رزقِ حلال، سلائی مشین اور الحذر


معاشی حرکیات سے نابلد، آتشِ حسد میں جلتے لوگ اس کے سوا کیا کہیں؟رزقِ حلال ہے یہ رزقِ حلال۔ ہزار الزام کپتان کو دئیے جاسکتے ہیں کرپٹ  مگر وہ نہیں۔ کوئی دن میں ہاتف چیخ کر پکارے گا۔۔۔۔ فاعتبرو یا اولی الابصار
پون صدی ہوتی ہے۔ لائلپور کہ تَر دماغ و ہنرمند نفوس کا گڑھ ہے، ایک مردِ جفاکش کندھے پر چادریں رکھے گھنٹہ گھر گول میں کھڑا بیچتا تھا۔ پنجاب کے وسط میں موسم کی شدّت۔۔ الحذر۔۔ جون ، جولائی کی گرمی  کہ چیل انڈے چھوڑ دے مگر یہ ہنرمند اپنے کام میں جُتا رہتا۔ رزقِ حلال حضورِ والا رزقِ حلال۔ برکت اس کام میں اتنی ہوئی کہ کندھے پر چادریں رکھ کے بیچنے والا ستارہ مل کا مالک بنا۔ دنیا اسے حاجی بشیر کے نام سے جانتی ہے۔ پارچہ بافی کی صنعت کا سٹیوجابز۔ زبانِ طعن دراز کرنا آسان ہے۔ محنت سے یافت کرنا دشوار۔ لوگ مگر سمجھتے نہیں۔ سیاست کو نفرت بنا دیا اور اختلاف کو دشمنی۔ اگلے وقتوں کی مروت اور وضعداری تمام ہوئی کہ مائیں بہنیں سانجھی ہوتی تھیں۔ ان کی عزت و احترام میں کوئی فرق آتا نہیں تھا۔ سب ختم ہوا۔ نفرت و حسد کا زہر معاشرے کی رگوں میں اتر چکا۔ خدا مگر اپنی دنیا سے بے نیاز نہیں۔  لازم ہے کہ بدباطنوں پر عذاب نازل ہو۔ لازم ہے۔
کندھے پر چادریں رکھ کے بیچنے والا گروپ آف انڈسٹریز کا بانی ہوسکتا ہے تو کیا سلائی مشین کی یافت اتنی کم ہے کہ دو چار چھوٹے موٹے فلیٹ نہ خریدے جاسکیں؟ حسد و انتقام میں اندھے لوگ۔ سامنے کی بات نظر انداز کرتے ہیں۔ محترمہ علیمہ خانم کہ متمول والدین کی اولاد۔ ترکے میں دادا  اور نانا سے اربوں کی جائیداد۔ ربع صدی سے سلائی مشینوں کا کاروبار۔ چاہیں تو آدھا پاکستان خرید لیں ۔ اعتراض ہے تو چند معمولی فلیٹس پر۔ ارے بھائی، اندر کی کہانی معلوم ہے لیکن سخت تنبیہ کپتان کی ہے کہ ہرگز اس کا ذکر نہ کیا جائے۔ طالبعلم اشارہ دیتا ہے۔ ہر سال پوری دنیا سے جتنا چندہ اکٹھا ہو، اتنا ہی محترمہ علیمہ اپنے پاس سے دیتی ہیں۔ بیس لاکھ بیوہ خواتین کو ایک لاکھ ماہانہ خرچ اس کے ماسوا۔ ایسی ہزاروں روشن کہانیاں ہیں کہ قلب و نظر کو نور سے بھر دیں۔ چراغ سے چراغ۔
بغداد کے شیخ احمد الاغانی کی داستان مثلِ شمس تاریخ میں جگمگاتی ہے۔ ملک شام و عراق کے بڑے تاجر۔ سامانِ تجارت سے لدے قافلے بلادِ شرق و غرب میں  سارا سال چلتے ۔ کل یوم ان کی حویلی میں لنگر کا بندوبست ہوتا۔ سبھی کو دعوتِ عام۔ سونے کے برتنوں میں کھانا پروسا جاتا ۔ کھانے کے بعد وہی برتن مہمان کو ہدیہ کر دئیے جاتے۔ مال و اسبا ب کا یہ عالم کہ خلیفہ ہارون الرشید ایک دن دربار میں کہنے لگے کہ میں مفلس ہوسکتا ہوں مگر شیخ احمد الاغانی کی دولت کم نہیں ہوسکتی۔ خدا نے جتنا فضل کیا اتنا ہی غرباء و مساکین پر خرچ کرتے۔ ایک دن خلوت میں شیخ کی اہلیہ نے دریافت کیا، یا شیخ! کیسے آپ نے اتنا مال کمایا؟ ۔ آپ فرمانے لگے کہ کپڑے سینے سے کام شروع کیا تھا۔ اللہ تعالی نے برکت ڈالی۔ آج جو کچھ بھی ہوں اسی "الاغانی خیاطہ للرجال و النساء " والی دکان کی برکت ہے۔ سبحان اللہ۔ رزقِ حلال حضورِ والا رزقِ حلال۔
معاشی حرکیات سے نابلد، آتشِ حسد میں جلتے لوگ اس کے سوا کیا کہیں؟رزقِ حلال ہے یہ رزقِ حلال۔ ہزار الزام کپتان کو دئیے جاسکتے ہیں کرپٹ  مگر وہ نہیں۔ کوئی دن میں ہاتف چیخ کر پکارے گا۔۔۔۔ فاعتبرو یا اولی الابصار