پانامہ کا ہنگامہ - لاسٹ لاف

پانامہ کا معاملہ اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہے۔ میاں نواز شریف اپنی سیاسی  بقاء کے لیے آخری حد تک جا چکے ہیں۔ انکے پاس جو تُرپ کا پتّہ تھا وہ کھیلا جا چکا ہے۔ اب صرف اس کے نتائج و عواقب کا انتظار ہے۔ اس معاملے کی تفصیل سے پہلے ایک کہانی سن لیجیے۔
سترہویں صدی عیسوی کے اختتام کا ذکر ہے۔ شمالی ہندوستان کے ایک غیرمعروف قصبے میں ایک پختون خاندان آباد تھا۔ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ بچوں میں سب سے بڑے لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ شہر جا ئے گا اور  اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی خوشحال زندگی کے لیے محنت مزدوری کرے گا۔ لڑکے کی عمر بمشکل پندرہ سولہ سال تھی۔ والدین نے بوجھل دل کے ساتھ بیٹے کو رخصت کیا اور پھر اپنی زندگی میں اس کی شکل دوبارہ نہ دیکھ سکے۔  دن مہینے سال گزرتے گئے اور اس لڑکے کی کوئی خبر نہ آئی۔ گھر والوں نے صبر کرلیا کہ شاید کسی حادثے کا شکار ہوگیا ہوگا۔ جیسے تیسے گھر کا نظام چلتا رہا۔ زمانہ بیت گیا۔ لڑکے کے والدین وفات پاگئے۔  بہن بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ سب اس لڑکے کو بھول بھال چکے تھے کہ ایک دن اچانک وہی لڑکا ایک ادھیڑ عمر شخص بن کر واپس آگیا!۔
کھچڑی بال، کندھوں تک دراز زلفیں، ترشی ہوئی خوبصورت داڑھی ، چہرے پر ایسا رعب کہ  دوسری نظر ڈالنی مشکل۔ بہن بھائیوں نے مشکل سے پہچانا کہ جب گھر چھوڑا تو سب بہت چھوٹے تھے۔ انہوں نے اسی قصبے میں جگہ لے کر ایک خانقاہ نما حویلی تعمیر کرانی شروع کی۔  حویلی تعمیر ہوچکی تو روزانہ وہاں لنگر پکتا اور سب کے لیے دعوتِ عام ہوتی۔ آہستہ آہستہ قرب و جوار میں ان کی شہرت پھیلتی گئی۔ یہ کوئی روحانی بزرگ یا پیر نہیں تھے لیکن پھر بھی دور دور سے لوگ ان سے ملنے آتے اور اپنے مسائل ان کے سامنے رکھتے۔ وہ دعا اور دوا ، دونوں سے ان کا حل نکالنے کی کوشش کرتے۔
بظاہر کوئی ذریعہ آمدن نہ ہوتے ہوئے بھی  حویلی کی تعمیر، لنگر  اور ضرورت مندوں کی مدد ، بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث تھا۔  ایک دن انہوں نے سب گھروالوں کو اکٹھا کیا اور ان سے رازداری کا حلف لے کر انہیں اپنے غیاب کی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ گھر سے نکلے تو بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ چار سال ایک بیگار کیمپ میں گزارے۔ موقع پا کر وہاں سے فرار ہوئے اور ہمالیہ کی ترائی میں جا پہنچے۔  بردہ فروشوں کے خوف سے وہ کسی آبادی کے قریب نہیں جاتے تھے اور جنگل میں ہی بسر کرتے تھے۔ ایک رات  سوتے ہوئے ان کو زہریلے سانپ نے ڈس لیا۔   ان کی چیخ و پکار اس جنگل میں سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اسی حالت میں بے ہوش ہوگئے۔ آنکھ کھلی تو خود کو ایک غار میں پایا۔  جہاں ایک دھان پان سے بزرگ بھی موجود تھے۔ اگلے دس سال انہوں نے اسی بزرگ کے ساتھ گزارے اور ان کی خدمت کرتے رہے۔ بوقت وصال ان بزرگ نے ان کو ایک ایسا راز دیا جس کے لیے زمانہءقدیم سے لوگ اپنی زندگیاں وقف کرتے آرہے ہیں۔
بزرگ نے انہیں سونا  بنانے کا نسخہ بتایا۔
