درد تے نئیں ہو رئی جی

معاملہ چونکہ ٹھنڈا پڑگیا ہے لہذا اب ہم اپنا لُچ تلتے ہیں۔
بورڈ پر لکھے ہوئے ڈاکٹر اور کپیٹن کے لفظ تو سمجھ میں آجاتے تھے لیکن بریکٹ میں لکھے  ریٹائرڈ کے معنی سے شناسائی نہ تھی۔ ڈاکٹر تو خیر اب اردو کا ہی لفظ سمجھا جاتا ہے لیکن کیپٹن کے لفظ سے شناسائی ، فوج سے جڑی مڈل کلاسی رومانویت کی وجہ سے تھی۔ سکول کے آخری ایّام تک جوبھی مستقبل بارے ہم سےدریافت کرتا کہ "آ پ بڑے ہوکر کیا بنیں گے؟" تو ہمارا ترنت جواب "فوجی" ہی ہوتا تھا۔   بدقسمتی سے (فوج کی ، ہماری نہیں) ہم "فوجی" نہ بن سکے۔ بہرحال یہ الگ قصّہ ہے۔  یہ ایک دو منزلہ مکان تھا جو ہماری پچھلی گلی میں عین ہمارے گھرکے پیچھے واقع تھا۔اس کی نچلی منزل پر لگے سائن بور ڈ سے پتہ چلتا تھا کہ یہ ایک کلینک ہے۔
بچپن سے نوجوانی اور پھر جوانی تک اس کلینک سے ہمارا واسطہ اکثر و بیشتر پڑ تا رہا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی ہم انسان تھے، لہذا بیمار وغیرہ ہوجایا کرتے تھے، خاص طور پر گرمیوں میں ہمارا گلا اکثر عاشق کا گلہ بن جاتا تھا، درد و رنج سے بھرا ہوا اور کام کرنے سے انکار کردیتا تھا۔ پانی تک گزرنے سے انکاری ہوجاتا تھا ، پس ہم ابّا کی انگلی پکڑے ، اسی کلینک میں جا براجمان ہوتے تھے۔ دو انجکشن تو تُرنت لگتے تھے، کمپاؤنڈر ریاض،  جو بعد میں ترقی کرکے خود بھی ڈاکٹر ہوگیا تھا،   انجکشن لگاتے ہوئے اپنے مخصوص تیز تیز بولنے والے انداز میں  چند فقرے ضرور دہرا یا کرتا تھا۔ جو کچھ یوں ہوتے تھے۔" درد تے نئیں ہورئی جی۔۔۔ درد ہووے دس دینا۔۔۔ پنج منٹ بیٹھے رہنا"۔ یہ جملے مسلسل  آٹھ دس سال سننے کے بعد جب ہم بڑے ہوئے تو ریاض کے انجکشن لگاتے ہی ہم خود ان فقروں کی گردان کرنے لگتے تھے، جس پر وہ قہقہہ لگاتا تھا اور کہتا تھا کہ  "حاجی صاب نوں شکیت لاواں گا  کہ ایہہ میریاں نقلاں لاءندا جے"۔
تمہید طُولانی ہوتی جارہی ہے۔اس لیے اصل قصّے کی طرف آتے ہیں جو ہم نے اپنے ابّا کی زبانی سُنا۔   ہمارے ابّا کے ایک کاروباری دوست کا بیٹا ڈاکٹر بننا چاہتا تھا   جبکہ وہ ایسا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نےابّا سے  ذکر کیا کہ "مُنڈا من دا نی پیا، کیہ کرئیے"۔ ابّو نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے مسئلہ رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس لڑکے سے مجھے ملوائیں۔ میں اس کے بعد ہی کچھ کہہ سکتا ہوں۔
