فوٹوسٹیٹی دانش

میں ایک بلاگر ہوں۔ میں ایک دن میں تین دفعہ کھانا کھاتا ہوں اور چار پوسٹیں بلاگ پر پوسٹتا ہوں۔ اس کائنات کا کوئی ایسا موضوع باقی نہیں بچا جس پر میں نے کوئی پوسٹ نہ کی ہو۔ چکن جلفریزی سے نظریہ اضافت تک میں نے ہر موضوع پر ‘دے مار ساڈھے چار' قسم کی دھانسو پوسٹیں ٹھوک کر لکھیں۔ اور تبصرہ نگاروں کی ایسی دھلائی بزعم خود کی، جیسے پچھلی پیڑھی کی عورتیں کپڑوں کی 'تھاپی' سے دھلائی کرتی تھیں۔ میں نے ہمیشہ اور ہر بندے کی ہر بات کی مخالفت اپنا علمی، دینی، اخلاقی، مذہبی، معاشرتی، سیاسی، نامیاتی، معاشی، اقتصادی، تحقیقی اور مابعد الطبیعاتی فریضہ سمجھ کر کی۔ میرا 'کاں' ہمیشہ 'چٹّا' ہی رہا اور میرا سورج رات کے ساڑھے بارہ بجے ہی طلوع ہوتا رہا۔ میں نے یونیورسٹی کی سب سے حسین لڑکی کو بھی آئی ہیٹ یو اس لئے کہا کہ اس نے مجھے آئی لو یو کہا تھا!!

ایک دن جب میں صبح اٹھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس لکھنے کو کچھ باقی نہیں۔ میں پریشان ہوگیا، میری سٹّی گم ہوگئی۔ میرے ہاتھوں کے طوطے، کبوتر، کاں سب اڑ گئے۔ میں نے خود کو ایسا محسوس کیا، جیسے میں کرپشن کے بغیر زرداری ہوں یعنی کچھ نہیں ہوں۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرا دل درد سے بھر گیا۔ میں دنیا سے مایوس ہوگیا۔ میری راتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ مجھے خوابوں میں ورڈ پریس کے بھوت ڈرانے لگے۔ میرے بلاگ کے تبصرہ نگار بھوتوں کی شکل میں مجھے آس پاس نظر آنے لگے۔ میں ذہنی مریض بننے لگا۔

انہی دنوں میں نے نمازیں بھی شروع کردیں۔ میں ایک دن جمعہ کی نماز پڑھ کے مسجد سے باہر نکلا تو مجھے مسجد کے دروازے پر دس بارہ سال کے بچے نے ایک فوٹو سٹیٹ کیا ہوا کاغذ تھما دیا۔ یہ کاغذ وہ ہر نمازی کو تھما رہا تھا۔ میں نے اس کاغذ پر نظر ڈالی اور میرے دل کی کلی کھل گئی۔ میں بھاگا بھاگا گھر پہنچا، کمپیوٹر آن کیا اور اس کاغذ کو سکین کرکے بلاگ پر لگادیا۔ میرے بلاگ پر وہ گھمسان کا گھڑمس مچا کہ میرا دل گاندھی گارڈن ہوگیا۔ میں ہواؤں میں اڑنے لگا۔ مجھے اپنی زندگی سے دوبارہ پیار ہوگیا۔ میں رفیع کے پیار بھرے گیت گنگنانے لگا۔ لیکن یہ بہار صرف دو دن قائم رہی۔ میں پھراگلے جمعے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن اس دن مجھے مسجد کے باہر کوئی کاغذ نہیں ملا۔ میں دھوپ میں دو گھنٹے کھڑا رہا کہ شاید کسی پوسٹ کا مصالحہ مل جائے لیکن ایسا نہ ہوا۔ اگلے تین چار جمعے بھی یہی کچھ ہوا۔ دھوپ میں کھڑا رہ رہ کے میرا رنگ ایسا ہوگیا کہ ایک ویسٹ انڈین نے بھی مجھے 'اوئے کالے اوئے' کہہ کے پکارا۔ میں جمعہ سے مایوس ہو کر فالسے اور گنڈیریوں کی ریڑھی سے خوامخوہ چیزیں خرید لیتا کہ شاید کوئی فوٹو اسٹیٹ ہو۔ حتی کہ شام کو پکوڑے کھا کھا کر میں نے اپنا پیٹ پانی پت کا میدان بنا لیا کہ شاید کسی دن اخبار کی بجائے فوٹو اسٹیٹ پیپر پر پکوڑے مل جائیں۔ یہاں تک کہ رات گئے میں فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں کے چکر لگاتا رہتا کہ شائد کوئی کسی پرچے کی فوٹو اسٹیٹ کروا رہا ہو اور میں ایک آدھ اچک لوں۔ میں نے ساری دنیا میں اپنے جاننے والوں سے درخواست کی پر ان سب نے مجھے رنگین اور اجلے پیپرز پر چھپے پمفلٹ بھیج چھوڑے جبکہ مجھے تو تلاش تھی اسی مٹی کے تیل والی فوٹو اسٹیٹ کی۔۔۔

میری زندگی، میرا کیرئیر، میری بلاگنگ اب ایک دوراہے پر آن پہنچی ہے۔ میں آپ سے پرسوز اور دردمندانہ اپیل کرتاہوں کہ براہ کرم جہاں بھی کسی کو کوئی فوٹوسٹیٹی دانش ملے، مجھے بذریعہ ڈاک، یا ایمیل یا دستی (جمشید دستی نہیں) پہنچادے اور اس دکھی اور جھلسے ہوئے دل (اورچہرے) کی دعائیں لے!!!!