنیا سر پر اٹھائے چل رہے ہوں۔ دو ڈھائی سو تھان اٹھا کے باہر رکھنے اور پھر اندر رکھنے، یہ کوئی کاموں میں سے کام ہے؟ لیکن جب دیکھو ۔۔ شکایت۔۔پورے سات  ہزار روپے ماہانہ صرف اس معمولی کام کے ملتے ہیں۔ ناشکرگذاری بھی کفر کے برابر ہوتی ہے۔ نام کے مسلمان۔۔ نہ توکل، نہ صبر نہ شکر۔
دکان میں داخل ہوتے وقت  معمول کے مطابق، روزی میں برکت کے لیے سولہ دعائیں جو حضرت صاحب نے بتائیں تھیں ، وہ پڑھیں، اور  ردّ بلا کے لیےدم کیا۔
فیقا معمول کے مطابق میرےگدّی پر بیٹھتے ہی چائے لینے چلا گیا۔ ہماری دکان کے ساتھ ہی ایک چائے والا ہے لیکن اسکی چائے اچھی نہیں ہوتی۔اس لیے تھوڑی دور سے چائے منگوائی جاتی ہے۔ یہی کوئی پیدل پندرہ منٹ کا راستہ ہے۔ حضرت صاحب کے خطبات کی کیسٹ لگائی۔ اللہ تعالی نے ان کو  بے تحاشہ علم سے نوازا ہے۔ زبان میں جادو ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ کوئی ان کا بیان سنے اور مرید نہ ہوجائے۔ حضرت صاحب بیان کررہے تھے کہ کیسے ایک دعا پڑھنے سے سب گناہ نہ صرف معاف ہوجاتے ہیں بلکہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں اور وہ بھی سو سے ضرب کھا کے۔ سبحان اللہ سبحان اللہ۔۔۔ اللہ  تعالی کتنے رحیم اور معاف کرنے والے ہیں۔۔سبحان اللہ۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
گیارہ بجے کے قریب پھر سے بھوک محسوس ہونے لگی۔ ناشتہ برائے نام ہی کیا تھا۔ جیدا بڑے مزے کے سری پائے بنا تا ہے۔ نہ نہ کرتے بھی  چار نان کھا گیا۔پھر دو سیون اپ کی بوتلیں پی کر کچھ سکون ہوا۔ اس دفعہ گرمی بھی کچھ جلدی شروع ہوگئی ہے۔ دکان کے اندر ایک چھوٹا سا ائیر کولر رکھا ہوا ہے۔ اے سی خود ہی نہیں لگوایا کہ ٹیکس والے، کُتّوں کی طرح بُو سونگھتے ہوئے آجاتے ہیں۔ ایسی فاسق و فاجر حکومت کو ٹیکس دینا بھی حرام ہے۔ کرپٹ اور بے ایمان لوگ۔ ا س سے تو بہتر ہے کہ فوج کی حکومت آجائے۔  یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے۔
ائیرکولر کے سامنے بیٹھتے ہی اونگھ سی آگئی۔ آنکھ کھلی تو ظہر کا وقت قریب تھا۔بھاگم بھاگ مسجد پہنچا۔ طویل عرصے سے  اذان دینے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اللہ اللہ۔۔ کیا روح پرور کیفیت ہوتی ہے۔ استنجاء کے لیے مسجد کے بیت الخلاء میں گیا تو وہ اوور فلو ہورہا تھا۔ بڑی مشکل سے کپڑوں کو نجاست سے بچایا۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس کا ہمیشہ بہت خیال رکھناچاہیے۔ ظہر کی نماز سے فراغت کے بعد دوپہر کا کھانا کھایا۔ مرغ پلاؤ اور شامی کباب بھی اللہ تبارک و تعالی کی کیسی عمدہ نعمتیں ہیں۔۔ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاوگے۔۔۔
کھانے سے فراغت کے بعد فیقے کو کہا کہ وہ بھی کھانا کھالے، وہ دوپہر کا کھانا گھر سے لاتا ہے۔ پتہ نہیں کیسی مہک ہوتی ہے اس میں کہ جی خراب ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے اس کو منع کیا ہوا ہے کہ کھانا، دکان میں بیٹھ کر نہ کھایا کرے۔۔ بلکہ چائے والے کھوکھے کے سامنے پڑے بنچ پر بیٹھ کر کھالیا کرے۔ کھانا کھاتاہوئے بھی، ہڈ حرام، آدھ گھنٹہ لگادیتا ہے۔ ان جاہلوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایسے یہ اپنے رزق کو حرام کرتے ہیں۔ جہنم کا ایندھن۔
