کرک نامہ


ابو شامل ہمارے بزرگ ہیں۔
یہ سمجھ لیا جائے کہ بزرگی کا تعلق عمر وغیرہ سے نہیں ہوتا،اعمال سے ہوتا ہے۔ اردو بلاگرز میں ان کامقام وہی ہے جو پھلوں میں آم کا ، سبزیوں میں کریلے کا اور کاروں میں مرسیڈیز کا ہے۔ ہم جب بلاگنگ میں نئے نئے تشریفے تھے تو ان کا بلاگ وہ واحد جگہ تھی جہاں ہم حدّادب ملحوظ رکھتے تھے۔ جو احباب ہمیں بہت دیر سے جانتے ہیں وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ بات ابوشامل کے لیے کتنی بڑی سعادت ہے۔  خیر مذاق بہت ہوچکا۔ اب ذرا کچھ سنجیدہ بات کرلی جائے۔
شاید دوسال پہلے کرک نامہ کا اجراء ہوا تھا۔ کرکٹ ہماری بچپن کی محبت ہے۔  کھیلنے سے لے کر دیکھنے اور پھر پڑھنے تک ، کرکٹ سے ہمیں ایسا لگاو تھا کہ شاید میاں مجنوں کو آنٹی لیلی سے بھی نہیں ہوگا۔ شاید چوتھی یا پانچویں جماعت سے اخبار وطن اور کرکٹر جیسے جرائد "دیکھنے" شروع کردئیے تھے ، پڑھنے چھٹی جماعت کے بعد سے شروع کیے۔ آہستہ آہستہ اخبار وطن تو اخبار منیر حسین بنتا گیا اور اسی وجہ سے اس سے ہماری دلچسپی ختم ہوتی گئی البتہ کرکٹر سے ہمارا عشق اس وقت تک باقی رہا جب تک عمران خان کرکٹ کھیلتے رہے۔ کرکٹر کے پرانے شماروں سے بھرا ہوا ایک صندوق شاید اب بھی کہیں سٹور وغیرہ میں پڑا ہوا۔  اس تمہید سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کرک نامہ کے اجراء سے ہمیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہ سب بانداز دگر دوبارہ شروع ہوگیا ہے اور ہم اس پر نہایت خوش  تھے۔  
آج دوسال بعد کرک نامہ کو دیکھ کر شاید ہمیں ابوشامل  سے زیادہ خوشی ہورہی ہے ۔ محنتی بندے تو وہ ہیں ہی، کمٹڈ بھی ہیں۔ ہماری طرح بس یاویاں نہیں مارتے، کام کرتے ہیں اور دل لگا کے کرتے ہیں۔ اس محنت اور کمٹ منٹ کا ایک ثبوت کرک نامہ کی صورت میں سب کے سامنے ہے ۔  ہماری بڑی خواہش تھی کہ ہم بھی کرک نامہ کے لیے کچھ لکھتے لیکن چونکہ ہم اکثر حدود پھلانگ جاتے ہیں اور وہ باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو طبع نازک پر گراں گزرتی ہیں لہذا ہم نے  قصدا اس سے گریز کیا۔
ماہنامہ کرکٹر میں بہت پہلے آخری صفحات میں کوئی ذوالقرنین حیدر مزاحیہ کہانی لکھاکرتے تھے جن میں مرکزی کردار کرکٹر ہوتے تھے۔ بہت سال گزرنے کے باوجود وہ کہانیاں آج بھی ہمیں یاد ہیں۔ تجاویز دینے کے اگرچہ ہم سخت خلاف ہیں کہ ہر بندہ اپنے کام کو بہتر جانتا ہے لیکن ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ اس طرح کا کوئی سلسلہ کرک نامہ پر بھی شروع کیا جائے تو بہت سپر ہٹ ہوسکتا ہے۔
آخر میں ابوشامل اور کرک نامہ کی ٹیم  کو بہت بہت شاباش۔  زبردست کام کیا آپ سب نے۔ دلی مبارکباد اور مزید ترقی کے لیے پرخلوص دعائیں۔

