دینا جوابات ہمارا

ہمیں ٹیگ کرنےکی سعادت ایک نہایت قدیم بلاگر کو حاصل ہوئی ہے۔ ہم ان کی بزرگی اور قدامت کا احترام کرتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے ہر ممکن حد تک آسان اور قابل برداشت جوابات دینے کی کوشش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دو ہزار بارہ میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟
لینڈ روور خریدنے کا ارادہ ہے۔ پچھلے دس سالوں کی طرح، اس سال بھی یہ پورا ہونا ظاہری اسباب کے مطابق ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ بال کٹوانے کابھی پروگرام ہے!۔ 

دو ہزار بارہ میں کس واقعہ کا انتظار ہے؟
فرحان دانش سے ملاقات کا اور دنیا تباہ ہونے کا۔

دو ہزار گیارہ کی کوئی ایک ناکامی؟
ناکامی تو کوئی چیز نہیں ہوتی میرے خیال میں۔ ایک یاددھانی البتہ ضرور ہوتی ہے کہ آپ کی مطلوبہ منزل ابھی تک نہیں آئی لہذا سفر جاری رکھیے۔

دو ہزار بارہ کی کوئی ایک ایسی بات جو بہت یادگار یا دل چسپ ہو؟
ڈفر، عمر بنگش، مولبی، امتیاز شاہ سے صوتی اور شاکر عزیز سے بالمشافہ ملاقاتیں۔

سال کے آغاز پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟
اس سوال سے مجھے ببو برال مرحوم یاد آگیا، جس نے ایک سٹیج ڈرامے میں، یہی سوال اشرف راہی سے بزبان پنجابی پوچھا تھا کہ "کیہ مسوس کررئے سو؟" مزید وضاحت کے لیے ڈرامہ ملاحظہ کریں۔

کوئی چیز یا کام جو ۲۰۱۲ میں سیکھنا چاہتے ہوں؟
خوشامد المعروف لیسیاں المعروف ٹی سی۔

اب ہم اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے شہتیر کو جپھّا مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان عظیم بلاگرز کو ٹیگ کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ 

چڑھنا شیر کا شجر خم دار پر


شیر، کہ جنگل کا "بادشاہ" المعروف باچھا ہوتا ہے، اس کی اپنی خالہ سے کبھی نہیں بنی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ خالہ اس دور جدید میں خود کو "خالہ" کے دقیانوسی اور رجعت پسند نام سے پکارا جانا پسند نہیں کرتی اور اس کا انگلش متبادل خالہ کی عمر بارے سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔ شیر کی خالہ چونکہ بربنائے مونث ہونے کے پروپیگنڈے میں خوب طاق ہے لہذا اس نے چار دانگ عالم یہ مشہور کررکھا ہے کہ شیر کو شجر پر چڑھنا نہیں آتا۔ ہم تو اس سوال کو ہی بالکل غیر ضروری خیال کرتے ہیں کہ درخت پر چڑھنا تو ویسے ہی نہایت غیر ادبی سرگرمی ہے اور اس کے صحت پر مضر اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں اگر آپ کا ہاتھ "پُونڈیوں کے چھتّے" سے جا ٹکرائے۔ ویسے بھی درختوں پر چڑھنا بقول حضرت ڈارون، انسان کی قبل از ارتقاء قسم کو ہی زیب دیتا ہے جس پر بعد از ارتقاء والی قسم نے "آنیاں جانیاں" والا لطیفہ بھی گھڑ رکھا ہے۔ شیر چاہے درخت پر چڑھے یا زمین پر رہے، شیر ہی ہوتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ کسی چیز پر نہ چڑھنے سے اس کی تنزّلی ہوجاتی ہو اور وہ شیر سے بِلاّ ہوجاتا ہو۔ ہاں البتّہ کچھ بلندیاں ایسی ضرور ہیں کہ وہاں نہ چڑھ پانے پر اس کی "شیریت" شک میں پڑ سکتی ہے۔
ہم نے کسی حیوانی چینل پر ایک جنگلیاتی فلم ملاحظہ کی تھی جس میں لگّڑ بگّڑ مل جل کے ایک شیر کا شکار کرتے دکھائے گئے تھے۔ لگّڑ بگّڑ کو دیکھنے کے بعد ہمیں دوسری دفعہ اسم با مسمّی والے محاورے کی سمجھ آئی تھی۔ (ضروری نوٹ: پہلی دفعہ بارے پوچھ کر فساد کھڑا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ شکریہ)۔ ہمیں یہ فلم دیکھنے کے بعد اس چیز کی بالکل سمجھ نہیں آئی کہ اگر لگّڑ بگّڑ اتنے ہی طاقتور اور بہادر ہوتے ہیں تو ہر زبان میں شیردل ہونے کو بہادر ہونے کا متبادل کیوں سمجھا جاتا ہے اور اسے کیوں نہیں لگّڑ بگّڑ دل سے بدل دیا جاتا؟
محاوروں کا ذکر چل نکلا ہے تو ہم یہاں واضح کرتے چلیں کہ ہمارے محاورات کی اکثریت انتہائی غلط تصورات پر مبنی ہے۔ مثلا کھسیانی بلّی کھمبا نوچے۔ ہمارے خیال میں تو ہمیشہ غصیلی بّلی ہی کھمبا نوچتی ہے۔ کھسیانی بّلی بے چاری توکچھ بھی نوچنے کے قابل نہیں رہتی۔ اسی طرح، نیکی کر دریا میں ڈال، ہے۔ جاپانی کہاوت ہے کہ ایک ہاتھ سے کام کرو اور دوسرے ہاتھ سے اس کام کا باجا بجاؤ۔ ہم کچھ ایسے احباب کو بھی جانتے ہیں جو چاہے کچھ نہ بھی کریں، باجا ضرور بجاتے رہتے ہیں۔ اور اگر کچھ کردیں تو ایک باجا نہیں بلکہ شادیوں پر بجنے والا بینڈ بجانے لگتے ہیں اس کام میں ان کی مدد کچھ فنا فی اللہ مجذوب کرتے ہیں جنہیں عام عوام مختلف اقسام کے القابات سے یاد کرتی ہے جن میں جھاڑیوں اور سینگوں کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے۔
نئے سال میں بھی پرانی چوّلیں۔۔۔۔دُر شاباش۔۔