کھانے کے بعد قیلولہ کیا اور عصر سے پہلے مسجد میں حاضر تھا۔ اذان دینے  کی سعادت حاصل کی۔ نماز سے فارغ ہوکے حضرت صاحب کے بتائے ہوئے اوراد و وظائف کرنے میں تقریبا ایک گھنٹہ لگ گیا۔  واپس دکان پر پہنچا تو فیقے نے بتایا کہ دو تین گاہک  بھگتائے ہیں ۔ پوری توجہ سے بل  چیک کیے اور دکان میں موجود مال کی گنتی کی۔ اعتبار کا دور نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے کمزور ایمان والے لوگوں کا تو بالکل اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ جو اللہ تبارک و تعالی کو دھوکہ دینے کی کوشش کرسکتے ہیں وہ ہمارے جیسے گنہگاروں کو کیسے بخشیں گے؟
مغرب کی نماز ہمیشہ گھر کے قریب مسجد میں ادا کرتا ہوں۔اسی مسجد کی مسجد کمیٹی کا پچھلے سات سال سے بلامقابلہ صدر بھی ہوں۔  مغرب کی نماز سے فارغ ہوکے گھر پہنچا تو  بچے ٹی وی پر شاہ رخ خان کی فلم دیکھ رہے تھے۔ اچھا اداکار ہے۔ مجھے پسند ہے۔ ویسے بھی مسلمان ہے۔ اللہ اس کو اور کامیابیاں اور کامرانیاں عطا فرمائیں۔
رات کا کھانا، میں عشاء سے پہلے کھالیتا ہوں، یہی حکم ہے۔ بھنڈی گوشت بنا ہوا تھا۔ خوب سیر ہوکے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد خربوزے کھائے۔ بہت میٹھے نکلے ماشاءاللہ۔۔ حضرت صاحب نے ایک دفعہ بالمشافہ ملاقات میں بتایا تھا کہ خربوزے، قوت باہ کے لیے بہت مفید ہوتے ہیں۔ حضرت صاحب کی تین بیبیاں ہیں اور تئیس بچے۔  نظربددُور۔
عشاء سے فراغت کے بعد والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضری دی۔  انکی سُوئی ابھی تک اسی پر اٹکی ہوئی تھی کہ۔۔ پُتّر ، برآمدے اچ پکھّا لوادے۔۔ بہوت گرمی لگدی اے مینوں۔۔۔  ٘میں نے دل میں سوچا کہ اس دفعہ عمرے سے واپسی پر یہ کام بھی ضرور کردوں گا۔ والدین کی خدمت میں ہی عظمت ہے۔
سونے کے لیے لیٹا تو زوجہ سے حق زوجیت کی ادائیگی کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے حسب معمول چوں چرا کی تو اسے سمجھایا کہ کارثواب پر چوں چرا کرناگناہ عظیم ہے اور دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مجازی خدا کی خواہشات پر اپنا آرام قربان کیا جائے۔
بہرکیف، جب تہبند سنبھالتے ہوئے  بیت الخلاء جانے کےلیے اٹھا تو زوجہ سوچکی تھی۔

دو کہانیاں ہیں

دو کہانیاں ہیں۔
اس کے ابّا محکمہ انسداد رشوت ستانی میں نائب قاصد تھے۔ آمدنی محدود اور کنبہ لا محدود۔ جز وقتی طور پر کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کا سپرے کیا کرتے تھے۔ شام ڈھلے جب وہ اپنے پرانے چوبیس انچ کے ریلے سائیکل پر گلی کا موڑ مڑتے تو سائیکل کے کیرئیر پر سپرے والی مشین اور ان کے منہ پر صافہ ہوتا جس سے انہوں نے منہ ڈھانپا ہوتا تھا۔ زندگی مشکل تھی۔ گزارا  مشکل تھا۔ تب ہر طبقے کی علیحدہ آبادیوں کا رواج نہیں تھا۔ ایک ہی محلے میں امیر سے غریب تک سب  رہ لیاکرتے تھے۔ اور ایسے ہی بہت سوں کی پردہ پوشی خاموشی سے کردی جاتی تھی۔ گزارا ہوجاتا تھا۔
