پِینَو بنام شَوکا

میری جان شوکے!

آداب محبت و سلام عشق وغیرہ وغیرہ کے بعد عرض ہے کہ میں بالکل خیریت سے ہوں اور تمہاری خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب چاہتی ہوں۔ شاعر کہتا ہے کہ
روشنی چاند سے ہوتی ہے ستاروں سے نہیں
محبت شوکے سے ہوتی ہے ساروں سے نہیں
پچھلے خط میں یہ شعر تم نے کس سے پوچھ کر لکھا تھا کہ
کاؤکاو سخت جانی ہائے تنہائی، نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
بھلا کوئی اپنے مشوق کو ایسے شیروں والے شعر بھی لکھتا ہوگا جو صبح سے شام تک جواء کھیلتے ہوں! ہااااا ہائے۔۔۔۔

اتنے دن ہوگئے ہیں اور تم سے ٹاکرا ہی نہیں ہوا۔ میں نِگَّو کے گھر بھی گئی تھی کہ شاید تمہارے درشن ہوجائیں۔ پر تم تو اپنے ٹُٹ پَینے یاروں کے ساتھ نہر پر نہانے گئے ہوئے تھے۔ صئی صئی بتانا صرف نہانے ہی گئے تھے ناں؟

کل مولیوں والے پرونٹھے پکائے تھے، تمہیں بہت پسند ہیں ناں۔ تمہارے لئے لے کر ہی میں نگو کے گھر گئی تھی کہ اس کے چھوٹے بھائی کے ہاتھ تمہیں بھجوادوں،مگر تم ملے ہی نہیں تو تمہارے حصے کے اٹھ پرونٹھے بھی میں نے آپے ہی کھالئے۔ اس کے بعد تمہاری یاد نے اتنا ستایا کہ ساری رات نیند نہیں آئی! ہائے ظالما تیری یاد بھی تیرے ورگی ظالم ہے۔۔۔

ہن ویکھو ناں، خط پہنچانے کا کرایہ ٹُٹَّے چھتر کی طرح بڑھتا ہی جارہا ہے۔ چاچے شیدے کا چھوٹا منڈا، جو اب اتنا چھوٹا بھی نہیں رہا، کل خط پہنچانے کے دس روپے اور گریوں والے گڑ کی دو پَیسِیاں مانگ رہا تھا۔ میں نے بمشکل اس کو پرانے ریٹ پر راضی کیا۔ اب کوئی اور ڈاکیا ڈھونڈنا پڑے گا۔ ویسے بھی اب وہ شہدا مجھے ایسے دیکھنے لگا ہے جیسے تم دیکھتے ہو! چوہڑا جیا نہ ہووے تے۔۔

جلدی سے جلدی اس کا جواب لکھنا اور اس دفعہ کوئی اچھے سے عشق مشوقی والے شعر بھی لکھنا، وہی جوئے اور شیر والے جیسے نہ ہوں، ورنہ فیر میں تم سے نراض ہوجاؤں گی اور تجھے میری قسم ہے کل ہماری گلی میں سے ضرور گزرنا۔ میں اپنی باری میں سے تجھے دیکھوں گی۔ اگر میری "فرمائش" یاد ہوتو وہ بھی باری میں سے مجھے پکڑا دینا۔ دوبجے دوپہر کے بعد آنا۔ میں تمہارا انتظار کروں گی۔ اللہ بیلی۔۔

ڈبے پہ ڈبہ، ڈبہ ہے گول
میرا شوکا، ساری دنیا میں انمول

صرف اور صرف تمہاری ۔۔۔ پِینَو