قائدؒ کے ایمان افروز واقعات

جیمز واٹس ہومز مشہور برطانوی محقّق اور تاریخ دان ہیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں "اے سٹڈی آف انڈو پاک تھرو آ نیوٹرل آئی"، "ہسٹری از سائنس" اور "جناح - سینٹ آف ٹوئنٹیتھ سنچری" شامل ہیں۔ برّصغیر پاک و ہند کی تاریخ جیمز ہومز کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ پر لکھی گئی ان کی کتاب خاصے کی چیز ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے قائد بارے بہت سی ایسی باتیں پتہ چلتی ہیں جو آج تک ہم سے بوجوہ چھپائی گئی ہیں۔ 
مثلاً صفحہ نمبر چونتیس پر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے جیمز ہومز لکھتے ہیں کہ 12 فروری، 1933 کو پیر مہر علی شاہ،  لاہورمیں  نواب افتخار ممدوٹ کی رہائش گاہ  پر قائد سے ملنے آئے توقائد مرکزی دروازے پر ان کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھے۔ قائد نے پیر صاحب کے ہاتھ چومے اور انہیں بصد احترام ڈرائنگ روم  میں لے کر آئے۔ پیر صاحب کو صوفے پر بٹھایا اور خود قالین پر آلتی پالتی مار کربیٹھ گئے۔ پیر صاحب کے بصد اصرار پر بھی آپ نے ان کے برابر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ علمائے دین کا رتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کے احترام و ادب میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھا جائے۔ پیر صاحب نے خوش ہوکر آپ کے لئے دعا فرمائی کہ " اے جناح، اللہ تعالی تمہیں ایسی عزت و شرف عطا فرمائے گا کہ رہتی دنیا تک تمہارا نام زندہ و تابندہ رہے گا۔" یہ سن کر قائد کی آنکھیں بھر آئیں اور آپ نے فرمایا کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں بزرگان دین کی جوتیوں کے صدقے میں ہوں۔
قائد بارے کچھ حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیشہ پارلیمانی نظام کی بات کی اور جمہوریت کو پاکستان کے لئے واحد راستہ قرار دیا۔ مسٹر جیمز نے تاریخی حقائق سے اس بات کی تردید کی ہے۔ 2 ستمبر، 1935 کی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے صفحہ نمبر 69 پر لکھتے ہیں کہ جناح ؒاور اقبالؒ کی ملاقات آگرہ میں ہوئی۔ چوہدری رحمت علیؒ بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ اس ملاقات میں جناح ؒاور اقبالؒ اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان کا نظام خلافت ہوگا۔ جناحؒ نے واضح الفاظ میں پارلیمانی جمہوریت کو زہر قاتل اور اسلام کے خلاف  قرار دیا۔ اسی موقع پر اقبالؒ نے مشہورِ زمانہ شعر کہا ۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
چوہدری رحمت علیؒ کہتے ہیں کہ اسی اثناء میں نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ قائد نے جماعت کرائی۔ تلاوت کرتے ہوئے آپ کی ہچکی بندھ گئی  اور آپ روتے روتے نڈھال ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکے تقریباً تیس منٹ تک آپ اوراد و وظائف میں مشغول رہے۔
وطنِ عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو نعوذ باللہ قائد کو سیکولر اور لبرل خیالات کا مالک کہتے ہیں۔ مذکورہ واقعہ پڑھنے کے بعد ان کو اپنے خیالات پر نظرثانی کرنی چاہیئے اور قائد ؒ پر بہتان باندھنے سے گریز کرنا چاہیئے۔
قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد قائدؒ نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیے۔ مسلم لیگ کے لئے چندہ اکٹھا کیا اور انہیں پاکستان کے جھنڈے تلے اکٹھا کرنے کے لئے دن رات ایک کردئیے۔  قائدؒ پبلک منی کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ اسی کتاب کے صفحہ 92 پر درج ہے کہ شملہ کے دورے میں آپ کی کار کے ٹائر میں ہوا کم ہوگئی۔ ڈرائیور نے پنکچر والی دکان سے ہوا بھروائی اور سیکرٹری سے پیسے لے کر دکان والے کو دے دئیے۔ آپ نے ریسٹ ہاؤس پہنچتے ہی ڈرائیور کو ملازمت سے برطرف کردیا کہ اس نے سیکرٹری سے پارٹی فنڈ کا پیسہ لے کر اس سے ذاتی کار میں ہوا کیوں بھروائی۔ آپ نے سیکرٹری کو بھی سخت وارننگ دی اور اپنی ذاتی جیب سے ہوا بھروائی کے دو آنے پارٹی فنڈ میں جمع کرا دئیے۔
پاکستان بننے کے بعد کابینہ کا پہلا اجلاس کراچی میں ہوا۔ اجلاس کے دوران نوابزادہ لیاقت علی خان نے ملازم سے پانی کا گلاس مانگا تو قائدؒ نے اپنی مخصوص دبنگ آواز میں قائد ملت کو جھاڑ پلادی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ریاست کا ملازم ہے، ہمارا ذاتی ملازم نہیں ہے۔ آپ نے پانی، چائے، کافی جو بھی پینا ہو گھر سے پی کے آیا کریں۔ یہ کام کرنے کی جگہ ہے، کوئی ریسٹورنٹ نہیں ہے۔  اس کے بعد قائدؒ کی زندگی میں کابینہ کے جتنے بھی اجلاس ہوئے، کابینہ کے تمام ارکان اپنے لئے گھر سے پانی، چائے، کافی وغیرہ تھرمس میں ڈال کے لایا کرتے تھے اور وقفے کے دوران پی لیا کرتے تھے۔
کرپشن اور سرکاری وسائل کے ذاتی استعمال کے آپ سخت خلاف تھے۔ جیمز واٹس ہومز نے ایک ایسا واقعہ لکھا ہے جو ناقابل یقین ہے لیکن ایک غیرجانبدار فرد ہوتے ہوئے ان کو غلط بیانی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ایک اجلاس کے دوران ایک بیوروکریٹ نے آپ سے بال پوائنٹ مانگا۔ آپ نے میز کی دراز سے ریوالور نکال کر اسے شُوٹ کردیا اور یہ الفاظ کہے، "آج تم بال پوائنٹ مانگ رہے ہو، کل کو تم اس ملک کا خزانہ لوٹ کے کھا جاؤ گے۔ میں یہ ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔" اس کے بعد آپ نے اس کی جیب سے سرکاری کارتوس کے 3 روپے 25 پیسے بھی نکالے اور خزانے میں جمع کرادئیے۔ اس کی لاش کو سرکاری گاڑی کی ڈگی میں بھیجنے کی بجائے سالم ٹانگہ منگوایا گیا اور اس کا خرچہ بھی متوفّی کے لواحقین سے وصول کیا گیا۔
یہ بالکل واضح ہے کہ قائدؒ اس ملک کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے نہ کہ پارلیمانی جمہوریت  کے کفریہ نظام پر۔آپ نہ تو سیکولر تھے اور نہ ہی لبرل بلکہ بزرگان دین سے حددرجہ عقیدت رکھتے تھے۔  آپ ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں کرپشن نہ ہو اور فوری انصاف ملے اور کرپشن کرنے کی نیّت کرنے والوں کو بھی موقع پر ہی جہنم رسید کیا جائے۔  آپ کے بعد اس ملک پر قابض مافیا نے آپ کی تعلیمات کو فراموش کردیا اور ہر ایسی چیز پر پابندی لگادی جس سے آپ کے اصل خیالات کا اظہار ممکن ہو۔تمام پاکستانیوں کو جیمز واٹس ہومز کی کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے بلکہ اس کتاب کا ترجمہ کرکے اسے نصاب تعلیم میں شامل کرنا چاہئے۔