استاد ”پونکا“ (پونکا کا نون، نون غنہ پڑھا جائے!)

درمیانہ قد، سہیل احمد جیسا منہ، خالد عباس ڈار جیسی مونچھیں، وحید مراد جیسا ہئیر سٹائل، محمد علی جیسی پاٹ دار آواز، سگریٹ ہر وقت منہ میں، یہ ہیں ”استاد پونکا“۔ نام تو ان کا کچھ اور تھا لیکن ہر خاص و عام میں‌ ہمارا (میرا اور میرے لنگوٹیے یار کا) دیا ہوا یہ نام مقبول ہوگیا تھاجو کہ حسب حال بھی تھا، اگرچہ ان کے سامنے کسی کی جرات نہ تھی کہ یہ نام دہراتا!
ہمارے محلے میں‌ ان کی ویلڈنگ کی دکان تھی جس میں لوہے کے گیٹ، کھڑکیاں اور ایسی ہی دوسری چیزیں بنتی تھیں۔ ان کی دکان کے باہر پڑا ہوا لکڑی کا بنچ پورے محلے کی چوپال اور افواہوں کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہالی ووڈ میں جتنے بھی سپر ہیروز کے کردار تخلیق کئے گئے ہیں ان سب کی انسپریشن انہیں استاد پونکے سے ہی ملی ہوگی۔ استاد بقول ان کے دنیا کے ہر فن اور ہر علم پر حاوی تھے۔ دل کے آپریشن سے لے کر فوجی آپریشن تک، کرکٹ سے گلی ڈنڈے تک، شاعری سے گلوکاری تک، اداکاری سے ہدایت کاری تک ، ہر چیز پر اپنی رائے کو آخری سمجھتے تھے اور اس سے متفق نہ ہونے والے کی بنچ پر جگہ نہیں‌ رہتی تھی!‌
مچھلی کا شکار اور مکیش کے گانے ان کی خصوصی دلچسپی کے حامل تھے۔ مکیش کے سب سے دردناک گانے وہ اپنی دکان پر رکھے ہوئے ازمنہ قدیم کے ڈیک پر تب بجاتے تھے جب ان کے پاس کوئی کام آجاتا تھا۔ وہ اس قول کے بھی قائل تھے کہ ”کم جواناں دی موت اے“۔ لہذا کام کی شکل دیکھتے ہی ایسے گانے ڈیک پر چلنے شروع ہوجاتے تھے کہ تیسرے ہی گانے پر انسان کا خود کشی کرنے کو دل چاہے اور یہ گانے اس وقت تک لگاتار بجتے جب تک کام ختم نہیں‌ ہوتا تھا۔
پونکے کا خطاب استاد کو ان کی آواز اور اس سے جو کام وہ لیتے تھے، اس بناء پر دیا گیا تھا۔ ان کی آواز ایسی تھی کہ بیوی کے کان میں‌ بھی سرگوشی کریں تو ہمسائی شرم سے دوہری ہو جائے ! ان کی سرگوشی کی آواز بھی 20 میٹر دور سے سنی جاسکتی تھی۔ استاد کی شادی تب ہوئی جب ساری کائنات ان کی شادی سے مایوس ہوچکی تھی۔ وجہ؟؟ جب بھی لڑکی والے استاد کو دیکھنے آتے تو بجائے ان کو انٹرویو دینے کے، استاد جی ان کا انٹر ویو لینا شروع کردیتے تھے! اب آپ خود ہی بتائیں کہ ہونے والے سسر سے کوئی افیم کے خواص پر بات کرسکتا ہے؟؟؟ جی ہاں استاد جی کرلیتے تھے اسی لئے ان کے ارمانوں کی ہر کلی پھول بننے سے پہلے ہی مرجھا جاتی تھی۔ ان کی شادی کی کہانی بھی ایک پورے مضمون کی متقاضی ہے۔ لہذا پھر کبھی۔۔۔
استاد کی سب سے بڑی خصوصیت ان کے وہ کارنامے ہیں جو ہم ان کی زبانی سنتے آئے تھے۔ حاسد لوگ ان کارناموں کو گپیں بھی کہتے تھے لیکن آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جینیس لوگوں کا ایک سجن تو سو دشمن ہوتے ہیں۔ استاد نے بھی کبھی اس ہرزہ سرائی پر دھیان نہیں دیا اور بدستور اپنے کارنامے گھڑتے ۔۔اوہ۔۔۔ معاف کیجئے سناتے رہے۔ کچھ عاقبت نااندیش تو استاد جی کو ایف ایم420 گپستان کا ڈی جے بھی کہتے تھے!
اس ”مختصر“ سی تمہید کا مقصد استاد سے آپ کا تعارف کروانا تھا۔ ان کے کارنامے گاہے بگاہے آپ کے سامنے پیش کرتا رہوں گا۔

مزید چوّلیں

بکواس کرنا آسان اور سننا بہت مشکل ہے۔۔۔
==============================================================
دولت کی نمائش، جسم کی نمائش سے بھی بڑی فحاشی ہے!
==============================================================
گنجا مرد اور موٹی عورت ، پھیکے خربوزے کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔۔
==============================================================
شادی سے پہلے اپنی مجوزہ ساس کو غور سے دیکھیں، آپ کو اپنی ہونے والی بیوی کا مستقبل نظر آجائےگا۔
==============================================================
خود پر ہنسنا سیکھیں اس سے پہلے کہ دنیا آپ پر ہنسنا شروع کردے۔۔۔
==============================================================
جو عورت اپنی ساس کی عادتیں اپنالے، اس کا شوہر ہمیشہ اس کے قابو میں رہتا ہے!!
==============================================================
عاشق کو محبوب سے ”اپائنٹمنٹ“ کم اور ”ڈس اپائنٹمنٹ“ زیادہ ملتی ہے۔۔
==============================================================
زخم بھر جاتا ہے، اس کا نشان نہیں مٹتا۔۔۔۔