مینجر

نام تو اس کا ندیم تھا لیکن   اس نام سے  پکارنے والے شاید اس کے گھرو الے ہی تھے، باقی سب کے لیے وہ  "مینجر" تھا۔ اسے "مے نے جر" کی بجائے "مین جر" پڑھا جائے کہ پنجابیوں کا انگریزی کی مدر سسٹر کرنے میں اپنا ایک الگ سکول آف تھاٹ ہے۔  اس عرفیت کی کہانی بھی  دلچسپ ہے۔ اگر آپ سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو بیان کی جائے؟  نہ بھی رکھتے ہوں تو بیان کر ہی دی جائے گی ۔
ہماری گلی شیطان کی آنت سے بس ایک آدھ فٹ ہی کم طویل تھی۔ طارق روذ والی سائیڈ سے گلی میں داخل ہوں تو ہمارا گھربائیں طرف سے تیسرا تھا۔ گلی کا دوسرا سرا گلستان روڈ جو کہ اب بمبینو روڈ کہلاتا ہے ، وہاں تک تھا۔ گلی کے عین درمیان میں ایک چوراہا بھی تھا ، جہاں کھڑے ہوکر بائیں طرف دیکھیں تو مرحوم طارق سینما کا گیٹ نظر آیا کرتا تھا۔ محلے کی ساری گلیوں کو قطع کرنے والی یہ افقی گلی الطاف انکل کی تقاریر سے بھی طویل تھی۔ سورج ڈھلنے کے بعد ہم بک بک کرنے کی ٹھرک پوری کرنے کے لیے ظہیر لائبریری تشریف لے جایا کرتے تھے جو گلستان روڈ پر واقع تھی۔ اپنے آپ میں مگن سر جھکا کے چلنے کی عادت کی وجہ سے ہم پوری گلی میں سخت قسم کے بیبے لڑکے سمجھے جاتے تھے اور بڑی بوڑھیاں ہماری مثالیں دیا کرتی تھی کہ ۔۔ اوہ منڈا وی تے ہے ناں ، کدے اکھ اُچّی کرکے نئیں ویکھیا۔۔۔  ہمیں ہمیشہ اپنے میسنے پن پر فخر رہا ہے!۔
انہی دنوں ہم نے نوٹ کیا کہ چوراہے پر جو جتھہ روزانہ محفل جماتا تھا اس میں ایک نیا چہرہ بھی ہے۔ ہم چونکہ اتنے سوشل نہیں تھے اور نہ ہیں، تو سوائے اس جتھے کی طرف ایک مسکراہٹ اچھالنے کے ہم نے اس بارے کوئی تردّد مناسب نہیں جانا۔
یہ تو اس سے اگلی جمعرات جب ہم جمعے والے دن کے میچ کی پلاننگ کررہے تھے تو اس سے تعارف ہوا۔ پستہ قامت، کرس گیل جیسا رنگ، انیل کپور جیسا  ہئیر سٹائل اور مونچھیں، فواد عالم جیسی صحت اور شدید کم گو اور شرمیلا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ کل کا میچ کھیلو گے تو جواب ملا کہ مجھے تو کرکٹ کھیلنی نہیں آتی ۔ تس پر ہم نے دل میں اس پر تین حرف، دس دفعہ بھیجے ۔ اور جل کر کہا کہ پھر تم ہماری ٹیم کے مینیجر بن جاو۔ بس وہ اس بات کو سیریس لے گیا اور فورا دندیاں نکال کے مُنڈی ہلادی ۔
اگلے دن میچ کے دوران اس کی مینجمنٹ کے جوہر کھلے۔ پہلے تو اس نے ہمیں اس بات پر قائل کیا کہ "سکّا " میچ  کھیل کے کیا فائدہ۔ ناشتہ لگا کے کھیلتے ہیں۔ ہم نے فورا کہا کہ یہ تو جُوا ہوجائے گا ۔ اس نے تھوڑی دیر بعد پھر کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ٹیم میچ ہارے وہ دوسری ٹیم کو "انعام" کےطور پر ایک بیٹ دے۔ یہ بات ہمارے دل کو لگی اور ہم نے دوسری ٹیم کو اس پر راضی کرلیا۔
یہ ہماری زندگی کا پہلا جُوا تھا۔
