میرا پسندیدہ شاعر

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ وہ پاکستان کے قومی شاعر بھی ہیں۔ آپ بہت عرصہ پہلے سیالکوٹ کے کسی محلے کے کسی گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ پیدائش کے وقت آپ صرف محمد اقبال تھے، ڈاکٹر، پی ایچ ڈی (اس وقت بھی ہوتی تھی!) کرنے کے بعد، سر، انگریز کی مہربانی سے اور علامہ، پاکستان بننے کے بعد بنے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی اور اعلی تعلیم انگلستان اور جرمنی وغیرہ سے حاصل کی جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے والد ایک متمول شخص تھے۔ ورنہ اس دور میں تو عام آدمی کے لئے لاہور سے امرتسر جانا مشکل ہوتا تھا کجا کہ فرنگیوں کے دیس میں بندہ سالوں گھومتا پھرے۔

علامہ اقبال کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے تمام مکاتب فکر کے لوگ مستفید ہوسکتے ہیں۔ سوشلزم والے "اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو" گاتے پھرتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ والے "نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کاشغر" کا الاپ جاپتے ہیں۔ علماء حضرات جمعے کے خطبے ان کے اشعار سے سجاتے ہیں اور اپنے اکابرین کے ان فتووں سے صرف نظر کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ کی شان میں دئیے تھے۔ سول سوسائٹی والے "ذرا نم ہو تویہ مٹی" کو اپنا ترانہ بنائے پھرتے ہیں۔مارشل لاء والے "بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے" کو اپنی ٹیگ لائن کے طور پر سجاتے رہے اور جمہوریت والے "سلطانیء جمہور کا آتا ہے زمانہ" گاتے رہے۔ فوج والے "شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن" کو اپنا ماٹو قراردیتے رہے ہیں۔ لیکن یہاں آکر ایک مخمصہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظام بندوق کے زور پر نافذ کرنے والے بھی اسی شعر کو اپنا ماٹو قراردیتے ہیں۔ اب اصل مومن کا فیصلہ کرنے کے لئے ہم پچھلے دس سال سے الجھے ہوئے ہیں! اور تو اور ہندوستان والے بھی ان کے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" کو اپنا پسندیدہ ترین ملی نغمہ سمجھتے ہیں۔

علامہ اقبال کی سیاسی خدمات بھی بے پناہ ہیں۔خطبہ الہ آباد کسی نے پڑھا ہویا نہ پڑھا ہو، اتنا ضرور جانتا ہے کہ پاکستان کا نظریہ اس میں پیش کیا گیاتھا۔ اور اس کی تصدیق کرنا کوئی ضروری نہیں سمجھتا کہ بزرگوں کی باتوں پر شک کرنا بےادبی ہوتی ہے۔ مبینہ طور پر پاکستان کا خواب بھی انہوں نے ہی دیکھا تھا۔ مبینہ اس لئے کہ اس خواب کی تعبیر وہ آج دیکھ لیں تو خواب دیکھنے سے ہی توبہ کرلیں۔ چند محققین یہ بھی کہتے ہیں کہ جس تصویر کو بنیاد بنا کر ان پر مفکر پاکستان کا ٹیگ لگایا گیا ہے، اس میں تو وہ انتظار کررہے ہیں کہ علی بخش حقہ تازہ کرکے کب لاتا ہے؟ اور سوچ رہے ہیں کہ اگر علی بخش اسی طرح ہر کام دیر سے کرتا رہا تو وہ اس کی جگہ نیا ملازم رکھ لیں گے!

فرض کیجئے اگر علامہ اقبال نہ ہوتے تو پی ٹی وی کے خبرنامے کے بعد اظہر لودھی کی آواز میں کس کے اشعار پڑھے جاتے؟ حسرت موہانی کے تو کم ازکم نہیں۔ سوچئے، خبرنامے کے بعد اظہر لودھی یہ شعر پڑھتے تو کیسے لگتے کہ
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ۔۔۔

اتفاق (فونڈری نہیں) سے پچھلی دو تحاریر میں ایک درخواست ہے اور دوسرا خط۔ لہاذا میں نے سوچا کہ اردو "ب" کے پرچے کی تیاری پوری ہوجائے، اسی سلسلے میں یہ مضمون قلم بند کیا گیا ہے۔ المشتہر۔۔۔۔ جعفر عفی عنہ۔۔۔