  اسے کرکٹ کا شو ق تھا۔ صرف شوق ہی نہیں ، جنون تھا۔  نیچرل اتھلیٹ۔ تیز بالنگ کرتا تھا اور کم عمری میں ہی بڑے   بڑوں کے   قدم اکھاڑ دیتا تھا۔ فطری ٹیلنٹ۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے ابّا کی طرف سے ہمیشہ دباو رہتا تھا کہ کچھ کرکے دکھا۔ پڑھنے لکھنے سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔ مار ے باندھے پاس ہوجایا کرتا تھا۔ نویں جماعت میں پہنچا تو اپنے سکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتا ن بن گیا۔ اسلامیہ ہائی سکول ، جناح کالونی کی ٹیم اس سے پہلے کبھی فائنل تک نہیں پہنچی تھی۔ لگاتار دو سال فائنل میں شاید ایم سی ہائی سکول سے مقابلہ ہوا اور جم کر ہوا۔ شاید دونوں دفعہ ہار گئے لیکن اس کے نام کے ڈنکے بج گئے ۔  بوہڑاں والی گراونڈ، فیصل آباد  میں کلب کرکٹ کا  جی ایچ کیو ہے۔ اس نے وہاں جانا شروع کردیا۔ کلب کے نیٹس میں بالرز کو پہلے بیٹنگ  کی باری ملتی ہے۔ بلے بازوں کی باری بعد میں آتی ہے۔ اسے نیا سمجھ کر پرانا گیند دیا گیا اور شروع میں ہی بالنگ پر لگادیا گیا۔  دس منٹ بعد ہی جب دو بلے باز اپنی پسلیاں سہلاتے ہوئے ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے تو راشد ولی، جو اس کلب کے کپتان اور فیصل آباد کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے، انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا ، نام پوچھا  اور گیند واپس لے کے انتظار کرنے کو کہا۔  جب بلے بازوں کی باری آئی تو اسے نسبتا نیا گینددیا گیا۔ فطری طور پر اس کا گیند آوٹ سوئنگ کرتا تھا۔ ایک پندرہ سولہ سال کے لڑکے کی نسبت اس کی رفتار حیران کن حد تک تیز تھی۔ ہائی آرم اور بہت ہموا ر بالنگ ایکشن اور زبردست قسم کا باونسر۔ تیز بالرز کی اصطلاح میں مکمل پیکیج۔
کلب کرکٹ میں اس کا نام راتوں رات زبان زد عام ہوگیا۔راشد ولی نے اسے اپنے بالنگ کے جوتے جنہیں سپائیکس کہا جاتا تھا وہ دئیے ۔ کلب کی طرف سے اس نے کچھ میچز بھی کھیلے جو ایک بالکل نئے کھلاڑی کے لیے بہت بڑی اچیومنٹ تھی۔ یہ سارا ماجرا اس وقت وقوع پذیر ہورہا تھا جب میٹرک کے امتحان کے بعد والی چھٹیاں جاری تھیں۔ نتیجہ آیا اور وہ بمشکل تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوا۔ گھریلو حالات  زیادہ مشکل ہوگئے تھے۔ بچے بڑے ہورہے تھے ، اخراجات بڑھ رہے تھے اور آمدنی وہی کی وہی۔ میٹرک میں کم نمبروں کے باوجود گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ  میں داخلہ کھیل کی بنیاد پر اس کے لیے بہت آسان تھا۔ لیکن اس کے ابّا نے فیصلہ کیا کہ بہت پڑھائی اور کرکٹ ہوگئی۔ اب اسے کمانا چاہیے۔ اسے رضا آباد تین نمبر بازار کی ایک  کپڑے دھونے والے صابن کی فیکٹری میں منشی کا اسسٹنٹ رکھوادیا گیا۔ مبلغ سات سو روپے سکہ رائج الوقت۔ یہ کہانی یہاں ختم ہوتی ہے۔
وہ بھی اسی گلی میں تھوڑا آگے کرکے رہتا تھا۔ اس کے ابّا کی کپڑے کی دکان تھی۔ اچھے خوشحال لوگ تھے۔ بڑے بھائی بھی شیخوں کی روایت کے مطابق اپنا اپنا کاروبار کرتے تھے۔ مناسب سے زیادہ حد تک فارغ البالی تھی۔ اسے بھی کرکٹ کا شوق تھا۔ آف سپن بالنگ کیا کرتا تھا۔ جو ان دنوں آو ٹ آف فیشن تھی۔ کوئی بھی سپنر نہیں بنناچاہتا تھا۔ سب کے دل میں وقار یونس اور وسیم اکرم بننے کی خواہش ہوتی تھی۔  لیکن اسے سپن بالنگ پسند تھی۔ کھیل کا اسے  بھی جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس کے ابّا بھی کرکٹ کے شیدائی تھے اور ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔  اتفاق سے یہ بھی اسلامیہ ہائی سکول میں ہی پڑھتا تھا اور سکول کی کرکٹ ٹیم میں بھی شامل تھا۔ لیکن پلئینگ الیون میں جگہ بہت مشکل سے بنتی تھی تو  اکثر بارہواں کھلاڑی ہی ہوتا تھا۔ بارہواں کھلاڑی ہونے پر بھی اس کا جوش کبھی کم نہیں ہوتا تھا اور وہ کسی نہ کسی کو باہر بلا کر اس کی جگہ فیلڈنگ کرکے کھیل میں شامل ہونے کا شوق پورا کرلیا کرتا تھا۔