اس کے بعد ہمارا "اینٹ" کھُل گیا اور ہم نے بہت سے ناشتے، چاٹیں اور سموسے وغیرہ جیتے۔ اور ان سب کا عذاب دارین  برابر مینجر کو پہنچتا رہا۔ ایک ہی گلی میں رہنے اور ٹیم کی مینجری کی وجہ سے ہماری اس کے ساتھ کافی بے تکلفی ہوگئی اور ہم اسے تقریبا اپنا دوست گرداننے لگے۔ نہلے پر دہلا کہ وہ سات بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ لہذا سوائے روڈ ماسٹری کرنے کے اسے کوئی کام نہیں تھا۔ ہم نے اس سے کئی دفعہ پوچھا کہ پڑھتے کیوں نہیں تو اس نے ہمیشہ ہنس کر ٹال دیا۔ تاش کھیلنا  ، مڈل کلاسیوں میں سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ہم ہمیشہ ایسے خفیہ ٹھکانے تلاش کرتے رہتے تھے جہاں ہم تسلی سے بیٹھ کر تین چار واریاں ، رنگ کی لگا سکیں۔ یہ ٹھکانہ ہمیں مینجر نے مہیا کیا۔ اسکے گھر کی بیٹھک ہمارا وہ خفیہ ٹھکانہ ثابت ہوئی جہاں ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں سارا سارا دن تاش کھیلتے  اور شام کو گھر جا کے کہتے کہ آج تو بہت پڑھائی کی۔۔ تھک گیا ہوں۔
مصروفیات بڑھتی گئیں اور دوستیوں کا دائرہ بھی بدلتا گیا۔ مینجر سے اب کبھی کبھار ہی ملاقات رہتی ۔ اس کے بارے البتہ کہانیاں کافی سننے کو ملنے لگیں۔ کبھی رضا آباد سے مار کھاکے آنکھ سُجائی ہوتی تھی اور کبھی سینما میں جھگڑ کے کپڑے "وغیرہ " پھڑوائے ہوتے تھے۔  ایک دو دفعہ حوالات کی ہوا بھی کھائی۔ اس سے ٹاکرا ہونے پر ہم نے جب بھی پوچھا کہ ۔۔ مینجر، کیہ کرریاں اج کل۔۔ تو اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ۔۔ کُج وی نئیں۔۔۔   مینجر، کی کمپنی ، ہولے ہولے کمپنی فلم والی ہوتی گئی۔ تھانے کے بستہ ب میں اس کا نام درج ہوگیا اور عرفیت مینجر لکھی گئی۔ انہی دنوں اس کا سُودی سے جھگڑا ہوا۔ سُودی سے مار کھا کے بھاگنے کے بعد وہ  چھری لے آیا اور بے خبری میں سُودی پر وار کیا۔ راوی بتاتے ہیں کہ چھری کے دو وار برداشت کرنے کے باوجود سُودی نے اسے بھگا دیا تھا۔ خود البتہ دو مہینے ہسپتال رہا ، خون کی سات بوتلیں لگیں اور پیٹ پر بیس ٹانکے۔
مینجر سے آخری ملاقات سیشن کورٹ کے باہر برآمدے میں ہوئی جہاں وہ تقریبا سات دوسرے بندوں کے ساتھ ہتھکڑیوں اور اور بیڑیوں میں جکڑا کھڑا اپنے کیس کی آواز پڑنے کا انتظار کررہا تھا۔ ہم بھی اس زمانے میں عدالتوں میں خوار ہوتے پھررہے تھے کچھ اور وجوہات کی بناء پر ۔ اس نے مجھے دیکھا اور گالی دے کے بولا کہ ۔۔ توں میرے خلاف گواہی دین آیاں ایں ناں۔۔۔ باہر نکل کے ویخ لاں گا تینوں۔۔  ہم نے اس کی بات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا کہ ہم اس وقت اپنے سِیڑی سیاپے میں پھنسےہوئے تھے۔ انہی دنوں ہم نے  ہجرت کی اور وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ نہ ہی پتہ چلا کہ کہاں ہے اور کیا کررہا ہے۔
سوچنے کی علّت بڑی خطرناک ہے۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ایک بے ضرر ، کم گو اور دبّو سا بندہ کیسے وہ سب بن گیا جس کی توقع کم از کم ہمیں اس سے نہیں تھی۔ کیا  یہ سب کچھ کسی کی فطرت میں رکھ دیا جاتا ہے؟ یا حالات اس کو اس طرف لےجاتے ہیں؟    یہ گورکھ دھندہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ ۔۔ خواجہ میر درد کا مصرعہ ہے۔۔۔ ناحق ہم  مجبوروں پہ یہ تہمت ہے مختاری کی۔۔۔

کٹھ پُتلیاں ہیں ہم؟