الف امریکہ، ب بھیڑیا

اردو کے ابتدائی قاعدے (القاعدے نہیں) جو ہم نے اپنے اپنے بچپنوں میں پڑھے تھے، ازکار رفتہ ہوگئے ہیں اور فی زمانہ، زمینی حقیقتوں سے بالکل متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر الف انار، ب بکری، پ پنکھا، ت تختی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اردو میں تعلیم حاصل کرنے والے اطفال تو اب انار کے نام سے بھی واقف نہیں، کھانا تو دور کی بات ہے۔ یہی حال بکری اور اس کے گوشت کا ہے۔ بھلا ہو شیر کا اور اس محاورے کا جس میں یہ دونوں ایک ہی گھاٹ پر مبینہ طور پانی پیتے ہیں، کیونکہ اگر یہ محاورہ نہ ہوتا بکری کا ذکر بھی معدوم ہوچکاہوتا۔ پنکھا بھی معدوم ہونے کی سرحد پر ہی کھڑا ہے۔ جن کو بجلی میسر ہے وہ اس کی ضرورت سے بے نیاز ہیں کیونکہ وہ پنکھے کے برادر نسبتی ائیر کنڈیشنر سے تعلقات گانٹھ چکے ہیں اور ہما شما کو تو یہ نعمت موسوم بہ بجلی میسر ہی نہیں۔ اس لئے وہ پنکھے کی حاجت سے بھی بے نیاز ہیں۔ تختی بھی آثار قدیمہ میں شمار ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں تختی والے سکول”کھوتی سکول“ کہلاتے تھے۔ سرکار نے یہ تفریق ختم کرکے اب سارے سکول ”کھوتے سکول“ کردیئے ہیں! جبکہ ہمارے ایک دوست عرصہ تک مُصر رہے کہ تختی، تختے کی بیوی ہوتی ہے، وہی تختہ جو الٹایا جاتا ہے! واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
قصہ مختصریہ کہ ہم نے اردو کا ایک وچکارلا قاعدہ بنایا ہے۔ جو بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ روشن خیال اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید روشن خیال بنائے گا۔ آئیے ابتدا کرتے ہیں۔
الف ۔۔۔۔۔۔ امریکہ : اصولی طور پر تو آجکل ہر حرف تہجی سے امریکہ ہی بننا چاہیے کیونکہ جتنی انسان دوستی، علم سے محبت، اعلی ترین اخلاقی و آفاقی اقدار، رواداری، مذہبی یگانگت، عدل و انصاف، امن پسندی، رحمدلی، سچ سے لگاو اور جھوٹ سے نفرت اس عظیم الشان ملک کی ہیئت مقتدرہ میں پائی جاتی ہے، انسانی تاریخ اس کی مثال کسی ایک دور میں پیش کرنے سے معذور ہے!
ب ۔۔۔۔ بھیڑیا: یہ ایک جانور ہوتا ہے۔ خونخوار۔۔۔ وحشی۔۔۔۔ میمنے اور اس کی کہانی بڑی مشہور ہے۔ یہ اتنی عمدہ کہانی ہے کہ تاریخ کے ہردور میں اس کی ڈرامائی بلکہ حقیقیاتی تشکیل کی جاتی ہے۔ بھیڑیے اور میمنے کا کردار ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ آخری مشہور میمنے اور بھیڑیے کی مڈبھیڑ ۲۰۰۲ میں ہوئی تھی۔ آٹھ سال بعد اب بھیڑیا شور مچا رہا ہے کہ میمنا اسے پھاڑ کھائےگا! ہور چوپو۔۔۔
(ب سے ایک اور مشہور جانور بھی ہوتا ہے۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے!)
پ ۔۔۔۔۔ پیٹ: ہر جاندار کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ اسے بھرنا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اکثریت تو اسے روکھی سوکھی سے بھرتی ہے، جبکہ کئیوں کے پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ بھر جائے تومستی چڑھتی ہے جسے ”رج کھان دی مستی“ کہتے ہیں اور اسی کے زیر اثر بھیڑیا، میمنا اور میمنا، بھیڑیا نظر آنے لگتا ہے۔
ت۔۔۔۔۔۔ترقی: یہ بڑی اچھی چیز ہوتی ہے۔ اس سے دنیا کی آبادی قابو رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ جب انسان غیر ترقی یافتہ تھا تو لڑائی میں سینکڑوں لوگ مرتے تھے۔ ترقی کرنےکے بعد اب وہ لاکھوں، کروڑوں انسان ماردیتا ہے اور اسے کولیٹرل ڈیمیج کا دانشورانہ اور فلسفیانہ نام دیتا ہے!
ٹ ۔۔۔۔۔ ٹی سی: بچّو! اس کے بارے آپ بڑے ہو کر خود ہی جان جائیں گے کیونکہ یا تو آپ کو یہ کرنا پڑے گی یا کوئی آپ کی کرے گا۔ دعا ہے کہ آپ دوسرے آپشن سے ہی دوچار ہوں۔۔۔
ث۔۔۔۔۔ثانیہ: یہ پاکستانیوں کی مشہور زمانہ بھابھی (ہائے۔۔۔ کس دل سے یہ لفظ لکھا ہے۔۔۔ میرا دل ہی جانتا ہے) اور کچھ کم مشہور زمانہ ٹینس کی کھلاڑی ہے۔ اس کے متعلق جتنا کم لکھوں اتنا ہی اچھا ہے ۔۔۔۔ آہو۔۔۔
ج۔۔۔۔جعفر: خود دیکھ لیں کہ ثانیہ کا صحیح جوڑ کس کے ساتھ بنتا تھا؟