اس کے ساتھ کچھ شرائط بھی عائد تھیں۔   اس سے اپنی ذات پر صرف بقدرِ ضرورت خرچ کیا جاسکتا تھا۔ اور یہ نسخہ آخری وقت میں صرف بڑے بیٹے کو منتقل کیا جاسکتا تھا اس سے پہلے ایسا کرنے کی کوشش کی جاتی یا کسی اور بتانے کی کوشش کی جاتی تو سونا بننا بند ہوجاتا۔  نسل در نسل یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ یہ خاندان ہجرت کرکے موجودہ پاکستان میں آپہنچا۔ نسل در نسل اس راز کی حفاظت ہوتی رہی اور ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کی جاتی رہی۔ اپنی ضروریات پر کسی نے کچھ خرچ نہیں کیا اور محنت مزدوری کرکے خاندان کا پیٹ پالتے رہے۔
یہ اسّی کی دہائی کی ذکر ہے۔ جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگ چکا تھا۔ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد تھیں۔ افغان جہاد شروع ہوچکا تھا۔ ایٹمی پروگرام فیصلہ کُن مرحلے پر پہنچ چکا تھا۔ بھٹو کی موت کے بعد عربوں نے ایٹمی پروگرام کی فنڈنگ سے ہاتھ اٹھا لیا ۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ شاید یہ پروگرام ، جو پاکستان کی سلامتی کی ضمانت تھا، بند کرنا پڑتا۔ وزراتِ خزانہ کے ایک اعلی افسر ،جو  ایک پولیس آفیسر کے بچپن کے دوست تھے، انہوں نے اس بات کا ذکر ان سے کیا اور فکرمندی کا اظہار کیا کہ حالات بہت نازک ہیں۔ اگر فنڈز کا بندوبست نہ ہوا تو شاید ہمیں ایٹمی پروگرام روکنا پڑے۔ پولیس افسر  یہ بات سن کر چونکے اور اپنے دوست سے کہا کہ کیا وہ ان کی ملاقات کسی ذمہ دار حکومتی شخصیت سے کروا سکتے ہیں۔ بہت اصرار پر بھی انہوں نے اپنے دوست کو کچھ بھی بتانے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اصل بات کسی ذمہ دار حکومتی شخصیت کو ہی بتائیں گے۔
یہ پنڈی کے حساس علاقے میں موجود ایک عمار ت کا کانفرنس روم تھا۔ کمرے میں جنرل ضیاء، غلام اسحاق خان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جنرل غلام جیلانی موجود تھے۔ پولیس آفیسر نے بات شروع کی۔ انہوں نے اپنےوزارتِ خزانہ میں موجود اپنے دوست کے ساتھ ہوئی  بات چیت کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ فنڈز کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ  یہ بات سن کر بالکل محظوظ نہیں ہوئے۔ انہوں نے سخت لہجے میں پوچھا، "آپ کے پاس سونے بنانے کا نسخہ ہے؟" پولیس آفیسر نے جواب دیا، " جی ہاں"۔  یہ جواب سن کر کانفرنس روم میں ایک دم سنّاٹا چھا گیا۔ پولیس آفیسر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کو موقع دیا جائے تو وہ اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء نے ڈاکٹر قدیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ساتھ لے جائیں   اور دیکھیں کہ یہ کیا کرتے ہیں۔
قصّہ مختصر، یہ پولیس آفیسر اسی پختون خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کے بزرگ کو ہمالیہ کی ترائی میں سونا بنانے کا نسخہ ملا تھا۔ انہوں نے کہوٹہ لیبارٹریز میں سب سائنسدانوں کے سامنے لوہے سے سونا  بنا کے دکھایا۔ ہر قسم کے ٹیسٹ کرنے کے بعد جب سب کو یقین ہوگیا کہ یہ خالص سونا ہے تو سب حیرت سے انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہاں سے ایٹمی پروگرام کا آخری مرحلہ شروع ہوا۔ سونا بنانے کے لیے لوہے کی کثیر مقدار درکار  ہوتی تھی۔  