وہ  ایک عام سا کھلاڑی تھا۔ کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا سوائے اس کے شوق او رکمٹمنٹ کے۔  دسویں کے بعد اس نے شاید گورنمنٹ کالج سمن آباد میں داخلہ لیا اور بوہڑاں والی گراونڈ بھی جانا شروع کردیا۔ وہ گرمیوں میں ساڑھے تین بجے گراونڈ میں پہنچ جاتا تھا۔ گراونڈ کے تین چار چکر لگاتا تھا۔ پچ  کو رول کرنے میں مدد دیتا تھا۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام بڑی خوشی اور لگن سے کرتا تھا۔ جب پریکٹس شروع ہوتی تو اسے گراونڈ میں آئے ڈیڑ ھ دو گھنٹے ہوچکے ہوتے تھے۔  غیر معمولی صلاحیت کی کمی اس نے شدید محنت سے پوری کی۔ اس کے ذمّے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی کام تھا۔ کرکٹ کھیلنا ۔ اور یہ کام اس نے پوری ایمانداری اور محنت سے کیا۔ وقت گزرتا گیا۔ اور یہ معمولی صلاحیت والا محنتی کھلاڑی آہستہ آہستہ کامیابی کے زینے چڑھتا گیا۔ فیصل آباد کی طرف سے کھیلنے کے بعد اسے ایک ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کھیلنے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ اس کا نام کبھی کبھی اخبارات میں آنے لگا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اس نے تقریبا ایک عشرہ لگایا۔ آخر کار اسے قومی ٹیم میں موقع ملا اور اس نے یہ موقع دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا۔ آج وہ ایک عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی ہے۔  یہ کہانی بھی ختم ہوئی۔

دو کہانیاں ہیں!۔ 

مینجر

نام تو اس کا ندیم تھا لیکن   اس نام سے  پکارنے والے شاید اس کے گھرو الے ہی تھے، باقی سب کے لیے وہ  "مینجر" تھا۔ اسے "مے نے جر" کی بجائے "مین جر" پڑھا جائے کہ پنجابیوں کا انگریزی کی مدر سسٹر کرنے میں اپنا ایک الگ سکول آف تھاٹ ہے۔  اس عرفیت کی کہانی بھی  دلچسپ ہے۔ اگر آپ سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو بیان کی جائے؟  نہ بھی رکھتے ہوں تو بیان کر ہی دی جائے گی ۔
ہماری گلی شیطان کی آنت سے بس ایک آدھ فٹ ہی کم طویل تھی۔ طارق روذ والی سائیڈ سے گلی میں داخل ہوں تو ہمارا گھربائیں طرف سے تیسرا تھا۔ گلی کا دوسرا سرا گلستان روڈ جو کہ اب بمبینو روڈ کہلاتا ہے ، وہاں تک تھا۔ گلی کے عین درمیان میں ایک چوراہا بھی تھا ، جہاں کھڑے ہوکر بائیں طرف دیکھیں تو مرحوم طارق سینما کا گیٹ نظر آیا کرتا تھا۔ محلے کی ساری گلیوں کو قطع کرنے والی یہ افقی گلی الطاف انکل کی تقاریر سے بھی طویل تھی۔ سورج ڈھلنے کے بعد ہم بک بک کرنے کی ٹھرک پوری کرنے کے لیے ظہیر لائبریری تشریف لے جایا کرتے تھے جو گلستان روڈ پر واقع تھی۔ اپنے آپ میں مگن سر جھکا کے چلنے کی عادت کی وجہ سے ہم پوری گلی میں سخت قسم کے بیبے لڑکے سمجھے جاتے تھے اور بڑی بوڑھیاں ہماری مثالیں دیا کرتی تھی کہ ۔۔ اوہ منڈا وی تے ہے ناں ، کدے اکھ اُچّی کرکے نئیں ویکھیا۔۔۔  ہمیں ہمیشہ اپنے میسنے پن پر فخر رہا ہے!۔
انہی دنوں ہم نے نوٹ کیا کہ چوراہے پر جو جتھہ روزانہ محفل جماتا تھا اس میں ایک نیا چہرہ بھی ہے۔ ہم چونکہ اتنے سوشل نہیں تھے اور نہ ہیں، تو سوائے اس جتھے کی طرف ایک مسکراہٹ اچھالنے کے ہم نے اس بارے کوئی تردّد مناسب نہیں جانا۔
