یار دوست

دوست بڑی کمینی چیزیں ہوتے ہیں نہ ان کے بغیر گزارا ہوتا ہے نہ ان کے ساتھ!

آن لائن دوستیاں اگر جنس مخالف سے نہ ہوں تو خوب پھلتی پھولتی ہیں۔ پھلتی پھولتی تو وہ بھی ہیں لیکن کسی اور سمت میں ۔۔۔ آہو!۔ بلاگنگ شروع کرنے کے بعد طبقہ بلاگراں کے کچھ ارکان سے بڑی بے تکلفیاں ہوئیں جو اب بڑھ کر دوستی تک پہنچ رہی ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں کو ان دوستیوں پر اعتراضات بھی بہت ہیں لیکن جی ہر مزےدار چیز متنازعہ ضرور ہوتی ہے۔ لہذا اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نشتہ!

ذیل کی سطور میں ایسے ہی چند دوستوں کا نام لیے بغیر 'بوجھو تو جانیں' ٹائپ ذکر کیا جائے گا۔ نام نہ لکھنے کو کوئی میری بزدلی پر محمول نہ کرے اگرچہ اصل وجہ یہی ہے! انیس نے بہت پہلے خبردار کردیا تھا کہ آبگینوں کو ٹھیس لگنے سے بچانے کے لئے دوستوں سے سچ مت بولو اور اس کے لیے انہوں نے 'خیال خاطر احباب' جیسی اصطلاح گھڑی تھی، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تو جان لیں کہ میرے جیسا صداقت شعار، راست گو، بے باک انسان ایسی خبرداریوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور وہی کہتا ہے ۔۔۔ جو نہیں کہنا چاہیے!

ایک بھائی جان ایسے ہیں، جن کے بلاگ اور ان کی فیس بک وال پر ہمیشہ وہ کچھ لکھا ہوتا ہے کہ چنگا بھلا مٹن کڑاہی کھاتا ہوا بندہ، خودکشی بارے سوچنے لگتا ہے!۔ ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ یار! لک ایٹ دا برائٹ سائڈ۔ یعنی کہ بلب (آج کل انرجی سیور) کی طرف دیکھ۔ تاکہ تیری آنکھوں میں بھی جلن ہو اور تمہیں پتہ چلے کہ تکلیف ہوتی کیا ہے؟ اور مجھے شدید شک ہے کہ یہ ایسی باتیں خوب پیٹ بھر کے کھانا کھانے کے بعد ہاضمہ بہتر کرنے کے لیے کرتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ سب پڑھ کے جو السر ہوجانا ہے، اس کی اسے کوئی پروا نہیں!۔ بندہ بن اوئے۔۔

دوسرے پائین، صرف تب لکھتے ہیں، جب کسی کی واٹ لگانی مقصود ہو۔ ورنہ برفانی ریچھ (ھاھاھاھاھاھا) کی طرح، لمبی نیند سو جاتے ہیں۔ بہت دفعہ کہا ان کو آف دی ریکارڈ کہ اوئے (ان کا لقب لکھنے کو دل تو کررہا ہے، پر، آئی ول پاس) لکھا کر تیرے جیسا لکھنے والے کم ہیں بلکہ ہیں ہی نہیں اور، کوئی اور نہیں ملتا تو میری ہی واٹ لگا لیا کر۔ لیکن پائین ہیں کہ بس۔۔۔آہو۔

ایک اور صاحب ہیں جو فیس بک سٹیٹسوں پر ایسے فقرے چست کرتے ہیں کہ بندہ پھڑک کر رہ جاتا ہے۔ پر جب اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں تو ان میں پروفیسر اشفاق علی خان کی روح حلول کرجاتی ہے۔ 'روسی ٹریکٹر اور بکریوں کا بانجھ پن' جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں اورایسی فلسفیانہ باتیں کہ بندے کا دیوار میں ٹکریں مارنے کو دل کرنے لگتا ہے۔ لکھیں جی، ایسی باتیں بھی لکھیں اور جم جم لکھیں، لیکن کبھی اپنا دوسرا ٹیلنٹ بھی آزمائیں، جس کی روز مشق کرتے ہیں۔ مہربانی ہوگی!

اور جو آخری ہے اس پر مجھے بڑی تپ ہے! آپ پوچھیں گے کیوں؟ اس کی ایک بڑی ٹھوس وجہ ہے۔ جو بندہ پریکٹس میں ہی ساری توانائی لگا دے اور میچ کھیلنے کے لیے ان فٹ ہوجائے، اس کے بارے آپ کا کیا خیال ہے؟ جی! بالکل۔۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ ۔۔۔فیس بک کھاگئی زن و جواں کیسے کیسے۔۔۔۔ سیانے صحیح کہتے تھے، نام کا اثر آخر کار ہوہی جاتا ہے!