اگر سرکاری طور پر خام لوہے کی کثیر مقدار در آمد کی جاتی تو اس سے غیرملکی ایجنسیوں کے کان کھڑے ہوسکتے تھے جو پہلے ہی پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ اس موقع پر جنرل جیلانی نے لاہور کے شریف خاندان سے سلسلہء جنبانی شروع کیا۔ ان کو اس شرط پر اتفاق فونڈری واپس کی گئی کہ وہ اپنے نام پر سکریپ در آمد کریں گے اور حکومت کے حوالے کردیں گے۔ اس خدمت کے بدلے میاں شریف کے بڑے صاحبزادے کو پنجاب میں نمائشی قسم کا وزیر خزانہ بھی مقرر کیا گیا۔  سونا بنانے کا یہ کام تقریبا دو سال جاری رہا۔ اور  انیس سو تراسی کے لگ بھگ ایٹمی پروگرام  پایہء تکمیل کو پہنچا۔
یہ پولیس آفیسر، جہانگیر ترین کے والد تھے۔
جنرل ضیاء کی شہادت کے بعد بے نظیر حکومت میں آئیں۔ اس کے بعد دس سال تک جمہوری حکومتوں کی میوزیکل چئیرز جاری رہی۔ ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے بعد پاکستان نے میزائل پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ غلام اسحاق خان نے جہانگیر ترین کو بلایا اور ان سے درخواست کی کہ میزائل پروگرام کے لیے فنڈز چاہییں جبکہ سیاسی حکومتوں کے لوٹ کھسوٹ سے ملک تقریبا دیوالیہ ہونے والا ہے۔ لہذا آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ جہانگیر ترین کے والد کے انتقال کے بعد سونا بنانے کا نسخہ ان  تک منتقل ہوگیا  تھا اور انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح  اسے ملک کی خدمت کے لیے استعمال کیا۔نوّے کا عشرہ جہاں سیاسی افراتفری اور حکومتی لوٹ کھسوٹ کا زمانہ گنا جاتا ہے وہیں اس عشرے میں پاکستان کا میزائل پروگرام بھی پروان چڑھا۔ اس کا سہرا سائنسدانوں کے بعد جہانگیر ترین کے سر ہے۔
غلام اسحاق خان نے بصد اصرار جہانگیر ترین کو بینک سے قرضہ لے کر دیا اور کہا کہ آپ ملازمت چھوڑ دیں اور کاروبار کریں تاکہ یکسو ہو کر ملک کی خدمت ہوسکے۔  دو ہی سالوں میں بینک کا سارا قرضہ لوٹا دیا گیا اور یہ سب کاروبار کی کامیابی سے ہوا۔ حیرت کی بات یہ کہ سونا بنانے کی صلاحیت کے باوجود، اس فن سے اپنی ذات پر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ یہ سب ملک و قوم اور اسلام کی خدمت کے لیے استعمال ہوا۔  اسی دور میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں سمیت پورے حکمران طبقے میں ایک غیر تحریری معاہدہ طے پایا کہ چاہے کوئی بھی اقتدار میں ہو اور کیسے بھی حالات ہوں، جہانگیر ترین اور ان کے خاندان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا ۔ ان کو غیرسرکاری طور پر پاکستان کی فرسٹ فیملی کا درجہ دے دیا گیا۔  یہ بھی طے ہو ا کہ جیسے بھی سیاسی حالات ہوں، سیاسی مخالفت کسی بھی درجے تک پہنچی ہو، جہانگیر ترین پر کوئی بھی وار نہیں کرے گا  کیونکہ یہ خاندان پاکستان کا حقیقی محسن ہے۔
جنرل مشرف آئے ، اس کے بعد پی پی کی حکومت آئی۔ اس سارے عرصے میں سیاسی طور پر بہت خاک اڑائی گئی  لیکن کسی بھی طرف سے ترین کو ہدف نہیں بنایا گیا۔ وہ ن لیگ میں بھی رہے۔ جنرل مشرف کے ساتھ بھی رہے۔ ق لیگ میں بھی رہے لیکن انکا احترام ہر حکومت اور پارٹی نے ملحوظ رکھا۔  دو ہزار گیارہ میں جب پی ٹی آئی کا عروج شروع ہوا تو جہانگیر ترین  پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ لوگ آج تک سوال اٹھاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس اتنے بڑے جلسے کرنے،  میڈیا پر اتنی کوریج کے لیے فنڈز کہاں سے آتے ہیں۔ اس کا جواب جہانگیر ترین اور ان کا سونا بنانے کا فن ہے۔ پاکستانی سیاست سے گند صاف کرنے کے لیے انہوں نے اپنے اس فن کو دوبارہ استعمال کیا۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی کہانی پہلے بیان ہوچکی ہے کہ کیسے اس وقت کی فوجی قیادت نے پی ٹی آئی کی کمر میں خنجر گھونپا تھا۔ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو آج پاکستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ دھرنے کے دوران اور اس کے بعد جہانگیر ترین کا ہر وقت عمران خان کے ساتھ ہونا میاں نواز شریف کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مشکل یہ بھی تھی کہ ترین کے خلاف وہ کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کرسکتے تھے۔
پانامہ لیکس لیکن اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ میاں نواز شریف کو علم ہوچکا تھا کہ ان کے خلاف منصوبہ بنانے والوں میں شہباز شریف اور چوہدری نثار بھی شامل ہیں۔ بیماری کا بہانہ بنا کر لندن روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے دو کام کیے۔ حمزہ شہباز کو اغوا کرواکے افغانستان بھجوادیا جہانگیر ترین کے خلاف جعلی بنک دستاویزات تیار کروائیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بنک سے قرضہ معاف کروایا۔ حمزہ شہباز کو اغوا کرنے کی کہانی دلچسپ اور عبرت آموز ہے۔ کسی دور میں حمزہ کو ن لیگ میں نواز شریف کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔ سیاسی سوجھ بوجھ اور متحرک شخصیت کی وجہ سے وہ کارکنان میں ہر دلعزیز تھے۔  لیکن اقتدار کا کھیل ایسا ظالم ہے کہ خون کے رشتے بھی اس کے سامنے ماند پڑجاتے ہیں۔ شہباز شریف نے اقتدار کی خاطر بھائی کے خلاف منصوبے میں شرکت کی اور بھائی نے اقتدار کے لیے سگے بھتیجے کو اغوا کراکے بھائی کو پیغام دیا کہ  اقتدار کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
لندن میں قیام کے دوران انہوں نے جہانگیر ترین کے بچوں کے نام پر جائیداد کا سراغ لگانے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ جہانگیر ترین اگر چاہتے تو سارا لندن خرید سکتے تھے ان کے لیے دولت کوئی مسئلہ نہیں۔ ریاست پاکستان ان کو دنیا میں کسی بھی جگہ ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے پرہروقت تیار رہتی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے  جائز کاروبار سے کمائی ہوئی دولت سے اپنے بچوں کے لیے جائیداد خریدی۔ جس خاندان نے اس ملک کے لیے ایسی خدمات سرانجام دیں کہ شاید تاریخ میں اس کی مثال نہ مل سکے اس کو ایسے رسوا کرنا پرلے درجے کی بددیانتی اور بے ایمانی گنی جائے گی۔
پاکستانی فیصلہ سازوں کا پیمانہءصبر لبریز ہوچکا ہے۔ جہانگیر ترین کے خلاف حالیہ کردار کشی کی مہم  ناقابل برداشت ہے۔ میاں نواز شریف نے اس غیر تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس کی پاسداری آج تک پاکستان کے ہر سیاستدان، جنرل اور مقتدر شخص نے کی ۔ میاں صاحب نے محسن کشی کی۔ آج وہ اگر اس مقام پر ہیں تو  جہانگیر ترین کی وجہ سے ہیں نہ ان کو اتفاق فاؤنڈری واپس ملتی اور نہ وہ پنجاب کے نمائشی وزیر خزانہ بنتے۔ اپنی سیاست کے لیے انہوں نے خون کے رشتوں سے وفا نہیں کی تو ملک سے کیا وفا کریں گے۔
میاں صاحب، آپ کے دن گِنے جا چکے ہیں۔