میاں صاحب کی ڈائری

رات سے طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ شباژ صاب نے الگ پریشان کیا ہوا تھا کہ "پائین۔۔۔ جان دیو سُو۔۔۔ نئیں تے فیر سانوں جانا پیناں۔۔۔ " اسی پریشانی میں کچھ کھایا بھی نہیں گیا۔ صبح بھوک سے جلدی آنکھ کھل گئی۔ بیگم صاحبہ ابھی سوئی ہوئی تھیں۔ میں نے آہستگی سے بیڈروم والی فریج کھولی تو اس میں وہی آلو مٹر گاجریں، کدو کی بھجیا اور بھنڈیوں کا سالن تھا۔ بیگم صاحبہ نے سختی کی ہوئی ہے اسی لیے میں زیادہ تر دوروں پر ہی رہتا ہوں۔ گھر میں تو یہی کچھ کھانا پڑتا ہے۔ کوئی اک مصیبت اے۔۔۔۔
کچن کی فریج دیکھی تو اس میں کباب، بریانی، نہاری، ہریسہ وغیرہ ٹھنسے ہوئے تھے۔ جلدی میں صرف دس بارہ کباب، نہاری کی ڈیڑھ  پلیٹ اور آدھا ڈونگا ہریسے کا ہی کھا سکا۔ کھانا مزے دار ہو تو ٹھنڈا بھی مزا دیتا ہے۔ سپرائٹ کی ڈیڑھ لیٹر والی بوتل سے تین چار گھونٹ لیے, نشے آگئے۔ ابھی فجر میں وقت تھا لہذا ٹی وی لاؤنج میں گیا۔ ورزش صحت کے لیے بہت ضروری ہے چنانچہ شلپا شیٹی کی ورزش والی ویڈیو لگا کر دیکھی۔ جسم فریش ہوگیا۔ ورزش باقاعدگی سے کرتا ہوں۔ اسی لیے اللہ کے فضل و کرم سے میرا ذہن اتنا تیز ہے۔ ماشاءاللہ۔۔۔
سیٹھی صاب کو فون کیا۔ وہ سونے کی تیاری میں تھے۔ ورلڈ کپ کی ڈیل فائنل ہونے کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بات پکّی ہوگئی ہے۔ پیسے آج ہی ٹرانسفر ہوجائیں گے۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ رزقِ حلال بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ سیٹھی صاب بہت اچھے بندے ہیں۔ مجھے انگریزی بھی سکھائی ہے۔ جگتیں بھی کرتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے،"۔۔ میاں صاب، تسی انگریزی اینج بولدے او۔۔ جیویں جھنگ آلے اردو بولدے نیں۔۔۔" ہیں جی!
پہلے اسلام آباد والے شاہ جی ہوتے تھے۔ ان کی انگریزی بھی اچھی کڑاکے دار تھی۔ پچھلے دنوں ملنے بھی آئے تھے۔ میں نے ان کو روٹی شوٹی کھلائی۔ کہنے لگے کہ انگریزی سکھانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ انتظار کریں اگلی دفعہ مقدس سرزمین سے واپس آئیں گے تو آپ کو ہی انگریزی سکھانے پر رکھوں گا۔ خوش ہوگئے۔ اچھے بندے ہیں۔ شاہ جی نے وڈّے چوہدری صاب کا سلام بھی دیا۔ چوہدری پیجے کی وجہ سے بات نہیں بنتی ورنہ وڈّے چوہدری صاب بڑے سیانے بندے ہیں۔ شباژ صاب، پیجے کا نام سنتے ہی غصہ کر جاتے ہیں۔ ڈائننگ ٹیبل پر مُکّے مار مار کے تقریر شروع کردیتے ہیں۔ شعر بھی سَناتے ہیں۔ امّی جی کو شکایت لگانے کی دھمکی دیتا ہوں۔ پھر چُپ کرتے ہیں۔ شباژ صاب بھی باچھا بندے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے ان سے ڈر لگنے لگتا ہے کہ اگلا مارشل لاء شباژ صاب ہی نہ لگا دیں۔