یہ تو اس سے اگلی جمعرات جب ہم جمعے والے دن کے میچ کی پلاننگ کررہے تھے تو اس سے تعارف ہوا۔ پستہ قامت، کرس گیل جیسا رنگ، انیل کپور جیسا  ہئیر سٹائل اور مونچھیں، فواد عالم جیسی صحت اور شدید کم گو اور شرمیلا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ کل کا میچ کھیلو گے تو جواب ملا کہ مجھے تو کرکٹ کھیلنی نہیں آتی ۔ تس پر ہم نے دل میں اس پر تین حرف، دس دفعہ بھیجے ۔ اور جل کر کہا کہ پھر تم ہماری ٹیم کے مینیجر بن جاو۔ بس وہ اس بات کو سیریس لے گیا اور فورا دندیاں نکال کے مُنڈی ہلادی ۔
اگلے دن میچ کے دوران اس کی مینجمنٹ کے جوہر کھلے۔ پہلے تو اس نے ہمیں اس بات پر قائل کیا کہ "سکّا " میچ  کھیل کے کیا فائدہ۔ ناشتہ لگا کے کھیلتے ہیں۔ ہم نے فورا کہا کہ یہ تو جُوا ہوجائے گا ۔ اس نے تھوڑی دیر بعد پھر کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ٹیم میچ ہارے وہ دوسری ٹیم کو "انعام" کےطور پر ایک بیٹ دے۔ یہ بات ہمارے دل کو لگی اور ہم نے دوسری ٹیم کو اس پر راضی کرلیا۔
یہ ہماری زندگی کا پہلا جُوا تھا۔
اس کے بعد ہمارا "اینٹ" کھُل گیا اور ہم نے بہت سے ناشتے، چاٹیں اور سموسے وغیرہ جیتے۔ اور ان سب کا عذاب دارین  برابر مینجر کو پہنچتا رہا۔ ایک ہی گلی میں رہنے اور ٹیم کی مینجری کی وجہ سے ہماری اس کے ساتھ کافی بے تکلفی ہوگئی اور ہم اسے تقریبا اپنا دوست گرداننے لگے۔ نہلے پر دہلا کہ وہ سات بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ لہذا سوائے روڈ ماسٹری کرنے کے اسے کوئی کام نہیں تھا۔ ہم نے اس سے کئی دفعہ پوچھا کہ پڑھتے کیوں نہیں تو اس نے ہمیشہ ہنس کر ٹال دیا۔ تاش کھیلنا  ، مڈل کلاسیوں میں سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ہم ہمیشہ ایسے خفیہ ٹھکانے تلاش کرتے رہتے تھے جہاں ہم تسلی سے بیٹھ کر تین چار واریاں ، رنگ کی لگا سکیں۔ یہ ٹھکانہ ہمیں مینجر نے مہیا کیا۔ اسکے گھر کی بیٹھک ہمارا وہ خفیہ ٹھکانہ ثابت ہوئی جہاں ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں سارا سارا دن تاش کھیلتے  اور شام کو گھر جا کے کہتے کہ آج تو بہت پڑھائی کی۔۔ تھک گیا ہوں۔
مصروفیات بڑھتی گئیں اور دوستیوں کا دائرہ بھی بدلتا گیا۔ مینجر سے اب کبھی کبھار ہی ملاقات رہتی ۔ اس کے بارے البتہ کہانیاں کافی سننے کو ملنے لگیں۔ کبھی رضا آباد سے مار کھاکے آنکھ سُجائی ہوتی تھی اور کبھی سینما میں جھگڑ کے کپڑے "وغیرہ " پھڑوائے ہوتے تھے۔  ایک دو دفعہ حوالات کی ہوا بھی کھائی۔ اس سے ٹاکرا ہونے پر ہم نے جب بھی پوچھا کہ ۔۔ مینجر، کیہ کرریاں اج کل۔۔ تو اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ۔۔ کُج وی نئیں۔۔۔   مینجر، کی کمپنی ، ہولے ہولے کمپنی فلم والی ہوتی گئی۔ تھانے کے بستہ ب میں اس کا نام درج ہوگیا اور عرفیت مینجر لکھی گئی۔ انہی دنوں اس کا سُودی سے جھگڑا ہوا۔ سُودی سے مار کھا کے بھاگنے کے بعد وہ  چھری لے آیا اور بے خبری میں سُودی پر وار کیا۔ راوی بتاتے ہیں کہ چھری کے دو وار برداشت کرنے کے باوجود سُودی نے اسے بھگا دیا تھا۔ خود البتہ دو مہینے ہسپتال رہا ، خون کی سات بوتلیں لگیں اور پیٹ پر بیس ٹانکے۔