 قصہ مختصر اس  ڈاکٹر بننے کے خواہشمند نوجوان کی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے ابّا راوی ہیں کہ انہوں نے نوجوان سے صرف ایک سوال پوچھا کہ کیا تُم ساری زندگی، چوبیس گھنٹے، ایک دستک یا ایک فون کال پر اٹھنے  اور مریض کو اٹینڈ کرنے کے لیے تیار ہو؟ یہ نو سے پانچ والی جاب نہیں ہے۔ انہوں نے فیصلابادی "وِٹ" استعمال کرتے ہوئے ایک محاورے میں ترمیم بھی کی اور کہا کہ گاہک، موت اور مریض کا  کوئی پتہ نہیں کہ کب آجائے۔  اگر یہ سب کرنے کے لیے تم خود کو تیار پاتے ہو تو ڈاکٹر بن جاؤ۔ اگر تمہیں  آرام دہ اور دباؤ سے آزاد زندگی گزارنی ہے تو میڈیکل کالج کے پاس سے بھی گزرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے شادی کرلی۔ فوج کی لازمی ملازمت کے بعد انہوں نے یہاں اس نچلے متوسط طبقے کے محلے میں کلینک کھولا، سپیشلائزیشن کے لیے لاہور کے  کسی کالج میں داخلہ لیا۔ صبح فجر سے ایک گھنٹہ پہلے اٹھ کے وہ لاہور جاتے، اس دور میں لاہور، فیصل آباد کا یک طرفہ سفر تین گھنٹے پر محیط ہوا کرتا تھا۔  اپنی کلاسز اٹینڈ کرتے، وہاں سے واپس آکے شام کو اپنے کلینک پر بیٹھتے۔رات نوبجے کلینک بندکرنے کے بعد وہ  پڑھائی کرتے۔ بمشکل تین چار گھنٹے کی نیند کے بعد ایک اور پُرمشقت دن ان کا منتظر ہوتا۔ کلینک چونکہ نیا تھا لہذا پریکٹس بھی واجبی سی ہی تھی۔ مالی طور پر بھی وہ وقت ان کے لیے کافی تنگی کا تھا۔ لیکن جیسا کہ وقت کی فطرت ہے کہ کہ گذر جاتا ہے ، اچھا ہو یا بُرا۔ وہ وقت بھی گذر گیا۔
ہمارے ریٹائرڈ کیپٹن ڈاکٹر صاحب نے بہت محنت کی۔ بعد میں پیسہ بھی بہت کمایا۔ لیکن اس پیسے کو کمانے کے لیے انہوں نے  زندہ انسانوں کا خون نہیں چُوسا۔  ان کے کلینک میں آج بھی مریض کی حالت دیکھ کر فیس لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس بات کا ذکر بھی وہ کبھی کسی سے نہیں کرتے۔ رات کے کسی بھی پہر،  کوئی بھی ان کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا اور ہر ممکن طبّی امداد حاصل کرسکتا تھا جس میں پہلے پیسے دینے کی کوئی شرط بھی شامل نہیں ہوتی تھی۔ میں نے اتنے طویل عرصے میں کبھی ان کی پیشانی پر شکن نہیں دیکھی اور نہ ہی کبھی ان کے چہرے کو بغیر مسکراہٹ کے دیکھا۔
 کہا جاتا ہے کہ فنکار پیدائشی ہوتے ہیں بنائے نہیں جاسکتے،  شاید ہوتے ہوں۔ لیکن طبیب یقینی طور پر پیدائشی ہوتے ہیں اور اگر انہیں زبردستی طبیب بنایا جائے تو جوہوتا ہے  وہ آپ جانتے ہوں گے۔  دولت کمانا  طبیب کے لیے حرام نہیں ہے؛ دولت کمانے کو مقصد بنانا کسی تاجر،  دکاندار، سمگلر، منشیات فروش، سیاستدان  کے لیے تو عین جائز ہوسکتا ہے لیکن طبیب؟
پتہ نہیں یہ سب  پرانی باتیں میرے ذہن میں کیوں آگئیں۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا۔ آپ کی سمجھ میں کچھ آیا؟
 درد تے نئیں ہو رئی جی؟