جیدے کا قصور

آپ شاہ زیب خانزادے کو دیکھ لیں۔ یہ شارٹ ہیں۔ یہ تھرڈ گریڈ اینکر ہیں۔ یہ کالمسٹ بھی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کرسی پر بیٹھیں تو ا ن کے پیر زمین پر نہیں لگتے۔ ان کی ٹائیاں چیپ اور سوٹ لنڈے کے ہوتے ہیں۔ یہ  خود کو بہت بولڈ شو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پروگرام ختم ہونے پر شرکاء کے پیروں کو ہاتھ لگا کے معافی مانگتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ سر، میرے بریڈ اینڈ بٹر کا مسئلہ ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں۔ کوئی آفینسو کوئسچن ہوگیا ہو تو فار گاڈ سیک ، پارڈ ن کردیں۔  یہ ان کا کیریکٹر ہے۔ یہ ان کی ایتھکس ہیں۔
آپ مجھے دیکھ لیں۔ میں چھ فٹ سے زائد ٹال ہوں۔ میں ایک ہینڈسم اور گڈ لکنگ سٹڈ ہوں۔  آپ یہ دیکھیں ، میں پاکستان کا سب سے فیمس اور سیل ایبل کالمسٹ ہوں۔ میرے کالمز میں ایتھکس، ریلیجن ، صوفی ازم، میٹا فزکس، ماڈرن سائنس،  ریسرچ، وزڈم، انٹرٹینمٹ، سارکیزم، اموشنز، لٹریچر، شو بز ، ہر چیز ہوتی ہے۔ آپ ٹاک شوز کو دیکھ لیں۔ آپ ان کے اینکرز کا موازنہ کرلیں۔ آپ ان کے پروگرامز کی پاپولیریٹی کا گیلپ پول کرالیں۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ۔ آپ کے ہوش اڑجائیں گے۔ آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے کی بجائے دھمال ڈالنے لگیں گے۔ آپ کا یہ جینئس کالمسٹ ہی پاکستان کے سب سے مقبول ٹاک شو کا اینکر ہے۔ میری سنائی ہوئی انسپریشنل سٹوریز  پر ہالی ووڈ میں فلمیں بن رہی ہیں۔ کروڑوں لوگ میرے دئیے ہوئے لیسنز پر عمل کرکے اپنی لائف چینج کرچکے ہیں۔ ان کی زندگیاں پیشنس، ٹالرینس اور گڈ بی ہیوئیر کا نمونہ بن چکی ہیں۔ یہ سب انہوں نے کہاں سے سیکھا؟ آپ غور کریں۔ آپ جان جائیں گے ۔ آپ کو لگ پتہ جائے گا۔ یہ سب میرے کالمز اور شوز اور میری کرزمیٹک پرسنیلٹی کی وجہ سے ہوا۔ میں ایک جینئس ہوں۔ میں نے ایک پوری قوم کی اخلاقی حالت سدھاری ۔ آپ چاہیں تو وکی پیڈیا پر چلےجائیں۔ آپ وہاں میرے نام کی سرچ کرلیں۔ آپ دیکھیں گے، گوروں نے بھی میری سروسز کو کیسے اکنالج کیا ہے۔  میں ایک لیونگ لیجنڈ ہوں۔
 میں اگر پرنس چارلس ہوں تو شاہ زیب خانزادہ ایک ٹیکسی ڈرائیور۔
اب آپ دیکھیں۔ آپ فیصلہ کریں۔ ایک ناٹا میرے سٹوڈیو پر قبضہ کرلے۔ وہ مجھ سے بحث کرے۔ وہ مجھ سے تلخ کلامی کرے۔ وہ مجھے کہے کہ یہ تیرے باپ کا سٹوڈیو نہیں ہے۔ یہ سب باتیں میں گھر جا کے امی کو بھی بتاسکتا تھا۔ میں نے یہ نہیں کیا۔ میں نے برداشت کا مظاہرہ کیا۔ میں نے اپنے غصہ پر قابو پالیا۔ میں نے کرسی اٹھائی اور اس کی طرف اچھالی کہ چلو کیچ کیچ کھیلتے ہیں۔ وہ رمیز راجہ نکلا۔ اس نے کیچ ڈراپ کردیا۔ اس میں میرا کیا قصور ہے؟۔ کرسی اس کے بازو سے لگی اور نیچے گر گئی۔ آپ   اس کا نان پروفیشنل ایٹی ٹیوڈ دیکھیں۔ جو کرسی کیچ نہیں کرسکتا وہ سکوپ کیسے کیچ کرے گا؟ اتنی کوسٹلی کرسی نیچے گرنے سے ٹوٹ گئی۔ یہ کس کا نقصان ہے؟ یہ اس ملک کے غریب عوام کا نقصان ہے۔ یہ ان کے خون پسینے کی کمائی اجاڑنے والی بات ہے۔ آپ میری رحمدلی ملاحظہ کریں۔ میں پھر بھی اپنی تھرٹی تھری ہنڈریڈ تھاوزنڈ والی کار کی طرف بھاگا کہ وہاں سے فرسٹ ایڈ کٹ لاسکوں۔ میں سنی پلاسٹ اس کے بازو پر لگاسکوں۔ وہ ڈرگیا۔ اس نے شور مچا دیا۔ اس نے کہا۔ ۔۔جیدا بندوق لین گیا جے۔۔۔ آپ غور کریں۔ میں نے آج تک کبھی کڑلی نہیں ماری۔ میں نے چوہے سے کبھی متھا نہیں لگایا۔ اپنی برات والے دن سیبے والے بمب چلنے سے تین دفعہ میرے کپڑے خراب ہوئے۔ میں کیسے گن چلا سکتا ہوں؟  شب برات پر انار چلتا دیکھ کر میں بے ہوش ہوجاتا تھا۔ ایک دفعہ میری بیوی نے چپکے سے آکے مجھے کہا۔۔ بھاووو۔۔۔ اسی دن مجھے شوگر ہوگئی۔

آپ  سمجھ چکے ہوں گے۔ آپ اچھی طرح جان چکے ہوں گے۔ شاہ زیب خانزادے سے میں نے کوئی زیادتی نہیں کی۔ میں نے اسے معاف کردیا۔ میں نے صبر کیا۔ میں نے برداشت سے کام لیا۔ میں نے تو اس کے ساتھ اسی وقت کھیلنا بھی شروع کردیا ۔ اب اگر کسی کو کیچ کرنا نہ آتا ہو تو یہ بھی جیدے کا قصور  ہے؟