مینجر سے آخری ملاقات سیشن کورٹ کے باہر برآمدے میں ہوئی جہاں وہ تقریبا سات دوسرے بندوں کے ساتھ ہتھکڑیوں اور اور بیڑیوں میں جکڑا کھڑا اپنے کیس کی آواز پڑنے کا انتظار کررہا تھا۔ ہم بھی اس زمانے میں عدالتوں میں خوار ہوتے پھررہے تھے کچھ اور وجوہات کی بناء پر ۔ اس نے مجھے دیکھا اور گالی دے کے بولا کہ ۔۔ توں میرے خلاف گواہی دین آیاں ایں ناں۔۔۔ باہر نکل کے ویخ لاں گا تینوں۔۔  ہم نے اس کی بات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا کہ ہم اس وقت اپنے سِیڑی سیاپے میں پھنسےہوئے تھے۔ انہی دنوں ہم نے  ہجرت کی اور وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ نہ ہی پتہ چلا کہ کہاں ہے اور کیا کررہا ہے۔
سوچنے کی علّت بڑی خطرناک ہے۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ایک بے ضرر ، کم گو اور دبّو سا بندہ کیسے وہ سب بن گیا جس کی توقع کم از کم ہمیں اس سے نہیں تھی۔ کیا  یہ سب کچھ کسی کی فطرت میں رکھ دیا جاتا ہے؟ یا حالات اس کو اس طرف لےجاتے ہیں؟    یہ گورکھ دھندہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ ۔۔ خواجہ میر درد کا مصرعہ ہے۔۔۔ ناحق ہم  مجبوروں پہ یہ تہمت ہے مختاری کی۔۔۔

کٹھ پُتلیاں ہیں ہم؟

یومِ عُشّاق و پُونڈی وغیرہ

پشتو یا ایسی ہی کسی اور جنگجو زبان کی کہاوت ہے کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکاّ اپنے منہ پر مارلینا چاہیے۔ یہ کہاوت ہمیں اس لیے یاد آرہی ہے کہ عالمی یوم عاشقاں و پُونڈی کے پُرمُسرّت (شاہین) دن پر لکھنے کا فیصلہ ہم نے اس دن کے آخری گھنٹوں میں کیا ہے۔ تو امید واثق ہے کہ  آپ "مُکّے" اور "مارنے" کے بلیغ معنوں تک پہنچ چکے ہوں گے۔
سینٹ ویلنٹائن نامی بندے کے نام پر یہ دن منایا جاتا ہے جبکہ ہمارے فرشتوں بلکہ شیطانوں کو بھی اس بندے بارے کوئی جانکاری نہیں ہے۔ دور جدید کے بھگوان از قسم گوگل و وکیپیڈیا سے کسی بھی علمی معاملے میں مدد لینے کو ہم گناہ متوسطہ سمجھتے ہیں۔ گوگل پر ہم صرف ٹورنٹ فائلز سرچ کرتے ہیں اور وکی پیڈیا پر۔۔۔ چلیں چھوڑیں، آپ کے لیے یہ جاننا قطعا ضروری نہیں کہ آپ بھی یہی سب کچھ کرتے ہوں گے کہ ۔۔۔ آفٹر آل۔۔ آپ بھی پاکستانی ہیں۔
جب ہم اپنے بچپن اور لڑکپن بارے سوچتے ہیں تو اس دن بارے کوئی بھی یاد، یاد کرنے پربھی، یاد نہیں آتی۔ اب ایسا نہیں ہے کہ اس وقت عاشق اور پُونڈی، عنقا تھے، بلکہ بہت ہی میسنی اور گُجھّی قسم کی عاشقی اور پُونڈی ہوتی تھی۔ اس موبائلی اور انٹرنیٹی دور میں  تو یہ کام غبارہ پُھلا کے پھاڑنے سے بھی آسان ہوگیا ہے، اس وقت ایسا نہیں تھا۔۔ بلکہ ۔۔
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔۔۔
والا حال تھا۔ سوشل میڈیائی ہومیوپیتھک قسم کے سٹالکرز (لام سائلنٹ) کی بجائے زندہ جیتے جاگتے، محلے کے وہ بابے جو اپنی مائیوں کی بے رخی سے تنگ آکر، رضاکارانہ طور پر انسداد پُونڈی فورس کے رکن بن جاتے تھے، پڑوس کی ماسیاں اور چاچیاں، جن کو محلےکے ہر عاشق اور معشوق کی بائیو زبانی حفظ ہوتی تھی جو وہ مناسب مواقع از قسم بچوں کی لڑائی، میلاد کےدوران والی چغلی اور طویل زچگیوں کے دوران ایک دوسرے کی خاطر تواضع کے لیے دہرایا کرتی تھیں۔ پھر اصلی والے رقیب رُوسیاہ، جو عاشق اور معشوق کے درمیان نہایت فحش قسم کی افواہیں پھیلانے میں ید طُولی رکھا کرتے تھے۔ 