فجر پڑھ کے نیند کی ایک جُھٹّی اور لگائی۔ اٹھ کے ناشتہ کی تیاری کررہا تھا کہ خواجہ صاب کا فون آگیا۔چھوٹتے ہی بولے۔۔ یہ جو اے، جو اے، ببلو اے، یہ جو اے، کمانڈو جو اے، اس کو جو اے، کیا چکر اے؟۔۔۔۔ خواجہ صاب بندوں کو تپانے میں ماہر ہیں۔ ایک دفعہ ببلو کے گَل پڑ گئے تھے۔ پھر ببلو کو سیریں کرائیں۔ کلفیاں کھلائیں۔ جھولے بھی دلائے۔ پھر کہیں جا کے اس کا موڈ ٹھیک ہوا۔ ان کو کل والے معاملے کی بھنک پڑ گئی تھی تو اب مجھے تپا رہے تھے۔ میں نے بہت سمجھایا کہ جگر جی۔۔ پہلے ہی دس سال کھجل ہوئے ہیں اب تھوڑا مال پانی بنا لینے دیں اگلی باری پتہ نہیں آئے نہ آئے۔۔۔ پر خواجہ صاب کی سوئی ایک دفعہ اڑ گئی تو اڑ گئی۔۔۔ سیالکوٹی جو ہوئے۔
روٹی کھانی حرام کی ہوئی ہے۔ جب بھی روٹی کھانے بیٹھو کوئی نہ کوئی اپنا سِیڑی سیاپا لے کے آجاتا ہے۔ اَنسان اتنی محنت مشقت کس لیے کرتا ہے؟ روٹی کے لیے۔۔ وہی سکون سے نصیب نہ ہو تو کیا فائدہ سارے ٹشنوں کا۔۔۔۔ ہزار دفعہ کہا ہے کہ روٹی کے چھ ٹائم نکال کے جس وقت مرضی فون کرلیا کریں۔ مجال ہے کسی پر اثر ہوتا ہو۔ الٹا مذاخیں کرتے ہیں۔ جگتیں لگاتے ہیں۔ شرم، حیا، مروّت ہی ختم ہوئی ہوئی ہے۔ ببلو اس معاملے میں ٹھیک ہے۔ اس کو بھی روٹی کھانے کا بڑا شوق ہے۔ ایک دن ہم دونوں نے مل کے ستونجہ قیمے والے نان کھائے تھے۔ بڑا مزا آیا تھا۔
اسلامباد والے چوہدری صاب بھی پوری نیّر سلطانہ ہیں۔ جب دیکھو، بڈّھے کی جوان زنانی کی طرح رُسّے رہتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے شغل میں پوچھا، چوَری صاب، چھاویں تے وگ لاء کے رکھ لیا کرو۔۔۔ بس ناراض ہوگئے۔ شباژ صاب کو شکایتیں لگائیں۔ دس ہزار ترلے کیے پھر کہیں جا کے مانے۔ مانے سے یاد آیا اپنے خاں صاب کا بھی بڑا یارانہ ہے چوہدری صاب سے۔ دونوں ہی غصے میں رہتے ہیں۔ کم روٹی کھانے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ بندہ روٹی تو رَج کے کھائے کم سے کم۔
ببلو کو میں نے بڑا سمجھایا کہ تمہیں وڈّا کمانڈر لگوا دوں گا۔ تنخواہ بھی ریالوں میں اور عمرے فری۔ بس یہ کمانڈو والی ضد چھوڑ دے۔ اس بات پر ببلو کا رنگ مزید سرخ ہوجاتا تھا۔ ایک دن تو میرے پیٹ میں مُکا بھی ٹکا دیا۔۔ بعد میں کہتا ہے۔۔ شغل کیتا سِی۔۔ بس مجھے اسی دن پتہ لگ گیا کہ کمانڈو کو چھوڑنا ہی پڑے گا۔ ورنہ ببلو اگلا مُکا کنپٹی پر مارے گا۔ زندگی کے لیے بندہ اتنے جتن کرتا ہے۔ مرگیا تو یہ ہریسے، نہاریاں، بریانیاں، نان، کباب، تکّے، پیپسیاں، ادھ رڑکے، دودھ پتیاں لوگ ہی پئیں گے۔ کبھی قُل شریف کے نام پر اور کبھی چالیسویں اور برسی کے ختم پر۔
 جان ہے تو جہان ہے۔۔ ہیں جی!