ڈی ایمی پُونڈ


آپ ٹوئٹر کو دیکھ لیں۔ دنیا میں پُونڈی کرنا ایک بنیادی انسانی حق ہے لیکن ہمارے بیک ورڈ  اور کنزرویٹو ماحول میں اس کو نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے الاّ یہ کہ آپ خود کررہے ہوں۔لوگ آپ کو ٹھرکی کہتے ہیں۔ عیّاش اور پلے بوائے سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے۔ انسانی حقوق کی وائلیشن ہے۔ لیکن یہ چیز بھی گوروں نے سارٹ آوٹ کرلی ہے۔
اب، آپ ٹوئٹر کو دیکھ لیں۔ گوروں نے کیا کمال کی انوینشن کی ہے۔ آپ جتنے بھی عظیم پُونڈ ہوں۔ آپ شدید ٹھرکی ہوں۔ آپ کی آنکھیں گھور گھور کے گھُورا بن چکی ہوں، آپ کا چہرہ بگیاڑ جیسا ہوچکا ہو۔ آپ کے زائد بال بھی سفید ہونے شروع ہوگئے ہوں، ان سب کے  باوجود بھی آپ یہاں ود آوٹ اینی فِئیر پُونڈی کرسکتے ہیں۔ اپنے ہمسائے کے کالج جاتے بچے کی تصویر کھینچ کے ڈی پی لگا سکتے ہیں۔ خود کو چھیانوے کی پیدائش ظاہر کرکے بچیوں اور آنٹیوں کے دلوں میں بیک وقت آتش شوق بھڑکا سکتے ہیں۔ ماش کی دال کھا کے بھی کے ایف سی کے ڈکار مار سکتے ہیں۔ ڈرائیور ہوٹل کی دودھ پتّی پی کے گلوریا جین کی کافی کی شو مار سکتے ہیں۔ لنڈے کے کوٹ کو ارمانی کا بتا سکتے ہیں۔ چائنا کے آئی فون کو سٹیو جابز پر ڈال سکتے ہیں۔ بیس روپے کی عینک کو رے بان کہہ سکتے ہیں۔ کے ٹو فلٹرکو مارلبرو کی ڈبّی میں ڈال کر ڈی پی والی فوٹو میں واضح کرسکتے ہیں۔ ملوک کھا کے سٹرابیری ود کریم کھانے کی ٹویٹ کرسکتے ہیں۔ ابلی ہوئی چھلّی کھا کے چکن تکّے  کی فوٹو ٹکا سکتے ہیں ۔  کامونکی جانے پر ہوائی جانے کی ہوائی اڑا سکتے ہیں۔ کسی ماما کے برگر یا پاپا  کی جلفریزی  کی جرات نہیں ہوسکتی کہ آپ کو چیلنج کرسکے۔
اس کے علاوہ آپ چاہے ساتویں جماعت سے بھاگے ہوئے ہوں، اپنے نام کے ہجّے سوچنے میں آپ کو سات منٹ لگ جاتے ہوں، اردو کو  اُڑدو کہتے ہوں۔ شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دوں ۔۔ کو شاعری کی معراج سمجھتے ہوں پھر بھی آپ ایک سخن فہم ، ادب نواز ،  شاعری کا مثالی ذوق رکھنے والے نفیس انسان کے طور پر بچیوں اور بچیوں کی اماوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ بابا گوگل سائیں سرکار پر سرچ ماریں اور شاعری کی تین چار سائٹیں بک مارک کرکے رکھ لیں۔  اب ایک مشکل اور پیش آسکتی ہے کہ آپ کو اردو میں ٹائپ کرنا نہیں آتا،  تو ایسی سائٹیں سرچیں جن پر یونی کوڈ میں شاعری موجود ہو۔ بس اس کے آگے منزل آسان ہے۔ روزانہ کسی نہ کسی شاعر کو سدّھا کرلیں اور دے مار ساڈے چار۔ کاپی پیسٹ کرکے دھڑا دھڑ  شعر ٹویٹنے شروع کردیں۔  آپ دیکھیں گے کہ آپ کا پیچھا کرنے والوں میں زنانہ آئی ڈیوں کی کثرت ہوجائے گی۔ کوشش کریں کہ شعر انتہائی دردیلے ہوں اور چیزی ہوں۔  آپ خوش ہوجائیں گے۔ آپ کے من کی مراد پوری ہوجائے گی۔ بچیاں آپ کو دھڑا دھڑ فیورٹ اور ری ٹویٹ کرنے لگیں گی۔ آپ کی چوّلوں پر بھی ہی ہی ہی کرنے لگیں گی۔ زیادہ تھُڑی ہوئی آنٹیاں آپ کو ڈی ایم نامی ویپن آف ماس پوُنڈی کے ذریعے بھی لُبھانے لگیں گی۔آپ کی زندگی میں رنگ بھر جائیں گے ۔ آپ خود کو  شاہ رخ خان اور جانی لیور کا مرکب سمجھنے لگیں گے۔ آپ کا سیلف کانفیڈنس آسمان کو چھونے لگے لگا۔ یہ سب آسانیاں اور سہولتیں  ہیومن ریس کو کس نے دیں؟ گوروں نے۔ ورنہ  یہ آسانیاں اور موجیں اس پسماندہ سوچ والے قدیم ملک میں کون پرووائڈ کرسکتا ہے؟
آپ خود کو دانشور بھی کہلوانا چاہتے ہوں اور ساتھ ہی ساتھ پُونڈی کے مزے بھی لینا چاہتے ہوں تو یہ کام بھی کوئی اتنا ڈفیکلٹ نہیں ہے ۔ سیدھی سادی باتو ں کو مشکل الفاظ میں بیانیں اور ٹویٹ دیں۔ لوگ آپ پر ٹوٹے پڑیں گے۔ آپ کو شوپنہار، کنفیوشس، سارتر، برٹرینڈ رسل  کے پائے یا سری کا فلسفی اور دانشور سمجھنے لگیں گے۔  اس ریپوٹیشن کے ساتھ آپ سرعام پُونڈی کرتے نہایت چیپ اور غلیظ لگیں گے۔ لہذا آپ کو چاہیے کہ آپ ڈی ایم کا سہار ا لیں۔ جس خاتونہ کی ڈی پی پر آپ کا دل آئے اس کو بے دھڑک ڈی ایم میں جو دل چاہے میسج بھیجیں۔ یہاں کسی کا بھائی، بیٹا، ابا، شوہر یا عاشق آپ کی پھینٹی نہیں لگا سکتا ۔
 یہی ٹوئٹر کی خوبصورتی ہے۔