اُس عاشقی میں عزت سادات جانے کا دھڑکا ہر رقعے اور خط کے آنے جانے پر ایسے گھٹتا بڑھتا تھا جیسے سٹاک مارکیٹ میں حصص کی قیمتیں چڑھتی اترتی ہیں۔ پریم پَتر، مقررہ ہدف یعنی معشوق کو ہٹ کرنے کی بجائے اگر کولیٹرل ڈیمج کی طرز پر کسی اور کو ہٹ کرتا تھا از قسم ابّا، بھائی، بڑی بہن، جس سے نہ کوئی سیٹ ہوتا ہو اور نہ اس کی شادی ہوتی ہو، وغیرہ تو اس سے جو وار آن ٹیرر برپا ہوا کرتی تھی وہ نہایت دلدوز اور دہشت ناک ہوتی تھی۔ جس میں کُھنّے پہلے معشوق کے اعزّہ و اقارب کھولتے تھے اور بعد میں یہ کھلے ہوئے کُھنّے، ابّا کی جوتیوں سے مزید کھولے جاتے تھے۔ چنگیز خانی نسل کے ابّا ہونے کی صورت میں جوتیوں کی بجائے ڈنڈوں اور مُکوں اور لاتوں کا بے جا استعمال بھی عین ممکن ہوتا تھا۔
ہمارا ماننا ایسا ہے کہ اس وقت ہر دن ہر عاشق و پُونڈ کے لیے یوم حضرت سینٹ ویلنٹائن ہوا کرتا تھا اگر چہ ان بے چاروں کو اس بابے ٹھرکی بارے کچھ بھی علم نہیں تھا۔  آج کے چیزی قسم کے ویلنٹائنی عاشق اور ان کی کُوجی قسم کی معشوقیں ۔۔ ایک پُھل۔۔ تین سو کا خرید کر ایک دوسرے کے سوکھی خوبانی جیسے منہ کو گھورتے ہوئے ایک دوسرے کو ہاتھ میں پکڑاتے ہیں۔۔۔ یہ اس خالص اور سچی عاشقی اور پُونڈی کی شدید اور سخت ہتک ہےجو روزانہ بنیادوں پر سب کچھ داؤ پر لگا کر کی جاتی تھی۔ اس سے بھی کُوجی قسم وہ ہے سوشل میڈیے پر اس یوم ربر بیلون کو منا کے کی جاتی ہے۔  شدید بور قسم کی سب ٹویٹس ، جن کا سوائے اس کو جس کو کی گئی ہو، سب کو پتہ چل رہا ہوتا ہے۔۔ ایسے ایسے شعراء کے اشعار جنہیں وہ شعراء خود اپنا کہتے ہوئے شرماتے ہوں، اپنے پیٹ پر لیپ ٹاپ رکھ کے غلط انگریزی میں پرنس چارمنگ بننے کی کوششیں۔۔۔ حمیدہ کوثر عرف میڈ سویٹی کا  افتخارالدین المعروف وِکّی چیمہ سے سب ٹویٹوں میں اظہار عشق سے لے کر قرار عشق تک کے تمام مرحلے طے کرنا وغیرہ۔۔۔
نہ ہوئے ہم تجزیہ کار و تبصرہ نگار وغیرہ ، ورنہ اس دن کی تجارتی  اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے کہ اس خطہ ارض موسوم بہ برصغیر میں پچھلے چند برسوں میں اس پر اتنا زور کیوں لگایا جارہا ہے جتنا زور کلچے کھا کے اگلے دن لگایا جاتا ہے۔
وما علینا الاالبلاغ


جانو کرو ناں

ہمارے آج کے پروگرام کا موضوع  ہے کہ طالبان سے مذاکرات یا آپریشن میں سے کون سا آپشن بہتر اور امن کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ پروگرام میں ہمارے ساتھ موجود ہیں،  نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن،  خواتین کے ارمانوں کے  شہزادے اور طالبان کے  پپو یار۔۔ جناب خاں صاحب۔۔۔
جی، خاں صاحب۔ پروگرام میں خوش آمدید۔۔۔ سب سے پہلے میرا سوال یہ ہے کہ آخر آپ کی فٹنس کا راز کیا ہے؟
دیکھیں حامد۔ یہ بہت آسان ہے۔ دیسی مرغیاں کھاو، خالص دودھ پیو، اچھی آب و ہوا میں رہو۔ اب دیکھیں میں کیسے زبردست ماحول میں رہتا ہوں ۔ کوئی ٹینشن پریشانی پاس نہیں آتی۔ ایک اور ضروری چیز ،  یہ بہت ضروری ہے حامد، بہت ہی ضروری ۔۔ دیکھیں اپنے مخالفین کو رج کے بیست کرنا چاہیے ، دیکھیں اس میں کوئی بری بات نہیں  ہے، اس سے نیند بھی خراب نہیں ہوتی اور بندہ فٹ بھی رہتا ہے۔
خاں صاحب، یہ مذکرات جو ہیں۔ یہ آپ کن سے کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے ، حامد، سب سے۔ میں تو کہتا ہوں کہ وینا ملک سے بھی مذاکرات کرنے چاہییں کہ او بی بی ۔۔۔ یہ کیا پاک فوج کو بدنام کرتی رہتی ہے۔ میرا سے مذاکرات کرنے چاہییں  کہ خدا کی بندی ، کیمرے کا اینگل ہی ٹھیک کرلیتی۔۔ کسی کام کا نہ پتہ  ہو تو۔۔۔ حامد۔۔ اس میں ہاتھ نہیں دیتے ۔  اب دیکھیں، میں نے کرکٹ کھیلی ہے، ورلڈ کپ جیتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔۔ حامد۔۔ پھر آپ دیکھیں میں نے  کتنی خدمت کی ہے۔ میں نے سیاست میں۔۔۔
