چند اقتباسات - خواتین کے ڈائجسٹوں سے

”۔۔۔۔ جونہی شاقق اندر داخل ہوا، اس کا سامنا فجل سے ہو گیا جو یونیورسٹی جانے کے لئے نکل رہی تھی۔ پکوڑے کلر کے سوٹ پر فالودے رنگ کی چادر میں وہ ایک قیامت لگ رہی تھی۔ شاقق اسے نظر انداز کرنا چاہتا تھا لیکن ایسا مبہوت ہوا کہ فجل کے ابا کے کھنکھارنے پر ہی اسے ہوش آیا۔۔۔۔“
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
”۔۔۔۔ نارم اسے ڈھونڈتا ہوا کچن تک آ پہنچا اور دروازے میں کھڑا ہو کر فرینہ کو محبت پاش نظروں سے دیکھنے لگا۔ وہ اس سے بے خبر بھنڈیوں کے لئے پیاز کاٹ رہی تھی۔ نارم نے اسے ہولے سے پکارا، ”فرنی۔۔۔“ ۔ فرینہ نے پلٹ کر اسے دیکھا تو حیا سے (یا چولہے کی آگ) سے اس کے سانولے گال نارنجی ہوگئے ۔۔۔۔“
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بائسہ کے فائنل ایگزامز شروع ہونے والے تھے، ایگزامز سے زیادہ وہ اس بات پر پریشان تھی کہ اب اسے کیسے دیکھ سکے گی؟؟ وہ جو اس کی زندگی کا محور ہے، جس کے خیال سے ہی اس کی پلکیں حیا سے جھک جاتی ہیں، جس سے اس نے ٹوٹ کر محبت کی ہے (اور ٹوٹنے کی وجہ سے زنگ بھی لگ گیا ہے ) ، لیکن وہ کٹھور دل ایسا ہے کہ اسے کچھ خبر نہیں‌ کہ کوئی اسے اپنی زندگی بنائے بیٹھا ہے۔
کب پتہ چلے گا تمہیں۔۔۔ لائم۔۔۔ کب اپنی بائسہ کے دل کی بات سنو گے ، سمجھو گے؟؟؟ کب ۔۔۔ کب۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انتباہ:
مندرجہ بالا اقتباسات ان ڈائجسٹوں سے لئے گئے ہیں جو ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور نہ ہی ہونے کی امید ہے۔۔۔ لہذا کسی بھی قسم کی مطابقت قطعی اتفاقیہ ہوگی۔۔ ان میں لکھے گئے نام خالص میری اپنی ”ایجاد“ ہیں‌ اور انہیں‌کوئی بھی اپنے ہونے والے بچے کے لئے چن سکتاہے کہ آج کل خواتین زیادہ تر نام ڈائجسٹوں سے ہی چنتی ہیں۔ لیکن بڑے ہونے پر بچوں نے اگر سوال کیا کہ یہ نام کہاں سے پڑھ کر رکھا تھا تو میرا ذمہ توش پوش۔۔۔

سامنے یونان ہے !!!


ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے

آر یا پار

ہم لوگوں میں کوئی مینو فیکچرنگ فالٹ ہے ضرور۔ہم بیچ کے راستہ اور درمیانی راہ سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے مچھر موسپل سے بھاگتاہے۔ بھٹو کو ولن بنایا تو اس کے مرنے کے بیس سال بعد تک اسے سولی پر لٹکائے رکھا۔ اب اسے ہیرو بنایا ہے تو ایسے لوگ بھی اس کے تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں جو اپنے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے اسے پھانسی دینے کے مطالبے کرتے تھے۔
ہم انسان کو انسان سمجھنے سے انکاری ہیں۔ لہذا ہم نے انسان کو فرشتے اور شیطان میں بانٹ دیا ہے۔ ضیاء الحق سے خوش ہوئے تو اسے مرد مومن مرد حق کا خطاب دے دیا ، ناراض ہوئے تو ”وینگی مُچھ تے کانی اکھ ضیاء الحق ضیاء الحق“ کا نعرہ بلند کر دیا۔
روزمرہ کے معاملات دیکھ لیجئے، ہم سب کے اندر ایک چھوٹا سا رب چھپا بیٹھا ہے جو اپنے جاننے والوں سے مکمل بندگی کا تقاضا کرتاہے۔ ہم اپنے دوستوں سے چاہتے ہیں کہ ہماری ہاں میں‌ہاں ملائیں جس سے ہم ملیں اسے سے وہ بھی دوستی رکھیں اور جو ہمیں پسند نہ ہو اسے وہ بھی رد کر دیں۔
رشتے داری میں بھی یہی رنڈی رونے ہیں۔ خاندان میں کوئی شادی ہو تو ہماری شرطیں ہوتی ہیں، کہ خالو رشید کو بلاؤ گے تو میں نہیں آؤں گا اور ماموں حفیظ کو نہیں بلاؤ گے تو پھر بھی نہیں آؤں گا۔
کسی مولانا سے یہ کہہ کر دیکھیں کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے بھی ہو تو نماز ہو جاتی ہے تو وہ وہیں بیٹھے بٹھائے آپ کو ہنود و یہود لابی کا سرگرم رکن ثابت کردیں گے۔
دوسروں کے ایمان پر شک کرنا ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔
”سب بے ایمان ہیں ایک میں ہی ایماندار ہوں“ ہمارا قومی ماٹو بن گیا ہے۔
کچھ ہے ضرور ۔۔۔ یا تو ہمارے جینز میں خرابی ہے یا آب و ہوا میں یا خوراک میں یا پھر دماغ میں ۔۔کوئی چیز ایسی ضرور ہے جو ہمیں آر یا پار کے طرز فکر پر مجبور کرتی ہے۔۔
سوچ سوچ کر تھک چکا ہوں۔۔
لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا
کہ آخر ہمارے ایسا ہونے کی کیا وجہ ہے؟؟؟؟‌