بات کاٹتےہوئے۔۔۔
خاں صاحب، آپ نےورلڈ کپ بھی مذاکرات سے جیتا تھا؟
دیکھیں حامد، میں آپ  کو صاف بتادینا چاہتا ہوں۔ ایسی ٹچکریں کریں گے تو میں آپ کے  فلوٹر جیسے  منہ پر گھسن دے ماروں گا۔ مجھے غصہ نہ دلائیں، غصے میں بڑی گندی گالیاں نکالتا ہوں۔۔ میں نے تو اپنے بھائی کو ٹیم سے نکال دیا تھا، تم ہو کیا چیز حامد؟
معذرت خاں صاحب، آپ کو ناراض کرنا مقصد نہیں تھا۔  یہ لیں پیپسی پئیں، خلیفہ صاحب نے اچھے دنوں میں لکھا تھا  کہ آپ یہ مشروب وحشیوں کی طرح پیتے ہیں۔ ۔۔۔
او یار، یہ خلیفہ بھی بڑا  ای  ٹوں ٹوں  بندہ ہے۔
پلیز خاں صاحب، پروگرام لائیو جارہا ہے۔۔
اچھا یہ بتائیں کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد اتنے سارے جنگجو افراد کو کیسے اکاموڈیٹ کیا جاسکتا ہے؟
یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہے حامد۔ اس کے بارے تو ہمارے تھنک ٹینک نے پالیسی بنائی ہوئی ہے۔  ڈاکٹر عواب علوی اس تھنک ٹینک کے چئیرمین  ہیں۔ ہم ان سارے سابقہ طالبان کوسمارٹ فون، جینز،  جیکٹ، چشمے اور موبائل ڈیٹا کنکشن فری دیں گے۔ ۔۔ جیسے شوباز شریف نے رشوت میں لیپ ٹاپ بانٹے تھے۔۔۔ اس کے بعد ہم انہیں کہیں گے وہ اب جہاد بل ٹچ شروع کردیں۔ اور پارٹی مخالفین کی پینٹیں ، شلواریں ، دھوتیاں وغیرہ اتار کر  ان کو ساری دنیا کے سامنے ننگا کریں۔ اس سے ان کی جہادی حس بھی زندہ رہے گی اور امن و امان بھی قائم رہے گا۔
خاں صاحب، یہ بتائیں کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے تو؟
دیکھیں حامد، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اگر ایسا ہوا تو یہ سب اس نقلی بالوں والے موٹے کا قصور ہوگا۔۔اس کی تو کھا کھا کے۔۔۔
۔۔ بات کاٹتے ہوئے۔۔۔
پلیز خاں صاحب، ایسے الفاظ استعمال نہ کریں، ویسے تو آپ کے بالوں بارے بھی لوگ کافی باتیں کرتے ہیں۔۔
حامد، یہ آخری دفعہ ہے کہ میں تمہاری بات کو اگنور کررہا ہوں ۔۔ اب اگر ایسا کیا تو پھر نہ کہنا۔۔ میں نے زمان پارک میں بہت لڑکوں کو پھینٹی بلکہ پھینٹا لگایا ہوا ہے وہ بھی بلّوں سے۔۔ آئی سمجھ؟۔۔ ہاں ۔۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر ناکامی ہوئی تو اس کی وجہ یہی جعلی اور دھاندلی زدہ حکومت اور وہ نواجا کُکّڑ ہوگا۔۔ دیکھیں حامد۔۔ یہ کباڑی کی اولاد آج خود کو بڑا مغل اعظم سمجھنے لگی ہے۔ اوئے ، ان کی اوقات ہی کیا ہے آخر؟ دیکھیں حامد۔۔ یہ سب بزدل لوگ ہیں۔ یہ مذاکرات سے ڈرتے ہیں۔ یہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔ یہ فوج سے ڈرتے ہیں۔ یہ اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔۔۔۔اور دیکھیں حامد، پرپل آنٹی نے مجھے کل ہی بتایا ہے کہ نادرا  کے ساتھ انہوں نے بابرہ شریف والا سلوک کیا ہے۔ آپ خود بتائیں، حامد۔۔ یہ لوگ اس قابل ہیں کہ مذاکرات کرسکیں؟
یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ صرف مذاکرات سے ہی طالبان کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے اور آپریشن کو  "جانو، پلیز نہ کرو ناں" والی کیٹگری میں رکھنا چاہیے۔۔
جی بالکل حامد۔۔۔ میری میاں صاحب سے یہی گذارش ہے کہ ۔۔۔ جانو کرو ناں۔۔

مذاکرات